اک عجب کیفیتِ ہوش ربا طاری تھی (سرور ارمان)

اک عجب کیفیتِ ہوش ربا طاری تھی
قریہء جاں میں‌کسی جشن کی تیاری تھی

سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختہء دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی

خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابضِ تختِ وراثت کی ریاکاری تھی

ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی
ہجر بردوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی

اور سب ٹھیک تھا بس ہم سے بھلائی نہ گئی
تیرے خاموش رویے میں جو بیزاری تھی

اک قیامت تھی کہ رسوا سرِ بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی

تیرے محکوم ترے حاشیہ برداروں کی
صرف وردی ہی نہیں سوچ بھی سرکاری تھی

(سرور ارمان)
 

محمد وارث

لائبریرین
اک عجب کیفیتِ ہوش ربا طاری تھی


قریہء جاں میں‌کسی جشن کی تیاری تھی

اس شعر میں شاعر نے 'کیفیت' کو بغیر تشدید کے باندھا ہے، جب کہ صحیح لفظ 'کیفیّت' یعنی یے کی تشدید کے ساتھ ہے، جیسا کہ اس ربط سے بھی ظاہر ہے۔

مجھے نہیں علم کہ کسی استاد نے اسے بغیر تشدید کے باندھا ہے یا نہیں، اگر نہیں باندھا تو پھر مذکورہ مصرع بے وزن ہے۔

سند کے طور پر سودا کا شعر دیکھیے جس میں تشدید ہے:

کیفیّتِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
 
اس شعر میں شاعر نے 'کیفیت' کو بغیر تشدید کے باندھا ہے، جب کہ صحیح لفظ 'کیفیّت' یعنی یے کی تشدید کے ساتھ ہے، جیسا کہ اس ربط سے بھی ظاہر ہے۔

مجھے نہیں علم کہ کسی استاد نے اسے بغیر تشدید کے باندھا ہے یا نہیں، اگر نہیں باندھا تو پھر مذکورہ مصرع بے وزن ہے۔

سند کے طور پر سودا کا شعر دیکھیے جس میں تشدید ہے:

کیفیّتِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

محمد وارث صاحب! آپ نے بالکل درست فرمایا۔
بہت جلد صاحبِ غزل کو مطلع کر دیاجائے گا۔ بہت بہت شکریہ
 
Top