اُردو غزل میں پیکر تراشی

امان زرگر

محفلین
اُردو غزل میں پیکر تراشی

ڈاکٹر شائستہ حمید
شعبۂ اُردو،جی سی یونیورسٹی، لاہور


غزل جذب و خیال، متنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ معانی کا آئینہ خانہ ہے۔ غزل میں زندگی کی سی وسعت ہے جس طرح زندگی اپنے اندر تمام موسم رنگ واقعات جذبے، تحریکیں، چہرے نظریے اور رویے سمو لینے پر قادر ہے۔ اسی طرح غزل بھی ان سب عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ جس طرح زندگی کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے۔ اسی طرح غزل کا ارتقائی سفر بھی ایک تسلسل سے جاری رہتا ہے اور زندگی کے بدلتے مناظر اور مظاہر صنف غزل کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔
اردو غزل فارسی غزل کی مرہون منت ہے۔ ابتدائی دور کی اردو غزل پرفارسیت کے اثرات نمایاں ہیں اور اردو کا پہلا قابل ذکر غزل گو شاعر ولی دکنی کو کہا جاتا ہے۔ جسے اردو کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق!
''…اردو غزل کی داستان کے چار ابواب ہیں پہلا باب دکنی غزل کے متعلق ہے دوسرا باب اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک کے دور پر محیط ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو اس کے آخر تک قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ تیسرا باب۱۸۵۷ء سے لے کر اقبال تک اور آخری باب اقبال کے بعد جدید دور سے متعلق ہے۔''۱؎
اردو غزل کے موضو ع پر بحث کرنے سے پہلے پیکر تراشی کے بارے میں مختصر جان لیتے ہیں۔ یعنی پیکر تراشی کیا ہے ،پیکرتراشی کے لیے تمثال نگاری، امیج اور امیجری کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں اور اس کے لیے محاکات نگاری کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی تحریروں میں محاکات کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔
''محاکات کے معانی کسی چیز یا حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔''۲؎
پیکر تراشی، سراپا نگاری، امیجری، تمثال دراصل وہ تصویر ہے جو شاعری کے مطالعے سے ذہن میں بنتی ہے۔ شاعر کی محسوسات اور واردات اپنے اظہار کے لیے جب لفظی تصویروں کا روپ دھار لیتے ہیں تو اس کو سراپا، پیکر، تصویر، امیج اور تمثال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اس کو تصویر آفرینی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
''…امیجری سے مراد وہ تصویر آفرینی ہے جو مخصوص اشیا کو لفظوں کی مدد سے چشم خیال کے سامنے یوں لیے آتی ہے گویا عین مشاہدہ کیا جا رہا ہو۔ مگر یہ تصویر کشی خارجی تحریک سے بالا ارادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ اظہار کی خاطر تخیل کے اندر سے کسی منصوبے یا ارادے کے بغیر ابھر آتی ہے شاعری کے قماش میں مصوری اور موسیقی کو تانے بانے کی حیثیت حاصل ہے۔ شاعری میں اگر تصویریت یعنی زائد توضیحی تصویریں نہ ہوں تو شاعری بے رنگ ہو جائے۔''۳؎
اسی طرح پیکر تراشی امیجری، سراپا نگاری کے بارے میں غیر ملکی ناقدین نے بھی مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں امیج شاعری میں عین روح اور زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔
جان پریس John Press امیجری کے بارے میں لکھتے ہیں:
"A good Poet should be a master of Imager, but imagery, is some thing complex and elaborate that a series of unambisious Pictures. A distinction must between visual image, which evokes a Clear Picture of an object, and a symbolic image Which arouses a network of associations"؎4
مختلف ناقدین کی آراء سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شاعری ہو یا نثر ادیب اپنے الفاظ اور تخیل کے ساتھ قاری کو وہ روپ دکھا سکتا ہے۔ جو اس کے اپنے ذہن میں ہوتا ہے اور اردو غزل میں سراپا نگاری، پیکر تراشی کا رواج ہمیشہ سے ہی رہا ہے اور جہاں جمالیات، رومانویت، حسن و عشق، محبوب کے نازو ادا کا ذکر کثرت سے ہو وہاں سراپا نگاری کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ولی دکنی جمال دوست شاعر ہیں۔ ان کے ہاں بھی بت پرستی، پیکرتراشی کی روایت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ محبوب کے خدوخال کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں گو کہ محبوب ایک چلتی پھرتی تصویر بن کر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔
؎ تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سے کہوں گا
جادو میں تیرے نین غزالاں سے کہوں گا
؎تیری طرف انکھیاں کو کہاں تاب کہ دیکھیں
سورج سوں زیادہ تیرے جامے کی بھڑک ہے
مرزا غالب کی شاعری دراصل تصویروں کی ایک البم لگتی ہے۔ انہوں نے اشعار میں الفاظ کے ذریعے نہایت عمدہ پیکرتراشی پیش کی۔
؎ رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
میر تقی میر نے انسانی زندگی میں پیش آنے والے تجربات، نامساعد حالات ،عشق و عاشقی، معاشرتی اونچ نیچ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ آپ کی شاعری آپ بیتی کم اور جگ بیتی زیادہ نظر آتی ہے۔
؎ رات محفل میں تیری ہم بھی کھڑے تھے چپ کے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
علامہ اقبال نے جہاں غزل کو نئے افق جدت سے آشکار کیا وہاں اپنی شاعری میں ایسی پیکرتراشی اور تمثال نگاری کی کہ لوگ حیرت زدہ ہوگئے۔ انہوں نے غزل میں صنائع اور تلمیحات کا وافر استعمال کیا اور ان کا یہ شعر جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے ان کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا۔ اقبال کی شاعری میں تمثال نگاری بہت اعلیٰ پائے کی ہے اور ان خوبصورت اشعار کو پڑھ کر خیالات کی چلتی پھرتی تصویریں کلام پڑھنے والوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔
؎ پانی کو چھو رہی ہے یوں جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسیں کوئی آئینہ دیکھتا ہو!
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
احمد ندیم قاسمی کا انداز بیان بھی ان شعراء سے مختلف نہ تھا۔ انہوں نے افسانوں کے ساتھ شاعری میں بھی اپنے خیالات و احساسات کو بیان کیا ہے اور بڑے دلکش انداز میں استعمال کیا ہے۔ محبوب کے آنے سے پہلے اور جانے کے بعد کی قلبی کیفیات کو انہوں نے بہت دل پذیر انداز میں بیان کیا ہے۔
؎صبح کو راہ دکھانے کے لیے
دست گل میں ہے دیا شبنم کا
؎ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا
اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے
؎شاعری روزِ ازل سے ہوئی تخلیق ندیم
شعر سے کم نہیں، انساں کا پیدا ہونا
ناصر کاظمی تو احساسات کا شاعر تھا۔ ان کی شاعری میں احساس اور ادراک کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے اپنی غزل میں حسی اور بصری پیکر کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔
؎ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
؎رات بھر ہم یوں ہی رقص کرتے رہے
نیند تنہا کھڑی ہاتھ ملتی رہے
؎ساز ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
؎پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
جانثار اختر اردو غزل کا ایک خوبصورت ستارہ جس نے اردو غزل کے ساتھ ساتھ اردو نظم، قطعات، ربا عیات میں بھی طبع آزمائی کی۔ رجائیت پسندی کے ساتھ ساتھ پیکرتراشی کے اعلیٰ نمونے ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔
؎ آنکھیں جو ملیں کچھ تیرے کاجل نے کہا
اڑتا ہوا کچھ زلف کے بادل نے کہا
وہ راز جو کہہ سکا نہ کھل کر کوئی
وہ تیرے لپٹے ہوئے آنچل نے کہا
منیر نیازی شام کا شاعر کے نام سے بہت مشہور ہیں۔ ان کی تمثالوں میں تاریخ کے تسلسل اور شکست و ریخت کی داستان کے ساتھ ساتھ دیومالائی داستانوں کا ذکر بھی ملتا ہے محبوب سے ملنے کی سرمستی و سر خوشی و سرشاری کے جذبات بھی ملتے ہیں وہ محبوب کے حسین و دلکش خدوخال اور قلب و جان کی وارداتوں کی تصویر بندی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔
؎آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
؎ شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آبِ سادہ کو حریف رنگِ بادہ کر دیا
؎ رات فلک پر رنگ برنگی آگ کے گولے چھوٹے
پھر بارش وہ زور سے برسی مہک اٹھے گل بوٹے
؎میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
شہزاد احمد نے بھی پیکرتراشی و تمثال نگاری کے جوہر اپنی شاعری میں دکھائے۔امجد اسلام امجد نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔
''جدید شعراء میں سے جن شعرا کے ہاں غیر معمولی تمثال کاری نظر آتی ہے ان میں شہزاد احمد کا ایک نمایاں مقام ہے۔ اس نے کیفیات کو سمعی بصری روپ میں کچھ ایسی مہارت سے پیش کیا ہے کہ بعض اوقات تفہیم سے بھی پہلے محض تمثال کے حسن کی وجہ سے قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔''۵؎
؎شب ڈھل گی اور شہر میں سورج نکل آیا
میں اپنے چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی
؎ بے ہنر ہاتھ چہکنے لگا سورج کی طرح
آج ہم کس سے ملے آج کسے چھو آئے
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمثال کاری امیجری، پیکر تراشی ہو یا تخیل کی فضا بندی اردو غزل جیسے جیسے ارتقاء پذیر ہوتی گئی اس میں تمثالیت کے نئے نئے ستارے بکھرتے گئے اور Yeats نے بالکل صحیح کہا Wisdom Speaks First in Imagesیعنی عقل نے سب سے پہلے تصویروں میں گفتگو کی۔
حواشی
۱؎ وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو شاعری کا مزاج، مجلس ترقی ادب، لاہور،۲۰۰۸ ص۸۶
۲؎ شبلی نعمانی، مولانا۔ شعر العجم، جلد چہارم، ص۸
۳؎ سید عبداللہ، ڈاکٹر، اطراف غالب، ص۴۳، ص۴۴
۴؎ John Press. The First and Fountain. The University of Chicage1927(P-144)
۵؎ مظفر حنفی، مرتبہ، جائزے، ص۱۳۴
 
Top