اپنے خوابوں کو سلا دوں کیسے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

اپنے خوابوں کو سلا دوں کیسے
رات آنکھوں میں بتا دوں کیسے

آگ تو دل میں لگا دوں اس کے
پر اسے عشق سکها دوں کیسے

ایک دیوار انا ہے سالم
سوچتی ہوں یہ گرا دوں کیسے

وہ مرا لمسِ شفا مانگے ہے
آگ سے آگ بجها دوں کیسے

راز الفت ہے یہ کهل جاتا ہے
اسے یہ راز بتا دوں کیسے
 

بھلکڑ

لائبریرین
سُبحان اللہ ۔۔۔
کیا خوب لکھا ہے محترمہ ۔۔۔بہت ساری داد قبول فرمائیے۔۔۔۔۔۔
ایک دیوار انا ہے سالم
سوچتی ہوں یہ گرا دوں کیسے
خاص طور پر یہ شعر تو بہت ہی اچھا ہے۔۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
پوری غزل کمال است! :) :) :)

ہمیں "اسے" میں کچھ مسئلہ لگ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس کو "اس سے" پڑھنا پڑے گا۔ اب یہ تو اساتذہ جانیں کہ کسی وزن میں کروٹیں لینے کی کتنی گنجائش ہوتی ہے۔ :) :) :)
جی جناب !
اس کی گنجائش ہے :)
دیکھئے غالب کا ایک شعر:

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیِ جاوید نہیں

دوسرے مصرع کا پہلا رکن (غ) ایک حرفی ہے۔۔۔

سارہ بشارت گیلانی صاحبہ
 
اگر اس غزل کو یوں کر لیا جائے تو ہماری رائے یہ ہے کہ روانی بہتر ہو جائے گی۔ ہرچند غزل بہت خوب ہے:

اپنے خوابوں کو سلاؤں کیسے​
رات آنکھوں میں بتاؤں کیسے​

دل میں آتش تو لگا دوں اس کے
پر اسے عشق سکهاؤں کیسے​

ایک دیوار انا ہے سالم​
سوچتی ہوں یہ گراؤں کیسے​

وہ مرا لمسِ شفا مانگے ہے​
آگ سے آگ بجهاؤں کیسے​

راز الفت ہے کہ کهل جاتا ہے​
اس کو یہ راز بتاؤں کیسے​
 

الف عین

لائبریرین
زبردست سارہ، مکمل غزل بالکل درست ہے، اوزان بھی اور خیالات بھی۔ مبارک ہو۔ باقی اشعار عزیزم مہدی کے مشورے کے مطابق زیادہ رواں ہو سکتے ہیں، اس میں شک نہیں۔ لیکن مطلع میرے خیال میں موجودہ صورت میں ہی بہتر ہے۔
آخری شعر کے ‘اسے‘ میں بھی کوئی مسئلہ نہیں جیسا شوکت نے مثالیں دے کر واضح کیا ہے۔ فاعلاتن فعلاتن فعلن بحر ہے اس کی، اور اس کے شروع میں فَ عِ لاتن کرنے کی اجازت ہوتی ہے میرے خیال میں۔
 
Top