مصحفی اک تو آگو ہی ترستے تھے نظر کرنے کو

غزل

اک تو آگو ہی ترستے تھے نظر کرنے کو
تس پہ پھر حکم ہوا شہر بدر کرنے کو

کون مدفون ہے ایسا جوترے کوچے میں
روز آتی ہے صبا خاک بسر کرنے کو

نالہ یا آہ ، بن اسکے تو گزرتی ہی نہیں
چاہیے کچھ بھی تو اوقات بسر کرنے کو

وے اولی العزم کدھر رہ گئے جو قافلے میں
ساتھ تھے محملِ لیلےٰ کے سفر کرنے کو

کربلا ہے یہ گلی کیا ؟ جو نہیں ملتا یہاں
ایک قطرہ بھی لبِ خشک کے تر کرنے کو

ہیں کھلے چاک قفس لیک گلستاں میں ہمیں
حکمِ صیاد نہیں گُل پہ نظر کرنے کو

یہ چمن جائے اقامت نہیں جب تو شب سے
غنچے گٹھری ہوئے بیٹھے ہیں سفر کرنے کو

ان دنوں بس کہ زمانے میں نہیں قدِ ہنر
ہم سمجھتے ہیں ہنر، ترکِ ہنر کرنے کو

مصحفی یوں تو سبھی شعر و سخن کہتے ہیں
چاہیئے لطف ِ سخن دل میں اثر کرنے کو​
 
Top