اک آسیب نگر ہے، دیکھ نہ میرے دل کی اور۔اسلم کولسری

اک آسیب نگر ہے، دیکھ نہ میرے دل کی اور
چاروں جانب سناٹا ہے، چاروں جانب شور
چھپ کے جا بیٹھی ہے میرے من کے اندر دھوپ
چھائی تو کیا چھائی میرے سر پہ گھٹا گھنگھور
جانے آنکھوں میں بھر جائے کیوں ایسی تصویر
آزادی سے شہرو ں کی سڑکوں پر ناچیں مور
بندر جیسا ناچ رہا ہوں میں قرنوں کے بیچ
رہیں سلامت جن ہاتھوں میں بھی ہے میری ڈور
کیا بتلاؤں اپنی منزل اور کیا جانوں راہ
میں ردی کا غذ کا ٹکڑا اور آندھی کا منہ زور
اس نے دروازے میں چُن دی نخوت کی دیوار
اور اس کارن بے دستک بھی زخمی ہے ہر پور
میری مانو، اسلمؔ ، اپنے کام سے رکھو کام
شعروں سے ظاہر ہو جاتا ہے اندر کا چور
 
Top