اویس کے دیس میں انقلاب

حسینی

محفلین
تحریر: عباس حسینی

یمن کے موجودہ حالات میں انسان پریشان ہوجاتا ہے کہ اتنی متضاد خبریں اور تجزیے دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ کوئی اسے شیعہ سنی جنگ کا نام دے رہا ہے تو کوئی عرب اور عجم کی لڑائی قرار دے رہا ہے، جبکہ بعض اسے ایران اور سعودی عرب کے پراکسی وار سے تعبیر کر رہا ہے۔ کوئی اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو باغی کہہ رہا ہے تو کوئی انہیں انقلابی کہتا ہے۔ سعودی عرب کو کوئی ظالم اور متجاوز کہتا ہے تو کوئی اس جنگ کو"حرمین شریفین کا تحفظ " جیسے بے معنی اور بے ربط عنوان سے یاد کر رہا ہے۔ البتہ موجودہ حالات کو بعض محققین اک بہت بڑی علاقائی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں، جس کی چنگاری یمن سے نکل کر نہ صرف سعودی عرب کو بھسم کر دے گی بلکہ ایران کے خوزستان میں بھی اس کی آواز سنائی دینا شروع ہو گئی ہے۔

ایسے میں ضروری ہوگا کہ تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات کا غیر جانبدار انداز میں تجزیہ کیا جائےاور بطور پاکستانی میرے پیارے دیس کے اس جنگ میں کودنے کے احمقانے فیصلے پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔ ہم یہاں صرف چند حقائق کو سوالات کی شکل میں مطرح کرتے ہیں۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔

سعودی عرب کے حکمرانو! خدا کا لقب "الملک" اپنے لیے اختیار کرنے والو!

۱۔ کیا آپ کےاپنے ملک میں جمہوریت ہے کہ آپ یمن کے "جائز" حکمران ہادی منصور کی "جمہوری" حکومت بحال کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ ساری دنیا کو معلوم ہے ہادی منصور خود اپنے عہدے سے استعفی دے چکا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہادی کی مدت حکومت اس فروری میں ختم ہو چکی ہے۔ بہر حال ایک بادشاہ کی زبان سے جمہوریت کا لفظ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ حوثی تو یمن میں تیسری صدی ہجری سے حکومت کرتے آرہے تھے یہاں تک کہ ۱۹۶۲ میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حملے سے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ حوثی باغی نہیں بلکہ اپنے آبا واجداد کی حکومت کا احیاء چاہتے ہیں۔ کسی ملک کو دوسرے ملک کے داخلی حالات میں دخل اندازی کی اجازت کس نے دی؟ آپ نے اس حملے کی منظوری کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لی؟ ایسے میں اقوام عالم سے بھی ہمارا سوال ہے کہ آپ لوگ کہاں ہیں؟ کیا یمن پر سعودی عرب کا حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں؟

۲۔ کیا مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت جمہوری نہیں تھی؟ کیوں اپنے آقا امریکہ کے اک اشارے پرمحمد مرسی کی حکومت کے خلاف جنرل سیسی کی فوجی حکومت کا ساتھ دیا اور آٹھ[اور بقولے دس یا بارہ] ارب ڈالرز کی خطیرامداد بھی اس باغی فوجی حکومت کو عطا کی۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

۳۔ اگر آپ کو یمن کی "مظلوم" عوام سے اتنی ہی ہمدردی تھی تو فلسطینی عوام کیا کسی اور کھیت کی مولی ہیں جو کئی دہائیوں سے غاصب اسرائیل کے مظالم کے نشانے پر ہیں؟ لیکن اسرائیل کے خلاف اک لفظ بھی بولتے ہوئے آپ جیسے"بادشاہوں" کے پیر لرز جاتے ہیں اور زبان پر لکنت آجاتی ہے۔ اگر اتنی جرات ہے تو ان مظلوم فلسطینیوں کو کچھ عدد میزائل دے کر دیکھ لیتے، معلوم ہوتا کیا حشر ہوتا ہے آپ کا۔ یہ صرف ایرانِ اسلامی کی جرات ہے کہ علی الاعلان حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ سمیت تمام اسرائیل مخالف جہادی تنظیموں کو مال ودولت کے علاوہ اسلحہ اور میزائل بھی فراہم کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف ان تنظیموں کے قائدین کو بھی ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ کا محاصرہ اور گولہ وبارود کی بارش ابھی پچھلے رمضان کی بات ہے۔اس وقت تم عربوں کی غیرت کہاں تھی؟ برما میں جب ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا اس وقت آپ کے جنگی جہاز کہاں تھے؟

۳۔ حرمین شریفین تمام عالم اسلام کے لیے مقدس ہے۔ شیعہ اور حوثی جن پر آپ بم برسا رہے ہیں وہ بھی اس خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ تو کیوں کر کوئی سوچے گا کہ خانہ خدا کو نقصان پہنچائے؟ اپنے سیاسی اور پست مفادات کے لیے آپ خانہ خدا ودیگر مقدسات کو کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے روضہ رسول اور خانہ خدا کو مسمار کرنے کی بات کی تب آپ کہاں تھے؟ بلکہ سب کو معلوم ہے ان دہشت گرد تنظیموں کو آپ مال اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

۴۔ جب آپ حرمین شریفین کے خادم بنتے ہیں تو آپ اتنے کمزور کیوں ہیں کہ اک قبیلے سے لڑنے کے لیے کم ازکم دس ملکوں کی فوج بلانی پڑتی ہے؟ خدا نخواستہ کفر کی طرف سے خانہ خدا پر حملہ پر حملہ ہوا تو آپ کی نظریں دوسروں پر ہی ہوگی؟ آپ کی اپنی فوج کہاں ہے؟ کیا بیت اللہ کی حفاظت اس طرح سے کی جاتی ہے؟ کیا یہی کعبۃ اللہ کی خدمت ہے؟

۵۔ کسی بھی ملک کی اکثریت جب کسی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اسے بغاوت نہیں انقلاب کہا جاتا ہے اور یمن میں بھی یہی ہوا ہے۔ ملک کی اکثریت بشمول وہاں کی افواج سعودیہ کے پٹھو ہادی منصور کی حکومت کے خلاف تھی اور انہوں نے اس ناجائز حکومت کے خلاف قیام کیا۔ ایسے میں آپ انقلاب اور بغاوت میں فرق کیسے کریں گے؟ پھرتو دنیا کے کسی بھی انقلاب کو شرعیت حاصل نہیں ہے؟

میرے وطن عزیز کے "باغیرت" فوجی جرنیلز اور حکمرانو! حرمین کے تحفظ کی قسم کھانے والو!

۱۔ کیا انسانی جان کی قیمت کعبۃ اللہ سے بڑھ کر نہیں؟ تو کیوں کرسی اور پیسوں کی لالچ میں انسانی پرخچے اڑانے کے اس عالمی کھیل کا حصہ بن رہے ہو؟

۲۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ تو کیا اسلام کے اس قلعے سے اتحاد اور وحدت کا درس نہیں جانا چاہیے؟ کیا پاکستان کو اس پھیلتی آگ کو بجھانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے؟ تو کیوں آپ اس آگ کا حصہ بننے جارہے ہیں؟

۳۔ ہمیں اعتراف ہے "محترم" میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی پر سعودی عرب اور وہاں کے شاہی خاندان کے بے شمار احسانات ہیں۔ آپ کے ان کے ساتھ فیملی تعلقات بھی ہیں۔ لیکن کیا ذاتی احسانات چکانے کے لیے آپ اس ملک کو ایک وسیع بین الاقوامی سازش کا حصہ بنانے جا رہے ہیں؟ جبکہ پاک فوج پہلے سے ہی مختلف محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے علاوہ پورے ملک میں دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔ کیا ہمارے فوجی کرایے کے ہیں جو کائی بھی ملک پیسوں کے عوض خرید سکے؟

۴۔ یہ حق آپ کو کس نے دیا کہ ملک کی تقدیر کا اتنا بڑا فیصلہ آپ خود یا آپ کی کچن کابینہ کر لے ؟ کیا قوم اس فیصلے سے مطمئن ہے؟ اگر اتنے حساس مسائل میں اعتماد میں نہ لیں تو پارلیمنٹ کس درد کی دوا ہے؟ پارلیمینٹ کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے؟

۴۔ ہم نے آپ کو ٹیکس ادا کئے کہ آپ ان پیسوں سے ملک میں ترقیاتی کام کریں، ملک میں امن وامان برقرار کریں۔ لیکن آپ ہمارے انہی پیسوں سے ہمارے مسلمان بھائیوں پر بم برسانے جارہے ہیں؟ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا پاکستان میں اتنا امن برقرار ہوا کہ آپ دوسرے ملکوں کے امن کو اپنا فریضہ سمجھنے لگے؟

ضرورت اس امر کی ہے پاکستان اس آگ میں کودنے کی بجائے اس آگ کو بجانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہم عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ دوسرے ملک کے حالات کے اثرات کو اپنے ملک میں لانے اور آپس کی بھائی چارگی اور وحدت کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ البتہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں بولنا ہمارا بنیادی حق ہے۔
 
Top