سعود عثمانی اپنا گریہ کس کے کانوں تک جاتا ہے ۔ سعود عثمانی

اپنا گریہ کس کے کانوں تک جاتا ہے
گاہے گاہے اپنی جانب شک جاتا ہے

پکا رستہ ' کچی سڑک اور پھر پگڈنڈی
جیسے کوئی چلتے چلتے تھک جاتا ہے

عمر کٹی ہے شریانوں کے کٹتے کٹتے
مولا. ! کتنا گہرا یہ ناوک جاتا ہے

یاروں اور پیاروں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی
آتا ہے اور سارا شہر مہک جاتا ہے

چپ رہتے ہیں لوگ رضا کی چادر اوڑھے
جیسے برف سے جھیل کا سینہ ڈھک جاتا ہے

کوئی تو ہے جو اس ہنستے بستے منظر میں
چپکے سے آواز میں آنسو رکھ جاتا ہے

کوئی ہوک جگائے رکھتی ہے تنہائی
ایک پرندہ رات کو روز بھٹک جاتا ہے.

(سعود عثمانی )
 
Top