حزیں صدیقی اِک شعلہء نوا کو غمِ آشوبِ قضا کیا

مہ جبین

محفلین
اِک شعلہ نوا کو غمِ آشوبِ قضا کیا
آواز کی قندیل بجھائے گی ہوا کیا

اک آئینہ خانہ ہے رہِ شوق میں حائل
آشفتہ سری کا ہے سبب اِس کے سوا کیا

غنچے کی چٹک بھی ہو جہاں بارِ سماعت
اک ٹوٹے ہوئے سازِ تمنا کی صدا کیا

جب صبح نمودار ہوئی پردہء شب سے
اشکوں کے سوا دیدہء بیدار میں تھا کیا

موت آئے ترے در پہ تو دوں جان خوشی سے
ہو زیست ہی الزام تو مرنے کا مزا کیا

دیکھیں تو حزیں سرحدِ ہستی سے گزر کر
آخر ہے تماشا پسِ دیوارِ فنا کیا

حزیں صدیقی

(تدوین کر دی ہے)
 

الف عین

لائبریرین
واہ مہ جبین۔ لیکن دو اغلاط کر گئی ہو ٹائپ کرنے میں!! تدوین کر لو تو بہتر ہے، ورنہ پھر میں بھی ایسی ہی کاپی پیسٹ کر بیٹھوں گا!!!!
مطلع میں ’شعلہء نوا‘ نہیں محض ’شعلہ نوا‘ ہونا چاہئے۔
اور
اشکوں کے سوا دیدہء بیدار میں کیا تھا
درست یوں ہونا تھا۔
اشکوں کے سوا دیدہء بیدار میں تھا کیا
 

مہ جبین

محفلین
اوہو ۔۔۔! اب میں کیا کروں ؟؟؟؟
تدوین کا وقت گزر گیا ۔۔۔۔ اب تو محفل کے منتظمین ٹھیک کر دیں تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔۔بہت معذرت
بہت شکریہ انکل الف عین ،اغلاط کی نشاندہی کرنے کے لئے مشکور ہوں

میں نے کتاب میں دیکھا تو جیسے آپ نے بتایا ہے ویسے ہی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اوہو ۔۔۔ ! اب میں کیا کروں ؟؟؟؟
تدوین کا وقت گزر گیا ۔۔۔ ۔ اب تو محفل کے منتظمین ٹھیک کر دیں تو ٹھیک ورنہ۔۔۔ ۔۔بہت معذرت
بہت شکریہ انکل الف عین ،اغلاط کی نشاندہی کرنے کے لئے مشکور ہوں

میں نے کتاب میں دیکھا تو جیسے آپ نے بتایا ہے ویسے ہی ہے

اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ تدوین کر دی ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
محترمی و گرامی قدر اس دھاگے میں ایک غلطی اور سہی ، نہ جانے یہ بینائی کا قصور تھا یا کوئی اور سبب غلطی سے بٹن دوسرا دب گیا اب طویل لوڈ شیڈنگ کے بعد نیٹ دیکھا تو غلظی کا احساس ھوا تہہ دل سے معذرت خواہ ھوں ۔:oops:
 
Top