اپنے گھر سے کہیں گیا ہی نہیں ٭ شیرآشفتہ سر

اپنے گھر سے کہیں گیا ہی نہیں
اور جانا کہاں پتہ ہی نہیں

ہم سفر کس کو ہم بنا لیتے
شخص کوئی ہمیں جچا ہی نہیں

اب تو صورت بنا رہا ہوں تری
نام تیرا میں نے رکھا ہی نہیں

میں نذر ہو گیا ہوں حوس کی
اور تو کہتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں

ہم کو کس بات کا گلہ تم سے
آپ نے کچھ کبھی دیا ہی نہیں

کوئی مسجد تو کچھ سیاست میں
شہر میں اب جواں بچا ہی نہیں

بس ملاقات ہوگئی تمام
ہم نے تو کچھ ابھی کیا ہی نہیں

آرزو میری جستجو تو دیکھ
عمر بھر چلا تھکا ہی نہیں

آپ سے مجھ کو پیار تو ہے مگر
کہنا تھا جو وہ تو کہا ہی نہیں

خلد میں حور کو کیا کریں ہم
جب یہاں کوئی ہم نوا ہی نہیں

مسکرایا ہمیں وہ دیکھتے ہی
پر کیا بات ہے ملا ہی نہیں

میں نے جی بھر کے کل اسے دیکھا
وہ بھی تصویر سے ہٹا ہی نہیں

اپنے ہونے کا کچھ ثبوت دو تم
لوگ کہتے ہیں اب خدا ہی نہیں

جون تیری زمیں پہ لکھ دی غزل
اور تو کہتا ہے کچھ لکھا ہی نہیں

آتے ہوں گے وہ لو جی آ گئے وہ
شہر سارا ابھی سجا ہی نہیں

حال دل سن لیا سنا بھی دیا
وصل میں تیرے تو مزہ ہی نہیں

اب سکوں ہے یہاں رہو بے خوف
شہر میں آدمی بچا ہی نہیں
شیرآشفتہ سر
 
Top