اپنے بھی خفامجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

ابن جمال

محفلین
اپنے بھی خفامجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

مجیب الرحمن عتیق ندوی

آج دنیا جس دو راہے پر ہے، عالم اسلام طاغوتی و استعماری دشمن طاقتوں کے منصوبوں اور فسادی کاروائیوں سے دو چارہے ، وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ، ماضی قریب میں افغانستان کی اسلامی حکومت کو ختم کر کے ''ملا کو ان کے کوہ دمن'' سے نکال دیا گیا، عراق کو تاراج کر دیا گیا ، فلسطین مین اسرائیل کی ظالمانہ و سفا کانہ کارروائیاں اور ''عالمی امن کے ٹھیکداروں'' کی حمایت کس سے مخفی ہے ،ملک شام میں ظالم و سفاک نصیریوں کے ذریعہ کشت وخوں کا بازار گرم ہے، مصر میں نصف صدی سے زائد کی قربانیوں کے بعد اخوان کی جائز و قانونی حکوت قائم ہوئی ، تو اسرائیل و امریکا کے سینے پر سانپ لوٹ گیا ، اور یہ حکومت ان کی آنکھوں میں کانٹے کے مانند چبھنے لگی ، زر خرید غلاموں اور بے ضمیر و بے حس ایمان فروشوں کے ذریعہ اس کا تختہ پلٹ دیا گیا ، غیروں کے ساتھ مل کر اپنوں نے اس کی حمایت کی ، نام نہاد اسلامی حکومتوں نے بالخصوص سعودیہ عربیہ ، امارات اور کویت نے جوکردار ادا کیا وہ انتہائی شرمناک ہے ، کوئی باہوش وغیور مسلمان اس کو گوارا نہیں کر سکتا ، یہ وہ صورت حال اور پس منظر ہے جس کو دیکھ کر باضمیر و غیور علماء مفکرین ، دانشور تڑپ اٹھے ، ان کا خون جگر ، سوز دل اپنوں کی بے حسی ، عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے غیرتی اور خون مسلم کی ہر سمت ارزانی دیکھ کر نوک قلم و زبان پر آگیا ، بر صغیر ہندوپاک میں عرب حکمرانوں اور بالخصوص مملکت سعودیہ عربیہ کے مجرمانہ بلکہ منافقانہ کردار پر ایک مرد قلندر کا دل درد مند تڑپ اٹھا ،اس نے اپنی زبان و قلم کو حق گوئی کے لئے وقف کر دیا ،اور اس کی حق گوئی جرأت و بے باکی ، شان بے نیازی نے میدان میں خم ٹھونک کر کہدیا

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نے تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مولانا سید سلمان حسینی ندوی دام ظلہ نے صحیح بات یہ ہے کہ قلندروں کا طریق اختیار کیا ، مولانا ان علماء حق او ر داعیان حوصلہ مند میں ہیں جنہیں نہ معتصم کے کوڑوں کا خوف ہوتا ہے اور نہ متوکل کی تھیلیوں کا لالچ ، مولانا محترم نے اپنے بیانات و تحریروں میں عالم اسلام کی صورت حال ، ملک شام میں خون مسلم کی ارزانی اسرائیل و امریکا کے زر خرید غلاموں کے ذریعہ مصری حکومت کے خاتمہ ، اور عالم عرب بالخصوص مملکت سعودیہ عربیہ ،کے حکمرانوں کی منافقانہ و مجرمانہ پالیسیوں کو واضح کیا ، ان کی اسرائیل و امریکا نوازی ، اور بے حسی پر ضرب کاری لگائی ، بعد میں ظاہر ہونے والے رد عمل ، اور مولانا کے خلاف بیان بازی نے ثابت کر دیاتیر نشانے پر لگا،مرغ بسمل تڑپ، کرب وبے چینی اس کی غماز ہے کہ چھری نے اپنا کام کردیا، اس ضرب سے مملکت عربیہ ہی نہیں بلکہ اس کے سیم و زر پر پلنے والے افراد ۔ جو اپنا حق نمک ادا کر کے ہر جرم پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ریال کی گرمی وتپش سے کتنے جبے و دستار خاکستر ہو گئے ۔ نے شخصی مصلحت یا عافیت کو شی کو دینی وملی مصلحت پر ترجیح دی ، سلفی حضرات سے تو شکایت ہی کیا ہے کہ ان کا یہی مشغلہ ہے، ان کا طائر فکر زندگی کے سطحی معیار سے اوپر پرواز ہی نہیں کرتا ، جن کی تگ ودو یا'' دوکف جو'' تک محدود ہوتی ہے یا اسلاف پر طعن و تشنیع اختلاف و انتشار اہم مشغلہ ہو تا ہے ، چنانچہ معراج ربانی صاحب سے لیکر (تادم تحریر مؤرخہ ٢٤۔دسمبر٢٠١٣) مولانا اصغر امام مہدی تک تحریر و تقریر کاجو سلسلہ چلا ہے ، اس کو دیکھ کر بے ساختہ ایک عرب شاعر کا شعر زبان پر آ گیا

خلق اللہ للخطوب أناسا ،
وأناسا لقصعة و ثرید

اللہ نے اپنی مخلوق میں بعض انسانوں کو وسعت افلاک پر تکبیر مسلسل کا حوصلہ بخشا ہے ، ان کو عزم وہمت اور قلندری کا ایسا مزاج بخشا ہے جو ہر سنگ راہ کو پائے استقامت و استقلال سے ٹھکراتے ہیں ، ان کی جرأت و بے باکی اور ہمت ومردانگی کے آگے بڑی بڑی مشکلات وخطرات سر بسجود ہوتے ہیں ، اور بعض انسانوں کو خدا نے گوشت وروٹی کی جستجو ، پیالے وبرتن ،اور درھم ودینار کی چاکری کے لئے پید اکیا ہے ، متعدد سلفی علماء کے مضامین مملکت سعودیہ کی مداحی اور اس کے مجرمانہ کردار کی پردہ پوشی کے لئے رسالوں میں اور فیس بک پر آئے ، انہیں کون روک سکتا ہے کہ جمہوری تماشے کا عہد ہے ، جس مضمون کو پڑھئے ، ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے کا قلب وضمیر ،خود اندر سے ملامت کر رہا ہے مگر وہ حق نمک ادا کرنے کے لئے مجبور ہیں ،شب برأت یا دیوالی کے موقع پر جس طرح گاؤں دیہات میں غیر لائسنسی اسلحہ بلا ضرورت رکھنے والے کسان پٹاخوں کے شور میں اپنے اسلحہ بھی صاف کرلیتے ہیں،ہر کس وناکس اپنی وفاداری جتانے کے لئے یا موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے قلم وقرطاس کی آبرو سے کھلواڑ کررہاہے، تعجب وحیرانی اس وقت ہوئی جب ایک بیان ہندوستان کے مشہور ومعروف عالم دین ، ایک بڑی جمعیت کے زبردستی بننے والے قائد ، ام المدارس دار العلوم دیوبند کے معروف و محترم استاذ حدیث ہی نہیں بلکہ '' عظیم آبائ''کی طرف نسبت رکھنے والے ایک عظیم المرتبت شخص نے سعودیہ کی مدحت و ثنا خوانی کا کلمہ پڑھا بلکہ اپنے بیان کی طاقت وقوت کے غلط اظہار کے لئے اس کو دار العلوم دیوبند اور اس سے منسلک اداروں ، اور ہندوستان کے بے شمار علماء کا موقف قرار دیا ، مجھے حیرت ہے کہ جس کے نام و صدارت پر مسجد عبد النبی اور اس سے منسلک دفاتر و مہمان خانے کے کمرے متحد نہیں ہیں ، جو قومی و ملی ، دینی و اسلامی مصالح کے لئے ایک نام پرجمع نہ ہو سکے انہوں نے اپنے جانب دارانہ موقف ، اور بے جا بیان بازی کو پورے دیوبند کا مسلک قرار دے ڈالا ،

بات کیا کہی گئی تھی ، اور اس کو کیا بنا دیا گیا ، بات امریکا واسرائیل نوازی اور موالات یہود ونصاری کی تھی ، جواب ظاہر کی خوشنمائی سے دیا گیا ، اشکال مجرمانہ کر دار اور منافقانہ پالیسیوں پر تھا ، جو اب رفاہی کاموں کے حوالے سے دیا گیا ،مسئلہ عالم اسلام میں طاغوتی واستعماری طاقتوں اور مجرموں کے ذریعہ خون مسلم کی ارزانی اور خاموش تماشائی بننے کا تھا ،جواب کے لئے سقایہ زمزم ، حجاج کی خدمت کا سہارا گیا،!! خدمت حرمین، غسل کعبہ کو بنیاد بنا کر حقائق کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش ''سعادت مندخادمان خادم الحرمین''اور طالبان مال وزر نے کی ، کیا وہ مسائل جن کو مولانا سلمان صاحب ندوی صاحب نے اٹھایا ہے غلاف کعبہ میںچھپ سکتے ہیں ، یا مملکت سعودیہ کا وہ کردار جو اہل نظر کے لئے کھلی کتاب ہے آب زمزم سے شرمندئہ پاکی ہو سکتا ہے ، اگر نہیں تو پھر اس تزویر وفریب کی ضرورت کیا ہے ، قرآن کریم مشرکین مکہ کی خدمت حجاج اور سقایہ زمزم کو ایمان و راہ حق کے مسافروں کی استقامت وعزیمت ، حوصلہ مندی و جاں فروشی کے برابر نہیں قرار دیتا ، فرمان باری ہے '' أجعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن باللہ و الیوم الآخر و جاھد فی سبیل اللہ لا یستوون عند اللہ '' کاش مولانا مدنی اس مرد مجاہد، اسیر مالٹا، محدث عظیم مولانا حسین احمد مدنی ، اورشیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی کے اسوئہ عزیمت و استقامت کودیکھتے جنہوں نے خاک نشینی و فاقہ مستی کو اپنے سر کا تاج بنایا ، اور انگریزوں کی ہر مراعات کو ان کے پائے استقلال کی ٹھوکریں نصیب ہوئی ، جنہوں نے مسند حدیث کو زینت بخشی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ روس و حجاز، الجزائر وافغانستان کی سرزمین ان کی فکر وعزیمت کے نقوش سے محروم نہ رہی ۔

مولانا اصغر امام مہدی نے تو اپنے مضمون میں حد ہی کردی جب انہوں نے اپنا مطلع غزل یوں کہا '' مملکت سعودی عرب روئے زمین پر وہ واحد ملک ہے جس کی اساس قرآن وحدیث کی تعلیمات پر استوار کی گئی ہے '' اور بیت الغزل یو ںارشاد ہوا ''لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ایک ایسا شخص جس کی زندگی کا اچھا خاصہ حصہ اسی مملکت کی فلاح وسعادت کی علمی وروحانی فضاؤں میں گذرا،جس نے وہاں کے علماء ومشائخ سے برسوں اکتساب فیض کیا،اور کسی لائق ہوکر متعدد ادارے قائم کئے،اسی مملکت سعودیہ کے خلاف زور خطابت کے ذریعہ عجیب وغریب اوربے بنیاد باتیں کر رہا ہے اور مملکت توحید کی روشن وتابندہ تاریخ کو داغدار کرنے اور اسلامی حکومت اور اس کے شریف النسب، انصاف پرور اعتدال پسند امن و دوست اور انسانیت نواز حکمرانوں کی کردار کشی کی بے جا جسارت کر رہا ہے ، سعودی حکمرانوں کی خدا ترسی ، دین پسندی ، اخلاص وللہیت ، ملک کے تئیں احساس ذمہ داری ، عوام و خواص کی خیر خواہی علماء نوازی ، احترام آدمیت، خدمت انسانیت اور دینی و سیاسی بصیرت کی برکت ہے کہ آج مملکت سعودی عرب کے اندر اسلامی نظام حکومت قائم ہے ، دین داری و خدا ترسی کا دور دورہ ہے '' اس مدحت طرازی، اور حق نمک کی ادائیگی کے جذبہ،اور بے جا ثناء خوانی کو ملاحظہ کیجئے اور اقبال کا یہ مصرعہ گنگنائیے

''سو کام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں''

مولانا مہدی صاحب کو اردو کے تشبیہات و استعارے جو یاد تھے انہوں نے وہ اپنی غزل میں کہہ دئے ، کاش کے کوئی قلب بینا اور گوش شنو اہو جو یہ کہہ سکے کہ طباعت قرآن ، غسل کعبہ ، خدمت حرم ، اور دعاة کی کفالت کا نام اسلامی نظام نہیں ہوتا ،قباء خلافت چاک ہونے کے بعد چھوٹے چھوٹے ٹکڑوںپر قومیت کے جذبہ سے قائم ہونے والی حکومتیں '' شریف النسب '' نہیں کہلا سکتیں ، شام و مصر میں لاکھوں انسانوں کے قتل پر خاموشی ہی نہی بلکہ شمولیت ''احترام آدمیت و خدمت انسانیت ''کیسے ہو سکتی ہے ؟ اپنے عیش و آرام، جبوں اور غطروں، تعیش پسندی کی ترجیحات ''دینی وسیاسی بصیرت ''کس منطق سے ہو سکتی ہے ،افغانستان کی اسلامی حکومت کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا گیا ،مصر کی اسلامی حکومت جو جائز اور قانونی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی اس کا تختہ الٹ دیا گیا ، سعودی عرب کی ''اسلامی حکومت'' سے '' مصلح اعظم '' کوئی خطرہ نہیں بلکہ ان کی ولاء و مودت اور دوستی کھلی کتاب ہے ، یہ کون سا اسلام ہے ، کیا '' مصری اسلام '' افغانی اسلام '' اور سعودی اسلام میں فرق ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وہ'' صلح پسندانہ اسلام ''ہے جس کی پیش کش لات ومنات کے پجاریوں نے کلمہء توحید کی ضرب سے تلملا کر اپنے نظام جاہلی کے تارپور بکھرتے دیکھ کر محمد ۖسے کی تھی ، جسکا قرآنی جواب '' لا أعبد ما تعبدون ''تھا۔ مجھے اس وقت اس موضوع کی وضاحت نہیں کرنا ہے ، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں دینی ، ملی ، اسلامی ، مصالح کو سامنے رکھ کر ، شخصی و سطحی منفعت کے دائرے سے اوپر اٹھ کر ایک'' کلیم سر بکف ''نے حق و بے بیباکی کا ثبوت دیا تو'' لاکھو ںحکیم سر بجیب'' اپنے اپنے نسخے لیکر طبع آزمائی کرنے لگے ، اور آنکھوں کے سامنے وہ نقشہ آگیا جب معتصم کے کوڑوں سے لہو لہان ، پابہ زنجیر ، عزم وہمت کے کوہ گراں امام احمد بن حنبل نے نماز ادا کی ، تو بعض علماء نے فقہ کا یہ نکتہ پیش کیا کہ '' آپ نے نماز کس طرح ادا کر لی آپ کے کپڑوں سے خون بہہ رہا تھا'' تو امام احمد نے ان کوخاموش کرنے کے لئے فرما دیا تھا '' وقد صلی عمر و جرحہ یثعب دما'' کہ شہید منبر ومحراب حضرت عمر نے رضی اللہ عنہ نے نماز عشق ایسی حالت میں ادا کی تھی ، کہ خون جاری تھا ،

بہر حال مولانا سید سلمان ندوی مدظلہ پر جو اعتراضات قلم و زبان کے ماہرین ، اور ملت کے قائدین نے کئے ہیں ، ان میں بنیادی طور پر سعودیہ کی مداحی کے لئے خدمت حجاج ، قیام امن ، اور انسانیت نوازی کو دلیل بنایا گیا ہے ، ساتھ ہی بہت سے عطائیان وقت نے یہ گھٹیا اور پلید بات کہی ہے کہ سعودیہ کے پیسے کھائے ، وہاں سے اکتساب فیض کیا ، وہاں سے استفادہ کیا ، وہاں پلے بڑھے ، اور آج اس پر تنقید کر رہے ہیں ، یہ ایک غیر شریفانہ '' سطحی سوچ کا نتیجہ ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ حکومت سعودیہ نے اگر قومی وملی سرمایہ پر قبضہ کرکے اس کا ایک معمولی حصہ قوم کے لئے یا قوم کے کسی فرد کے لئے صرف کردیا،تو اس میں احسان کی کیا بات ہے،یہ تو اس کی شرعی واخلاقی ذمہ داری تھی،غور کا مقام یہ ہے کہ ان حکمرانوں نے قومی سرمایہ کو قوم کے لئے کتنا اور اور اپنے تعیشات وذخیرہ اندوزی ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف کتنا استعمال کیا،اسلام مخالف طاقتوںاور یہود ونصاری نے اس سے کتنا استفادہ کیا!!!

ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکھا یہ بازی گر کھلا

دوسری بات یہ کہ احسان شناسی یہ نہیں ہے کہ منکر پر پردہ ڈال دیا جائے، احسان مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے حق بات کہی جائے، محض مدحت طرازی،یا حق وباطل کی تزویر یہ اہل ظرف کا شیوہ اور اہل حق کا طریق نہیں،وہ حق کے اظہار،منکر کی نکیر میں کوئی ہچکچاہٹ،لجلجاہٹ وعار نہیں محسوس کرتے، ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اپنے اندر عزم وحوصلہ،اظہار حق کی جرأت وہمت پیدا کریں،میں فی الحال یہ موضوع مولانا آزاد کے ایک اقتباس پر ختم کرتاہوں،باقی ''یار زندہ صحبت باقی''

مولانا آزاد نے کیا خوب کہا تھا''ایک مسلمان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ حق کا اعلان نہ کرے اور ظلم کو ظلم نہ کہے،بالکل ایسی بات ہے کہ یہ کہاجائے کہ وہ اسلامی زندگی سے دست بردار ہوجائے…مسلمان کا فریضہ ہے کہ جس سچائی کا اسے علم ویقین دیا گیا ہے،ہمیشہ اس کا اعلان کرتا رہے،اور ادائے فرض کی راہ میں کسی آزمائش ومصیبت سے نہ ڈرے،علی الخصوص جب ایسا ہو کہ ظلم کا دور دورہ ہوجائے اور جبرو تشدد کے ذریعہ اعلان حق سے روکا جائے،تو پھر یہ فرض اور زیاہ لازمی وناگزیر ہوجاتا ہے،کیوں کہ اگر طاقت کے ڈر سے لوگوں کا چپ ہونا گوارا کرلیا جائے،اور ''دو'' اور ''دو'' اس لئے ''چار'' نہ کہا جائے کہ ایسا کہنے سے انسانی جسم مصیبت میں مبتلا ہوجاتاہے، توپھر سچائی اور حقیقت ہمیشہ کے خطرہ میں پڑجائے،حق کے ابھرنے اور قائم رہنے کی راہ باقی نہ رہے،حقیقیت کا قانون نہ تو طاقت کی تصدیق کا محتاج ہے،اور نہ اس لئے بدلا جاسکتا ہے کہ ہمارے جسم پر کیا گذرتی ہے،وہ تو حقیقت ہے،اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب ہمارا جسم آگ اور شعلوں کے اندر جھونک دیا جائے، صرف اس لئے کہ ہمیں قید کردیا جائے گا آگ میں ٹھنڈک اور برف میں گرمی نہیں پیدا ہوسکتی'' اور
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
 
Top