تبصرہ کتب ایوب خاور کی 'محبت کی کتاب'

عاطف بٹ

محفلین
سرکاری ملازمت کی وجہ سے مجھے جو کچھ ناپسندیدہ کام کرنے پڑتے ہیں انہی میں سے ایک کام پر مجھے ان دنوں مامور کیا گیا ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے عبدالرحمٰن کے شدید علالت کے باعث اسپتال میں ہونے کے باوجود میں صبح سے شام تک بےتکان اس کام کی انجام دہی میں لگا رہا کیونکہ میرے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے جس کی وجہ سے مجھے سرکاری نظام کے بہت سے معاملات کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ یہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ سے میں نے کیا کچھ جانا ہے اس پر میں کسی اور وقت بات کروں گا کیونکہ یہ ایک طویل موضوع ہے اور ابھی دامنِ وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ میں اس موضوع پر بات کرسکوں۔

خیر، گزشتہ روز کام کے دوران اتفاق سے دو گھنٹے کا وقفہ مل گیا۔ میں چونکہ کلمہ چوک کے قریب تھا، لہٰذا سوچا کہ گھر جانے کی بجائے 'ریڈنگز' کا رخ کیا جائے کہ پچھلے تقریباً دو ماہ سے ادھر جانے کا موقع ہی نہ مل پایا تھا۔ کلمہ چوک پر انجینئروں کی بنائی ہوئی بھول بھلیوں سے گزر کر میں چند ہی منٹ میں ریڈنگز پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پہلے کچھ الماریوں پر سرسری سی نظر ڈالی اور پھر فلسفے کے شعبے میں جا کر برٹرنڈ رسل کی History of Western Philosophy لے کر فرش پر پڑی گدی پر بیٹھ گیا۔ آدھ پون گھنٹے تک جناب رسل کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے بیٹھا رہا، پھر اٹھ کر کتاب رکھی اور دکان سے باہر نکل گیا کہ ایک دوست مجھے ملنے کے لیے آنے والے تھے۔ ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ انہیں مزید ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔ میں پھر دکان کے اندر چلا گیا۔

اندر جا کر میں کسی اجنبی شہر میں نووارد کی طرح ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔ مختلف شعبوں کی کتابوں کے ساتھ تاکا جھانکی کے دوران ایوب خاور کی 'محبت کی کتاب' پر نظر پڑی۔ کتاب کا سرورق اور اس پر لکھا ہوا گلزار کا جملہ اچھا لگا تو میں نے کتاب اٹھائی اور غیرارادی طور پر اسے پڑھنا شروع کردیا۔ ایوب خاور کا پونے دو سو صفحات کو محیط یہ منظوم ناول اس حد تک دلچسپ، مسحور کن اور عمدہ تھا کہ میرا اسے چھوڑنے کو جی ہی نہ چاہا۔ پڑھنا شروع کیا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ سنیچر کے روز ریڈنگز میں لوگوں کا ہجوم معمول سے زیادہ ہوتا ہے اور اپنے انتہائی خوبصورت بچوں کے ساتھ ایسی بہت سی بیبیاں بھی آئی ہوتی ہیں جنہیں مونی محسن 'سوشل بٹرفلائیز' کہتی ہیں۔

خیر، 'محبت کی کتاب' ہاتھ میں تھی اور میں دنیا و مافیہا سے بےخبر بس اسے پڑھتا چلا جارہا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایوب خاور نے ایک اچھے کہانی کار اور منجھے ہوئے شاعر کی طرح شروع سے آخر تک ہر مصرعے اور لفظ کو اس خوبصورتی سے چنا اور برتا ہے کہ قاری کا دھیان بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔ کتاب کا آخری صفحہ پڑھ کر کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو میرا دو گھنٹے کا وقفہ ختم ہوچکا تھا لیکن 'محبت کی کتاب' نے دل کو کچھ ایسا سرشار کردیا تھا کہ یوں لگا جیسے گزشتہ تین چار ماہ سے ذہن کے دریچوں پر پڑی بیزاری اور اضطراب کی گرد ایوب خاور کے الفاظ کی پھوہار سے دھل گئی ہو۔

9789699473463.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی "محبت کی کتاب" پر نظر کیسے پڑی۔ آپ نے اسے کسی رازداں کی شرارت سمجھ کر تو نہیں اٹھا لیا کہ دیکھوں کون کون سے راز فاش کر دیے ہیں۔۔۔ ریڈنگز ہی کیوں جاتے ہیں آپ۔۔۔۔ :p
 

جاسمن

لائبریرین
عبدالرحمن کی طبیعت اب کیسی هے؟ الله صحت کامل عطا فرمائے. آمین! سرکاری نظام کے معاملات په ضرور تفصیلی روشنی ڈالئیے گا.
 

عاطف بٹ

محفلین
عبدالرحمن کی طبیعت اب کیسی هے؟ الله صحت کامل عطا فرمائے. آمین! سرکاری نظام کے معاملات په ضرور تفصیلی روشنی ڈالئیے گا.
جزاک اللہ خیراً۔ الحمدللہ عبدالرحمٰن اب ٹھیک ہے۔ جی ضرور روشنی ڈالوں گا، آج کل میں اپنے مقالے اور ایک پروجیکٹ کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف ہوں۔ پہلی فرصت میں سرکاری نظام کے حوالے سے کچھ لکھوں گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا!
 
Top