اپنی ساری شاعری منسوخ بھی کر سکتا ہوں..........نئی شاعری کے نقیب ظفر اقبال سے ایک مصاحبہ

فلک شیر

محفلین
ذیل میں نامور شاعر جناب ظفر اقبال سے بی بی سی کے لیے انور سن رائے کاکیا گیا مصاحبہ(انٹرویو) پیش خدمت ہے۔ظفر اقبال صاحب کے خیالات سے اختلاف و اتفاق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، البتہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نئی اردو غزل اور شعراء پہ ان کے اثرات ایک یا دوسری طرح ضرور پڑے ہیں۔

405736_002.jpg

ظفر اقبال سے مصاحبہ ........بی بی سی اردو

سوال: ظفر اقبال صاحب! اب کم و بیش نصف صدی ہونے کو ہے آپ کی شعر گوئی کو اور اس دوران آپ نے شاید سب سے زیادہ لکھا ہے، تو کیا ہے، جو آپ کو سب سے الگ اور ممتاز کرتا ہے؟


ظفر اقبال: میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ ایک ہی معاشرے میں، ایک ہی آب و رنگ میں، ایک ہی زمین پر، ایک ہی پانی پیتے ہوئے سارا کچھ، تو میں اپنے ہم عصروں سے اتنا زیادہ مختلف نہیں ہو سکتا، تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے انیس بیس کا، میں نہیں سمجھتا کہ میں سب سے بہت اوپر ہو گیا ہوں، نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی شعور کی بات ہے جو میں کہہ رہا ہوں، اس میں آپ بھی شامل ہیں، اس میں فلاں بھی شامل ہے اور فلاں بھی شامل۔ میری شاعری میں جو عاجزی ہے۔ جو انکسار ہے، مثلاً میں نے کبھی تعلی کا شعر نہیں کہا۔ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے یہ کیا ہے میں نے یہ کہا ہے کہ یہ میں نے یہ کرنے کی کوشش کی ہے پتہ نہیں، ہوا ہے یا نہیں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے کلام میں اگر کچھ برکت اگر ڈالی ہے تو اس کی وجہ میرا انکسار بھی ہے۔ ابرار احمد کہا کرتے ہیں کہ یہ آپ کی چالاکی ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ یہ اگر چالاکی ہے، تو ذرا کر کے دکھاؤ۔ مبارک احمد کے بیٹے ہیں ایرج مبارک، وہ کہتے ہیں ظفر اقبال صاحب آپ نے اپنی ہر غزل میں کم از کم تین شعر اپنے خلاف کہے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ میرے ہاں ایک تنقیدی بلکہ ایک خود ہزیمتی موجود ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ جو کام دوسروں نے کرنا ہے وہ میں خود کیوں نہ کر لوں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چالاکی ہے تو یہ چالاکی کر کے تو دکھائیں، لکھیں ایک دو شعر اپنی غزل میں۔ اچھا ایک اور بات سے اس کا شبہ مجھے ہوتا کہ شمش الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں، خون کے پیاسے ہیں، لیکن وہ دونوں بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ظفر اقبال ہی اس وقت اردو دنیا کا، برصغیر کا سب سے بڑا غزل گو ہے۔ میں اپنے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں، حالانکہ میں نے کبھی اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ میں اپنی شاعری کے بارے میں کچھ نہیں کہتا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جتنا کشٹ میں نے اٹھایا ہے اس پیش نظر شعر وہ ہو گا جسے میں کہوں گا کہ یہ شعر ہے اور جس کو میں کہوں کہ شعر نہیں ہے وہ شعر نہیں ہو گا۔ میں تو اپنی شاعری کو خود مسترد کرتا ہوں اور کسی وقت اسے منسوخ بھی کر سکتا ہوں، ساری کی ساری کو۔
سوال: غزل کے تخلیقی عمل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟


ظفر اقبال: دیکھیے غزل کے لیے میرا ایک اپنا طریقۂ واردات ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں غزلوں کے سیٹ بناتا ہوں، مثلاً ایک غزل کہی ہے میں نے ایک زمین میں، تو اس کا قافیہ بدل کر میں نے ایک اور غزل کہی ہے۔ اگر اس میں اور قافیے نکلتے ہیں تو میں نے اور بھی کہی ہیں۔ میری دس دس بارہ بارہ غزلیں کر کے اس طرح ’سویرا‘ میں چھپتی رہی ہیں۔ اس سے مجھے ایک تو یہ سہولت رہتی ہے کہ مجھے نئی غزل کے لیے زمین نہیں تلاش کرنی پڑتی نمبر ایک، نمبر دو قافیے کے جو ویری ایشن اور امکانات ہیں ان کو برائے کار لانے میں مجھے مدد ملتی ہے۔ یہ تو میرا طریقۂ کار ہے۔

سوال:غزل کیسے کنسیو، محسوس یا شروع کرتے ہیں یا کہتے ہیں؟

ظفر اقبال: نہیں، میں عرض کروں کہ غزل کو مجموعی طور پر کنسیو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے کہ غزل ایک میکانیکل پراسس ہے۔ یہ قافیے کی مدد سے آگے چلتی ہے۔ قافیہ آپ کو سپورٹ کرتا ہے، آپ کو مضمون سُجھاتا ہے۔ دوسری بات میں اس طرح سے کہتا ہوں، جس میں آپ کی بات کا جواب بھی آ جائے گا کہ غزل کا ہر شعر دو مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ اگر منیر نیازی کی نظم ایک مصرعے کی ہو سکتی، جس کا عنوان اس مصرعے سے بھی بڑا ہے تو دو مصروں کی نظم کیوں نہیں ہو سکتی؟ اور خاص طور پر غزل کی سہولت یہ ہے کہ رسالوں میں آپ مطلع پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ نے غزل پوری پڑھنی ہے یا آگے چلا جانا ہے۔ جب کہ نظم کے مسائل میں یہ بھی ہے کہ ڈھائی سو مصرعوں کی ہے، تو، جب تک آپ اسے پورا نہ پڑھیں آپ اس پر رائے نہیں دے سکتے۔ نمبر تین اعجاز اور اختصار جو ہے یہ بھی غزل ہی کی ایجاد اور ریکمنڈیشن ہے۔ یہ جو غزل کی ہنر مندی، اوصاف اور خوبیاں ہیں، یہ ان میں شامل ہے کہ کم سے کم لفظوں میں مدعا بیان کیا جائے۔ میرا ایک شعر بھی ہے:

کم سے کم لفظ ہیں ظفر درکار
شعر کہنا بھی تار دینا ہے

اسی لیے میں نے افتخار جالب کو اور دوسروں کو لسانی تشکیلات پر کہا تھا کہ یہ ٹیلی گرافک لینگویج ہے۔ اس میں سے آپ نے بہت سی چیزیں منہا کر دی ہیں، کہیں سے مصدر نکال دیا ہے تو کہیں سے فعل نکال دیا ہے، تو یہ کام پہلے بھی ہو چکا ہے ٹیلی گرافک لینگویج میں۔ آپ تین لفظوں میں چار سطروں کا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ ایک پیغام کی ترسیل کر سکتے ہیں لیکن نہ تو افتخار جالب نے، نہ ہی ان کے کسی پیش رو جیمس جوائس وغیرہ نے، جن کا حوالہ وہ بار بار دیتے ہیں، کسی نہ بھی یہ بات تسلیم نہیں کی۔

سوال: لیکن یہ جو آپ نے زبان کے ساتھ کیا ہے یا آپ کہتے ہیں کہ تجربہ کیا ہے یا اسلوب اختیار کیا ہے۔ آپ اس سے مطمئن ہیں؟

ظفر اقبال: مطمئن اس لیے کہ میں نے اس سے بہت کام لیا۔ میرے پاس کوئی گیدڑ سنگھی اس کے علاوہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ شہرت یا عزت یا محبت لوگوں کی ملی ہے یا ایک امتیاز کہا جاتا ہے کہ مجھے ہے۔ وہ اسی وجہ سے ہے کہ میں نے زبان کو الٹ پلٹ کر دیکھا ہے، کیوں کہ زبان ہی ہے جو ہمارا ہتھیار ہے اور اسی سے ہم سارا کام چلاتے ہیں اپنا۔ غزل جو تیزی سے کلیشے کی طرف بڑھتی جا رہی ہے، بلکہ نظم کا بھی یہی حال ہے۔ تو اس کا یہی علاج ہے۔ زبان کی اگر آپ ہئیت تبدیل کریں گے تو غزل نہیں رہے گی۔ لوگوں نے کوشش کی ہے: آزاد غزل، مکالماتی غزل، فلاں غزل، سب ٹریش ہے۔ غزل کو البتہ اندر سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ غزل باہر سے تبدیل نہیں ہو سکتی۔ نہ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ غزل کو اندر سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور وہی میں نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ لفظ آپ کے پاس ایک بنیاد ہے اور لفظ کو الٹ پلٹ کر دیکھنا چاہیے۔ اس کے اسرار و رموز کیا ہیں اس کے اور معنی کیا نکلتے ہیں یا یہ کہاں کھڑا ہے یا اسے تھوڑا سا تبدیل کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تبدیل بھی نہیں لفظ کو ذرا مختلف انداز سے استعمال کرنے کی بات ہے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ اصل بات لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ بہت سے کمالات وہ بھی کر جاتا ہے۔

سوال: شاید اسی لیے افتخار جالب آپ کو سراہتے تھے اور انہوں نے آپ کا دیباچہ بھی لکھا؟


ظفر اقبال: افتخار جالب میرے بڑے اچھے دوست بھی تھے۔ لاء کالج میرے کلاس فیلو تھے۔ وہاں ہم نے پہلی بار لاء کالج کا میگزین نکالا ’میزان‘ کے نام سے۔ جس کا میں ایڈیٹر تھا اور افتخار جالب نائب مدیر تھے اردو سیکشن کے۔ انہوں نے دیباچہ لکھا ’گل آفتاب کا اور میرا خیال ہے کہ آج تک میری کتابوں کے جو دیباچے لکھے گئے ہیں ان میں وہ سب سے عمدہ دیباچہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس میں میری تعریف کی گئی ہے۔ تعریف تو ہر دیباچے میں ہوتی ہے بلکہ اس لیے کے اس میں ان جو اینالیسس (تجزیہ) ہے وہ بڑا ریویلنگ ہے۔

سوال: یہ بتائیں کہ آپ کے ہاں جو اظہار کا جو عمل ہے اس میں آپ اپنے تخلیقی عمل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا دسترس اور مہارت کو؟


ظفر اقبال: میں کئی جگہ پہلے بھی اس کا جواب دے چکا ہوں اور اس پر لکھنا یا کچھ کہنا مجھے پسند بھی ہے۔ اصل بات یہ کہ میں موضوع کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ بیس سال پہلے جب کشور ناہید ’ماہِ نو‘ کی ایڈیٹر ہوا کرتی تھی اس میں میری ایک غزل چھپی تھی:

لکھیے تو غزل کچھ ایسی بھی
کبھی ایسی بھی کبھی ویسی بھی

اس کا دوسرا شعر تھا:

مضمون کوئی باندھیں گے نیا
مضمون کی ایسی تیسی بھی

اس سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مضمون کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ میں پیرایۂ اظہار کو اہمیت دیتا ہوں۔ افتخار عارف کہتے ہیں کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور آپ شعر بنا دیتے ہیں۔ بہت بڑا مضمون بھی اگر ہو اور اُسے آپ شعر میں نظم کریں، موزوں کریں لیکن اگر وہ شعر نہیں بنتا تو اس کا کیا فائدہ اس موضوع کا؟ یہی بات بہتر ہے کہ آپ اُسے نثر میں کہیں۔ غزل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شعر کا شعر بننا بہت ضروری ہے۔ شعر میں ایک ایسا طلسم ہوتا ہے جسے میں ڈیفائن (تعریف) نہیں کر سکتا۔ لوگ شعر گوئی اور اور ورسیفیکیشن (منظوم کرنے) میں فرق کو نہیں سمجھتے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، پچانوے فیصد لوگ تو ورسیفیکیشن کر رہے ہیں۔ موزوں کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ شاعری کر رہے ہیں لیکن وہ شاعری نہیں ہے۔ یہ میرا تھیسس ہے میں اس پر لکھتا ہوں، اس پر میں بولتا ہوں، اس پر میں اظہار کرتا ہوں۔ مجھے پوچھا گیا تھا: انگارے والے ظفر اقبال نمبر نکال رہے ہیں، انٹرویو میں، کہ احمد ندیم قاسمی کی شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا ندیم قاسمی صاحب ہم سب کے محسن ہیں۔ ایک چھتنار درخت کی سی ان کی حیثیت ہے لیکن مجھے ان کی شاعری نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کا پیرایۂ اظہار کوئی پچاس ساٹھ سال پُرانا ہے۔ وہ سکہ اب بازار میں نہیں چلتا۔ ان کے کئی پیرو کار اور نیازمند ایسے ہیں جن کا وہی پیرایۂ اظہار ہے۔ تو پیرایۂ اظہار شعر کو شعر بناتا ہے۔


سوال: تو کیسے الگ کرتے ہیں آپ پیرایۂ اظہار کو اور نفسِ مضمون کو؟


ظفر اقبال: دیکھیں نفسِ مضمون جو ہے وہ بذاتِ خود زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ آپ کا پیرایۂ اظہار جس کے بننے میں الفاظ کا، الفاظ کی دروبست کا، الفاظ کی ترتیب کا اور الفاظ کے استعمال کا زیادہ دخل ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے جو یہ لب و لہجہ بنا رکھا ہے اور اتنے مقلدین ہیں اس کے تو آپ اس پر زیادہ زور دیتے ہیں اور آپ پسند بھی وہی زیادہ کرتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ قدرتی بات ہے کہ ہر آدمی اور ہر شاعر وہی لب و لہجہ پسند کرے گا جس لب و لہجے میں وہ خود بات کرتا ہے، شعر کہتا ہے۔ کیوں کہ اگر اسے وہ پسند نہ ہو تو اس میں شعر نہ کہے وہ کوئی اور لب و لہجہ اختیار کرے لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف میرے لب و لہجے کی بات نہیں ہے کئی اور بھی ہیں جن کا اپنا لب و لہجہ ہے لیکن مجھے اچھے لگتے ہیں وہ۔ اس لیے کہ وہ ذرا مختلف طریقے سے شعر کہتے ہیں۔

سوال: آپ بتا سکیں گے ایسے کچھ لوگ جو مختلف لہجے میں شعر کہہ رہے ہیں؟


ظفر اقبال: ہاں، مثلاً احمد مشتاق ہیں یا کئی نئے شاعر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میں یہ پہلے عرض کر دوں کہ مراکز کی نسبت مفصل میں زیادہ بہتر شاعری ہو رہی ہے۔ فیصل آباد میں ہو رہی ہے، کبیر والا میں ہو رہی ہے، وہاڑی میں ہو رہی ہے، بورے والا میں ہو رہی ہے، ملتان میں ہو رہی ہے۔ ملتان میں کم ہو رہی ہے لیکن کراچی میں، لاہور میں، اسلام آباد میں خال خال آپ کو شاعر ملے گا۔ فیصل آباد میں ثنا اللہ ظہیر ہے یا شیخوپورہ میں نوید رضا ہے، اس طرح افضل گوہر ہے ایک شاعر نیا۔ ان کا پیرایۂ اظہار نیا ہے کم از کم وہ نہیں جس سے ایک آدمی میں ناپسندیدگی کا اظہار پیدا ہو۔ میں شاید پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ شعر کا معیار یہ ہے اس جیسا شعر پہلے نہ کہا گیا ہو۔ اگر اس جیسا یا اس سے بہتر شعر پہلے کہا جا چکا ہے اس موضوع پر یا اس انداز میں تو پھر نیا شعر کہنے کی ضرورت نہیں آپ کو۔ مثلاً مضمون تو سارے دہرائے جا چکے ہیں بار بار، غزل کے خاص طور سے لیکن پھر بھی آپ پرانے مضمون کو ایک نیا زاویہ دیتے ہیں اور اسی سے وہ نیا ہو جاتا ہے۔ ہاں اس کے علاوہ سانگھڑ میں اکبر معصوم ہے، یہاں ہمارے شیخوپورہ میں شاہین عباس ہے، وہ دو تین کتابوں کے مصنف ہیں لیکن وہ شروع ہی سے عمدہ غزل لکھ رہے ہیں۔

سوال: تو مستقبل میں کیا امکانات نظر آتے ہیں، نئے غزل کہنے والوں کی اکثریت تو آپ کی پیروی کر رہی ہے تو ایک بار پھر؟

ظفر اقبال: نہیں دوسری بات یہ ہے کہ میری پیروی اگر کوئی کرتا ہے تو یہ تو ایک صدقۂ جاریہ ہے۔ اس سے جو لوگ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اٹھائیں لیکن انہیں بہر طور کچھ اپنا راستہ بنانا پڑے گا۔

سوال: اس کے آثار کچھ نظر آتے ہیں؟

ظفر اقبال: ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ دیکھیے اگر آپ نظریۂ ارتقاء میں یقین رکھتے ہیں تو یہ کام تو ہونا ہی ہونا ہے۔ جو کچھ میں نے کیا ہے وہ اگر میں نہ کرتا تو کوئی اور کر دیتا۔ یا اس سے آگے، میں نے شمس الرحمٰن فاروقی سے کہا تھا کہ آپ اب ظفر اقبال سے آگے کی بات کریں۔ کہ آگے کون کون لوگ ہیں۔ ان کے کیا آثار ہیں اور ان کے کیا امکانات ہیں؟ کیا معاملات ہیں ان کے؟

سوال: اور اگر آپ شعر نہ کہتے تو یہ ضرورت جو شعر کہنے سے پوری ہوتی ہے وہ کیسے پوری ہوتی؟


ظفر اقبال: ہو سکتا ہے کہ یہ ضرورت پھر پیدا ہی نہ ہوتی۔ کیوں کہ شعر تب آتا ہے اگر اندر سے اُسے کہنے کی ضرورت محسوس ہو۔ ورنہ شعر نہیں آتا نہ ہی آپ شاعر بن سکتے ہیں۔ یہ آپ کے اندر کی مجبوری ہے جو آپ سے شعر کہلاتی ہے اور اس لیے کہلواتی ہے کہ وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ اس بندے کے پاس ایک ہنر ہے جو مجھے بیان کر سکتا ہے۔ پھر میں نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ عمدہ شاعری جو ہے وہ خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے بلکہ اپنے آپ پر لکھنے کے لیے بھی اکساتی ہے۔ میں نے اخترالایمان کے بارے میں لکھا تھا، ’شب خون‘ میں شائع ہوا تھا کہ وہ ایک معمولی شاعر ہیں اور مجھے اتنے بڑے شاعر نہیں لگے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں نے انہیں اتنا زیادہ نہیں پڑھا لیکن اچھی شاعری تو پڑھواتی ہے اپنے آپ کو۔ وہ ایسے ہوتے کہ میں انہیں نظرانداز ہی نہ کر سکتا کہیں تو پھر بات تھی۔ پھر میں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو قتیل شفائی ہیں یا مجروح سلطان پوری ہیں یہ بھی اوّل درجے کے شاعر نہیں تھے۔ ان دونوں کی جو وجہ ہے شہرت کی، قتیل شفائی کی جو ہے وہ فلم ہے یا ترقی پسند گروپ سے ان کی وابستگی ہے۔ اسی طرح مجروح صاحب نے بھی گانے گوائے اور سارا قصہ کہانی۔ اس کا بڑا ری ایکشن ہوا وہاں اور بڑے میرے خلاف خطوط بھی چھپے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن میرے دل میں جو بات تھی اور جسے میں ٹھیک سمجھتا ہوں، ہو سکتا ہے وہ ٹھیک نہ ہو لیکن میں تو وہ ضرور کہہ دیتا ہوں۔

سوال: تو کیسے آپ یہ امتیاز قائم کرتے ہیں کہ یہ اوّل درجے کا شاعر ہے اور یہ نہیں ہے؟


ظفر اقبال: میں نے آپ سے عرض کیا ہے نا کہ غالب تک آتے آتے مصرع زیادہ ششتہ ہو گیا ہے۔ نمبر دو غالب تک آتے آتے زبان کا طریقۂ استعمال بھی تبدیل ہوا ہے۔ میر کے ہاں جو کڈھب مصرے اور کھردرے الفاظ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ میر غالب کے مقابلہ میں زیادہ پرولیفک (خلاق و فراواں) ہیں اور غالب سے کئی گنا زیادہ الفاظ انہوں نے شاعری میں استعمال کیے ہیں۔ اسی لیے، کوئی ویسے ہی خدائے سخن نہیں کہہ دیتا کسی کو۔ خدائے سخن تو وہ ہیں لیکن آج انہیں اپریشیٹ کرنا (سراہنا) بہت مشکل ہے۔ ان کے اکثر اشعار کو ڈیکوڈ کرنا اور ان کے معنی نکالنا۔ کیوں کے اس وقت جو الفاظ کی صورتِ حال تھی، جو نشست و برخاست تھی الفاط کی وہ کچھ اور طریقے سے تھی۔ مناسباتِ لفظی اور طریقے سے آتے تھے۔ اب بھی آتے لیکن اور طریقے سے آتے ہیں۔ تو غالب اس لیے زیادہ پُر کشش ہے کہ وہ میر سے زیادہ ماڈرن (جدید) ہے۔ ایک تو اسی لیے کہ بعد میں آیا اور دوسرا یہ کہ یہ جو ماڈرن ہونا ہے۔ فیض صاحب سے پوچھا گیا کہ شعر کیسا ہونا چاہیے تو وہ کہتے تھے کہ شعر تو تازہ ہونا چاہیے۔ یہ بڑی خوبصورت بات ہے اور یہی سب باتوں کا نتیجہ بھی ہے کہ شعر جو تازہ نہ ہو وہ شعر نہیں ہے۔ اب شعر میں تازگی کیسے آئے۔ وہ شاعر کی توفیق پر بھی منحصر ہے کہ اس نے کیا کچھ پڑھ رکھا ہے اور اسے یہ دیکھنا کہ وہ کہیں کسی استاد کو یا سابقہ شاعر کو دہرا تو نہیں رہا، یا کسی کلاسیک کو۔ اس کے بعد اس کی توفیق یہ ہے کہ وہ شعر اپنے انداز میں یعنی مختلف طریقے سے کہے۔ جس طریقے سے شعر پہلے کہا جا چکا ہے وہ کسی کو بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ وہ شعر کو کلیشے بنانے میں ہی مددگار ہو سکتا اور شعر کلیشے سے تبھی بچ سکتا ہے اگر پیرایۂ اظہاراس کا نیا ہو۔ الفاظ اور زبان کو اس طریقے سے استعمال کیا گیا ہو کہ اس سے پہلے نہ کیا گیا ہو۔ میں نے جو کچھ زبان کے ساتھ کیا ہے وہ اس لیے بھی کر گذرا ہوں کہ زبان لوگوں کی بنائی ہوئی ہے کوئی آسمان سے اتری ہوئی تو ہے نہیں۔ ارتقاء پر اگر اپ ایمان رکھتے ہیں تو آج سے دو سو سال پہلے کے انسان اور شاعر کی نسبت آج کے شاعر کو زیادہ ترقی یافتہ اور بہتر ہونا چاہیے۔

سوال: رائلٹی کو جو صورتِ حال پاکستان میں ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟


ظفر اقبال: دیکھیں رائلٹی کی صورت یہ ہے کہ جو معروف پبلشر ہیں وہ رائلٹی وائلٹی نقد نہیں دیتے عام طور سے۔ شاعر کو تو رائلٹی تو وہ ویسے بھی نہیں دیتے اگر دیں بھی تو کہتے ہیں کہ جو پیسے آپ کے بنتے ہیں ان کی آپ کتابیں اٹھا لیں۔ نقد پیسے نہیں دیں گے اس کا دوسرا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ ان کی تین سو کتاب مثلاً نکل جاتی ہے۔ وہ اگر رائلٹی دیتے ہیں تو فکشن رائٹر کو دیتے ہیں۔ شاعری بہت کم پڑھی جاتی ہے۔ شاعری کا ذوق بھی کم ہے اور شاعری کی خریداری بھی کم ہے۔ خریداری اگر ہے تو فکشن کی ہے۔ سفر نامے کی ہے ناول کی ہے تو اس لحاظ سے شاعری مار کھاتی ہے اور پبلشر کے لیے شاعری کو بیچنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تو وہ اپنے طریقے سے کرتے ہیں انہوں نے لائبریریوں سے ساز باز کی ہوتی ہے۔ اس طرح نکالتے ہیں دو تین سو کتابیں شاعر لے جاتا ہے رائلٹی میں اور پھر کوئی پتہ نہیں کہ وہ ایک ایڈیشن کے چار ایڈیشن چھاپ دیتا ہے۔ کوئی اس پر چیک یا پڑتال نہیں کر سکتا۔

سوال: اگر ایک ہی ایڈیشن فروخت ہوتا ہے تو پھر اتنے لوگ جان کیسے لیتے ہیں؟


ظفر اقبال: ہاں!!! نہیں کتاب بکتی ہے شاعری کی۔ یہ میری کلیات جو ہے یہ اتنی مہنگی کتاب ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ فیصل آباد میں ایک مشاعرہ ہوا تھا مجھے انجم سلیمی کا فون آیا کہ ’ہم نئے گو شاعروں کا مشاعرہ کر رہے ہیں تو آپ اس کی صدارت کے لیے آئیں‘۔ میں نے ان سے کہا کہ ’کسی نئے شاعر کو بلاؤ مجھ بوڑھے کھوسٹ کو بلا رہے ہو‘۔ اس نے کہا کہ ’نہیں جناب ہماری نظر میں نئے بھی آپ ہیں، ماڈرن بھی آپ ہیں اور نوجوان بھی آپ ہیں اور آپ کو آنا پڑے گا‘۔ وہاں کراچی سے کوہاٹ تک کے کوئی چالیس شاعر آئے ہوئے تھے اور ان سب کا یہ بیان تھا کہ ہمارے پاس کلیات کی دونوں جلدیں ہیں اس وقت تک تیسری جلد نہیں چھپی تھی۔ ہم نے وہ خریدی ہوئی ہیں اور آپس میں حیران ہوتے ہیں کہ یہ بات ظفر صاحب نے کیسے کہہ دی ہے ہمیں تو یہ سوجھی نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے کچھ کام لے رہے ہیں۔

سوال: اب آپ ہمیں اپنے بچپن کے بارے میں بتائیں؟


ظفر اقبال: بچپن کوئی خاص نہیں تھا۔ ایک تو ویسے بھی میں اپنے بچپن کی بہت سی باتیں بائی پاس کے بعد بھلا چکا ہوں۔ بلکہ لوگوں کے نام بھول جاتے ہیں، فون نمبر بھول جاتے ہیں۔ شکلیں کم و بیش یاد رہتی ہیں۔

سوال: آپ کتنے بھائی بہن تھے؟


ظفر اقبال: ہاں، ہم تین بھائی اور تین بہنیں تھے۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی فوت ہو چکے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی دو بہنیں فوت ہو چکی ہیں۔ میں سب سے بڑا تھا۔ اب ایک میں ہوں اور ایک میری بہن ہے جو مجھ سے چھوٹی ہے۔

سوال: جب آپ نے شاعری شروع کی تو گھر والوں کا کیا ردِ عمل تھا؟


ظفر اقبال: ہاں، گھر میں کوئی شعر نہیں کہتا تھا اور نہ ہی شعر پسند کیا جاتا تھا۔ نہ ہی میری یہ حرکت پسند کی جاتی تھی، بس برداشت کی جاتی تھی کیوں کہ میں بڑا تھا اور ہو سکتا ہے کہ کچھ خدا خوفی بھی ان میں ہو کہ ایک کام یہ کرتا ہے تو چلو کرنے دو اگر ہمیں نہیں بھی پسند کرتے تو بھی ٹھیک ہے۔

سوال: شاعری نے آپ کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو کس حد تک متاثر کیا؟


ظفر اقبال: ہاں، بلکہ نہیں کیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر میں یہ وقت ادھر نہ دیتا تو بہت بڑا وکیل ہوتا لیکن میں نے یہ قربانی دی کیوں کہ مجھے پتہ تھا کہ میں نے کچھ نہ کچھ کرنا ضرور ہے شاعری میں۔ تو اس لیے۔ وکالت کو بھی وقت دیتا تھا۔ محنت میں شروع سے ہی کرتا رہا ہوں۔ شاعروں کی طرح نہیں کہ کوئی کام نہیں کرنا۔

سوال: کبھی بیچ میں کوئی رنج کا وقفہ آیا۔ یہ لگا کہ اگر یہ نہ کرتا تو زیادہ اچھا ہوتا؟


ظفر اقبال: نہیں بالکل نہیں۔ کیوں کے میں اپنی سکیم کے مطابق، اپنی پسند کے مطابق، اپنے مزاج کے مطابق اور جو مروج اسالیب اور طریقۂ کار تھا اس کے حوالے سے میں سمجھتا تھا کہ تبدیلی ہونی چاہیے، یہ تو بیڑا غرق ہو رہا ہے سارا۔ غزل تو تیزی سے کلیشے میں تبدیل ہو رہی ہے ساری اور یہ ٹریش لکھا جا رہا ہے سارا۔ میں نے شمش الرحمٰن فاروقی کو خط لکھا کہ یہ جو آپ فلاں فلاں شاعروں کو چھاپتے ہیں تو یہ تو سب ٹریش لکھتے ہیں۔ یہ سب روٹین کی شاعری ہے اور انہوں نے چھاپا وہ اور اس کے ردِ عمل میں بڑے خط بھی آئے۔

سوال: آپ کے بچے آپ کی شاعری پڑھتے ہیں؟

ظفر اقبال: ہاں، پڑھتے ہیں۔

سوال: کیا رائے ہے ان کی؟ کبھی بات ہوتی ہے؟

ظفر اقبال: ہاں ہوتی ہے۔ دراصل وہ آفتاب تو خیر بہت چالاک آدمی ہے۔ وہ پڑھ کے رائے دیتا ہے۔ (آفتاب بڑا بیٹا) دوسرا، اس سے چھوٹا جو ہے، اس کا مسئلہ نہیں ہے شاعری لیکن جب وہ لوگوں کی رائے دیکھتا ہے تو اب اس نے میری شاعری پڑھنی بھی شروع کر دی ہے۔ جو سب سے چھوٹا ہے وہ صاحبِ ذوق ہے۔ اسے پتہ ہے کہ شعر کیا ہوتا ہے اور وہ شاعری کی کتابیں ذوق سے پڑھتا بھی ہے
سوال: عام طور پر اب آپ اپنا دن کیسے گذارتے ہیں؟


ظفر اقبال: آج کل تومیں تقریباً فارغ ہوں میری موومنٹ اور ایکٹیویٹی بھی زیادہ نہیں ہے۔ اگر میں جلدی سو جاؤں تو ڈھائی تین بجے میری آنکھ کھل جاتی ہے پھر مجھے نیند نہیں آتی۔ پھر صبح کے ایک قریب ایک جھونکا سا اور آتا ہے اور میں کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ اور سو لیتا ہوں۔ میری نیند کوئی چار ساڑھے چار گھنٹے کی ہے جو پوری ہو جاتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں بلکہ میرا ایک شعر ہے:

اور کیا چاہیے کہ اب بھی ظفر
بھوک لگتی ہے نیند آتی ہے

اب یہ کوئی شعر کا موضوع تو نہیں ہے لیکن میں ایسے ایسے موضوعات پر شعر کہے ہیں کہ جنہیں اس سے پہلے نہیں چھوا گیا تھا۔

سوال: اس سب کے بعد اب آپ کیسے کہیں گے کہ آپ غزل میں کیا تبدیلی لائے؟


ظفر اقبال: میں اس بات پر تو کبھی غور نہیں کیا کہ میں یہ بات بتاؤں اور اس بات کا دعویٰ کروں لیکن جو میرے مقلدین ہیں وہی بتا سکتے ہیں کہ اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہی کر رہے ہیں وہ۔ بلکہ ’ادبیات‘ (پاکستان میں اکادمی ادبیات کا رسالہ) کا جو تازہ پرچہ آیا ہے، وہ دیکھا ہے آپ نے؟ اس میں آصف فرخی کا مضمون ہے۔ وہ غیر متعلق ہے لیکن غزل کا اس نے ذکر کیا ہے۔ اور اس نے لکھا ہے کہ ظفر اقبال کے ان گھڑ مقلدین کا ایک سیلاب جو ہے وہ بھی ایک خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔



سوال: ان گھڑ؟
ظفر اقبال: ان گھڑ ، یعنی جو ابھی تیار نہیں ہوتے اور ظفر اقبال کی نقل شروع کر دیتے ہیں اور مار کھا جاتے ہیں۔

سوال: میں یہ کہہ رہا تھا کہ پہلے غزل کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ ’غزل عورتوں سے باتیں کرنے کا نام ہے‘۔ اس میں آپ کیا تبدیلی لائے ہیں؟


ظفر اقبال: دیکھیں یہ غزل کا اساسی موضوع ہے عشق جو ہے اور محبت ہے اس کے بغیر تو غزل نہیں کہی جا سکتی۔ کہیں کہیں آپ اس میں تڑکا لگا دیں عشقِ حقیقی کا لیکن ہم نے اس کے موضوعات کو پھیلا دیا ہے۔ ہاں! ایک بات میں خاں طور پر نوٹ کروانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک میرے لب و لہجے کا سوال ہے تو میں اسے تبدیل کرتا رہتا ہوں۔ میں تو کہیں ٹک کر بیٹھتا ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے میرا کام زیادہ تر ایکڈیمک ہے۔ میری شاعری مشاعرے کی شاعری نہیں ہے۔ نہ یوں ہے کہ میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شعر کہتا ہوں۔ لوگ قاری کو راغب کرتے ہیں، میں قاری کو اشتعال دلاتا ہوں باقاعدہ۔ بعض اوقات۔ ایک چیلنج کے طور پر کہ تیری ایسی کی تیسی دیکھو یہ۔

سوال: مقبولیت حاصل کرنے کا کام باقی ہے؟


ظفر اقبال: نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ بعض لوگ صرف مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شعر کہتے ہیں اب اگر میری کوئی مقبولیت ہے تو وہ خوامخواہ ہی آ گئی ہے میں تو اس کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کی۔

سوال: یہ بتائیں کہ اب بھی آپ کسے زیادہ پڑھتے ہیں یا پڑھنے میں ترجیح دیتے ہیں؟


ظفر اقبال: غالب پر تان ٹوٹتی ہے سبھی کی، میری بھی اُسی پر ٹوٹتی ہے۔ میر صاحب کے ہاں کہیں کہیں، کوئی دو ایکڑ کے فاصلے پر، کوئی شعر کہیں نظر آتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ باقی سارا بھُس بھرا ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ ان وقتوں میں شعر جیسے کہا جاتا تھا اور جس طرح شعر کی تحسین کی جاتی تھی، آج نہ اس طرح شعر کہا جاتا ہے اور نہ اس کی تحسین کی جاتی ہے۔ لیکن غالب کا کمال یہ کہ وہ ماڈرن ہے اور غالب تک آتے آتے مصرعے رواں اور برجستہ ہو گیا تھا۔ غالب نے اس سے کام لیا اور اس طرح غالب سلیکٹیو زیادہ ہے میر کی نسبت لیکن یہ فراق صاحب ہیں، تو شروع میں میں نے ان کے مجموعے دیکھے تھے لیکن اب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا میں انہیں دیکھنے کی۔ ان کے ہاں بھی یہ ہے کہ کہیں کہیں شعر کوئی نظر آتا ہے۔ وہ بھی میر صاحب ہی کہ پیرو ہیں لیکن جو میر کا پیرو ہے میر اس کا کافی حصہ کھا جاتا ہے۔ جس طرح ناصر کاظمی کا کھا گیا پھر ناصر کاظمی تو فراق سے ہوتا ہوا میر کا پیرو ہوا۔

سوال: اس کے علاوہ فکشن؟


ظفر اقبال: فکشن میں پڑھتا نہیں ہوں۔ میں انتظار صاحب کی فکشن اس لیے پسند کرتا ہوں کہ وہ نثر بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ ایک مزا ہے ان کی نثر میں۔ باقی میں فکشن کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ’اٹ از ناٹ مائی ڈش‘ دوسرا یہ کہ اگر میں فکشن پڑھتا رہتا تو یہ سارا کام کس نے کرنا تھا لیکن آصف فرخی کا فون آیا کہ انتظار حسین کی کتاب آئی ہے ’نئی پرانی کہانیاں‘ آپ اس پر لکھیں۔ میں کہا کہ مجھے کیا پتہ ہے فکشن کا۔ اس نے کہا کہ نہیں نہیں آپ ضرور لکھیں جیسا بھی ہے۔ خیر میں نے انتظار صاحب کو فون کیا، انہوں نے مجھے کتاب بھجوا دی۔ اس سے پہلے میرے پاس محمد سعید شیخ کی کہانیوں کا مجموعہ آیا ہوا تھا۔ میں نے دونوں کو بھگتا دیا اس میں۔ کافی طویل پانچ سات صفحے کا مضمون ہے۔ اس میں، میں نے انتظار صاحب کے بارے میں خاص طور پر یہ بات لکھی کہ یہ جو کہانیاں ہیں، پرانی کتھاؤں کے جو اساطیری حوالے ہیں یا دیو مالائیں ہیں، ہندوستان کا جو کلچر ہے خاص اس سے متعلق ہیں۔ من و عن انتظار صاحب نے اس میں بھر دیا ہے تو اس میں انتظار صاحب کا کیا کمال ہے۔ اس کوئی تبدیلی نہیں کی۔ یہ سلیکشن کیا ہے۔ فلاں جگہ سے فلاں چیز اٹھا لی اور فلاں جگہ سے فلاں چیز اٹھا لی اور اپنی کہانیاں کہہ کر چھاپ دیا۔ اور پھر نئی پرانی کہانیاں، یہ نئی کہاں، یہ تو سب پرانی ہیں۔

سوال: اور آپ سے پہلے کی اور بعد کی شاعری میں، نظم کی شاعری میں خاص طور پر؟

ظفر اقبال: نظم میں تو لوگ ہیں۔ ن م راشد ہیں، فیض ہیں، میرا جی ہیں سب سے پہلے۔ مجید امجد بھی ہیں خاصی حد تک۔
 

فلک شیر

محفلین
بہت خوب۔ لیکن یہ انٹرویو تو اب کافی پرانا ہو چکا ہے میرے خیال میں۔
بہر حال شئیر کرنے کا شکریہ۔
پرانے انٹرویو بھی انٹرویو ہی ہوتے ہیں شیخ صاحب.........:):):)
یہاں محفل پہ کسی دھاگے میں کل ظفر صاحب کے حوالہ سے کچھ بات ہو رہی تھی........تو اس لیے یہ پوسٹ کیا ہے........امید ہےدرگزر فرمائیں گے:)
 
پرانے انٹرویو بھی انٹرویو ہی ہوتے ہیں شیخ صاحب.........:):):)
یہاں محفل پہ کسی دھاگے میں کل ظفر صاحب کے حوالہ سے کچھ بات ہو رہی تھی........تو اس لیے یہ پوسٹ کیا ہے........امید ہےدرگزر فرمائیں گے:)

فلک صاحب معذرت کے ساتھ۔ لیکن میرا مقصد تنقید نہیں تھا بلکہ میں نے تو شراکت پر آپ کا شکریہ ہی ادا کیا ہے۔ میں نے صرف تصدیق چاہی تھی کہ میں کہیں غلط تو نہیں ہوں۔ اور یہ وہی انٹرویو ہے جو میں نے پڑھا۔
خوش رہیں۔ :)
 

فلک شیر

محفلین
فلک صاحب معذرت کے ساتھ۔ لیکن میرا مقصد تنقید نہیں تھا بلکہ میں نے تو شراکت پر آپ کا شکریہ ہی ادا کیا ہے۔ میں نے صرف تصدیق چاہی تھی کہ میں کہیں غلط تو نہیں ہوں۔ اور یہ وہی انٹرویو ہے جو میں نے پڑھا۔
خوش رہیں۔ :)
آپ کا گمان بالکل درست ہے...........یہ انٹرویو وہی ہے جو آپ نے پڑھا ہے
اللہ تعالیٰ آپ کو بے حد رحمت سے نوازیں.........
 
Top