اُس کے جوتوں میں

اُس کے جوتوں میں
By AzharM
ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں نماز پڑھی تھی، اور پھر وہی ہوا تھا جس کا ڈر پہلے سے تھا کہ جب پیچھے پلٹ کر دیکھا تو سامان اور جوتے ندارُد، سامان میں اُن کا پتہ بھی تھا جو مجھے لینے وہاں آنے والے تھے۔ اب کیا ہو سکتا تھا ، یہ تو وہیں پہنچ کے پتہ چلتا ، خیر ننگے پاوں ایک بنچ پر بیٹھنا پڑا کہ مٹر گشتی کی اب کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں تھی۔ ٹرین ادھ موا کر کے دیر سے ہی آئی تھی اور لوگ نیند سے گرتے پڑتے اُس میں جا کر بیٹھے تھے۔
ننگے پاوں ٹرین میں چڑھتے بہت سے لوگوں نے نوٹس کیا لیکن پرواہ کسے؟ پںڈی سے کراچی کا لمبا سفر تھا اسی لیے برتھ لینے میں ہی عافیت جانی تھی۔ برتھ پر بیٹھ کر چین کا سانس لیا اور جوار میں نگاہ دوڑائی کہ ہمسفروں کا تٖفصیلی جائزہ لے لیا جائے ۔ میرے علاوہ وہاں تین لوگ اور تھے، سامنے والی برتھ پر ایک اُدھیڑ عمر جوڑا بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا اور میرے اوپر والی برتھ پر اُن کی بیٹی، رہ گئی یہ بات کہ اُس کے بیٹی ہونے کا پتہ کیسے چلا تو قصہ یوں تھا کہ خاتون نے اُسے بیٹی کہ کر پکارا تھا اور سو جانے کی تلقین بھی کی تھی۔
ٹرین چلے ایک گھنٹہ ہوا ہو گا سامنے والی برتھ پر وہ صاحب سو چکے تھے اور اُن کی زوجہ محترمہ اوپر والی برتھ پر۔ رفع حاجت کی خواہش پوری ہونے میں ننگے پاوں مانع تھے، چناچہ زمین پر نظر دوڑائی وہاں صرف میرے اوپر والی برتھ پر جو لڑکی سوئی ہوئی تھی اُسی کی چپل پڑی ہوئی تھی، جبکہ والدین نے اپنی جوتیاں نہ جانے کہاں چھپا لی ہوئی تھیں۔ مجبوراّ بلا اجازت پہننا پڑیں کہ جگانا مناسب نہیں تھا۔
رفع حاجت سے واپسی پہ خود کو برتھ پر گرایا اور پھر پتہ نہیں کب بیٹھے بیٹھے ہی آنکھ لگ گئی۔
کراچی اُترنے سے پہلے میں نے لباس کی شکنیں درست کی تھیں اور ٹرین سے اُتر آئی تھی۔ دائیں بائیں نگاہ دوڑائی کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیا جو لگے کہ مجھے لینے آیا ہوا ہو۔ نیند سے ابھی ابھی جاگا ذہن بوجھل سا بھی تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہے ۔ میں نے ایک نلکا دیکھ کر منہ ہاتھ دھونے میں ہی بہتری جانی کہ کچھ ہوش آئے۔ نلکے پر جھک کر پانی ہاتھوں میں بھرا ہی تھا کہ کوئی جیسے مجھے رگڑتے ہوئے گزرا اور میں منہ کے بل گرتے گرتے بچی تھی، خود کو سنبھال کر نظر دوڑائی تو ایک اوباش سا لڑکا کچھ دور کھڑا مُسکُرا کر دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس نے مجھے آنکھ بھی ماری۔ شرم سے میں پسینے پسینے ہو گئی اور نظریں جھکا لیں۔ لوگ باہر جا رہے تھے اور پلیٹ فارم خالی ہوا جا رہا تھا، مجھے اُس لڑکے کے تیور اچھے نہیں لگے۔
میں کسی آشنا چہرے کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگی، وہاں کوئی ہوتا تو دکھائی دیتا۔ گھبرا کر باہر نکل آئی کہ شائد کوئی باہر کھڑا انتظار کر رہا ہو۔ اس دوران کئی مرتبہ مجھے اپنی اوڑھنی درست کرنی پڑی کہ لگتا تھا کچھ نظریں اُس میں گڑی جا رہی ہیں۔ اور پھر میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی، وہی اوباش لڑکا دو اور ساتھیوں کے ساتھ وہاں کھڑا تھا اور ساتھ ہی ایک ٹیکسی بھی کھڑی تھی ، شائد وہ تاڑ گیا تھا کہ میں پریشان ہوں اور کوئی مجھے وہاں لینے نہیں آیا ہوا تھا۔
اُس نے پھر حد ہی کر دی کہ مجھے سب لوگوں کی موجودگی میں ہی ٹیکسی میں بیٹھنے کو کہا۔ میں شرم سے سُرخ ہو گئی اور نفی میں سر جھٹکتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ وہ تینوں میرے پیچھے لپکے۔ میں نے قریب قریب دوڑنا شروع کر دیا۔ ذرا فاصلے پر ایک بس کھڑی ہوئی تھی۔ میں لپک کر اُس میں چڑھ گئی۔ اللہ کا شکر کہ وہ فوراّ ہی چل بھی پڑی۔ میں نے اُن تینوں کو دیکھا وہ کچھ مایوس سے بس کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ بس میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اور کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ میں ایک طرف لگے عمود کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ ہلچل شروع ہو گئی، میرے ساتھ کھڑی خواتین بے چینی سے ادھر اُدھر ہونے لگیں اور پھر مجھے پیچھے دھکیل کر مجھ سے آگے ایسی ہوئیں کہ میں پھنس کر رہ گئی، دم گھٹ رہا تھا مگر اُن تینوں کے ہاتھ چڑھ جانے سے بہت بہتر تھا۔
پھر مجھے ایسا لگا کہ میری پشت پر سانپ رینگ رہے ہیں، میں نے گھبرا کر دیکھا تو دائیں جانب ایک شخص مجھ سے جڑا کھڑا تھا اور اُس نے جیسے مجھے تھام رکھا ہو، میرے کانوں کی لویں سُرخ ہو گئیں، میرا جی کیا کہ میں چیخ پڑوں، روؤں پر میری آواز جیسے میری شرم نے گھونٹ دی ہو۔ میں نے بائیں جانب دیکھا کہ کوئی جائے پناہ مل جائے تو وہاں بھی ایک اور شخص موجود تھا اُس کا ہاتھ بھی اب میرے جسم سے بلا وجہ ٹکرا رہا تھا، اُس کی نظریں مجھ سے ٹکرائیں تو اُس نے باہر ایسے دیکھنا شروع کر دیا جیسے اُسے خبر ہی نہ ہو کہ اُس کا ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ آس پاس کے لوگ یوں جیسے انجان بنے ہوں، کوئی آواز نہیں کوئی غصہ نہیں۔ شکر خدا کا کہ بس ایک اسٹاپ پر رُکی اور میں جیسے لوگوں کو چیرتی ہوئی باہر نکل آئی۔
لگتا تھا کہ مصیبت ابھی پوری طرح ٹلی نہیں تھی ۔ اُترنے کے کچھ دیر بعد ابھی میں سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ مجھے کچھ ہاتھوں نے تھام کر ایک گاڑی میں ڈال دیا، ایک ہاتھ سختی سے میرے منہ پر تھا تاکہ میں چیخ نہ سکوں۔ اور باقی ہاتھ کسی اژدھے کی طرح مجھ سے لپٹے ہوئے تھے، میں بس اتنا ہی دیکھ پائی کہ اُن میں سے ایک وہی اوباش تھا جو ریلوے اسٹیشن پر ملا تھا۔ اُس نے مجھے نفرت سے دیکھتے ہوئے میرے گریبان پر ہاتھ ڈالا۔
بھائی اب اُٹھ بھی جاو ، آپ نے میری چپلیں پہنی ہوئی ہیں ۔۔ اس آواز کے ساتھ ہی مجھے ہوش آیا تھا، جسم پسینے میں تر تھا، میں نے گھبرا کر اپنے پاوں کی طرف دیکھا، میں ابھی تک اُس لڑکی کی چپلیں پہنے ہوئے تھا، ٹرین چلے جا رہی تھی اور وہ مجھے جگا رہی تھی، اُسے اپنی اوڑھنی کا بھی شائد ہوش نہیں تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار نگاہیں جھکا کر اُس سے معزرت طلب کی اور اُس کی چپلیں اُسے اتار کر دے دیں
 

نایاب

لائبریرین
افسانہ ہے کہ روح میں اتر جانے والا ایک بہت گہرا نشتر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top