کلیم عاجز اک عمر چاہیے تکمیل داستاں کے لیےا

الگ مقام ہیں دونوں کے امتحاں کے لیے
خرد کہاں کے لیے ہے جنوں کہاں کے لیے

جنابِ عشق ہی کرتے ہیں جو بھی کرتے ہیں
ہمارا نام تو ہے زیبِ داستاں کے لیے

غزل میں آئیگی کیا دلکشی کہ میرے پاس
سوائے غم کوئی پہلو نہیں بیاں کے لیے

چمن کو دیکھ کے اکثر یہ سوچتا ہوں میں
دعا بہار کی مانگی تھی یا خزاں کے لیے

میں جل رہا ہوں یوں ہی جلتے رہنے دو مجھکو
چراغ راہ بتاتا ہے کارواں کے لیے

ہمارے دل کی کہانی طویل ہے عاجز
اک عمر چاہیے تکمیل داستاں کے لیے

کلیم عاجز
 
Top