مجید امجد اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم ۔ مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم

وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اُٹھا کے ہم

پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، ترے نقشِ پا کے ہم

آئے کبھی تو پھر وہی صبحِ طرب کہ جب
روٹھے ہوئے غموں سے ملیں مسکرا کے ہم

کس کو خبر کہ ڈوبتے لمحوں سے کس طرح
اُبھرے ہیں یادِ یار، تری چوٹ کھا کے ہم

(مجید امجد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ فرخ، مجید امجد کا انتخاب شروع کر رہے ہو کیا؟

شکریہ اعجاز صاحب۔ دراصل میرے موڈ کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ کبھی کسی شاعر کو پڑھنا شروع کر دیتا ہوں اور کبھی کسی۔ لیکن جو بھی شاعر پڑھتا ہوں اس کی جو چیز اچھی لگے وہ پوسٹ ضرور کرتا ہوں۔
 
Top