انگور

"انگور"


اُسے پتا تھا کہ آج وہ پکڑا جائے گا۔

آنے والی مشکل کی بُو چاروں طرف ہوا میں پھیلی ہوئی تھی۔

صبح سویرے گھر سے نکلنا اور پھر گھنٹوں بعد لوٹنا اب اُس کی عادت بن چکی تھی۔ مگر شاید آج کسی نے اُس کا پیچھا کِیا تھا۔

اور یہ عادت؟ یہ عادت اُسے پڑی کیسے؟

پہلے پہل تو وہ گھر سے نکلتا اور ارد گرد بنگلوں کے بیچ سے ہوتا ہوا بڑی سڑک تک پہنچتا۔ پھر سڑک پار کر کے پُرانے اور خستہ مکانوں کے درمیان ایک گلی پر سیدھا چلتے چلتے کُھلے بازار تک پہنچ جاتا جہاں کی رونق اور گہما گہمی اُسے اچھی لگتیں۔ مگر ایک دن نہ جانے کیوں وہ پرانے مکانوں کی درمیانی گلی پر چلتے چلتے بازار سے پہلے ایک خاص مقام پر بائیں جانب مُڑ گیا تھا۔ اور پھر تھوڑی ہی دُور اُسے وہ کوڑے کا وسیع ڈھیر نظر آیا تھا جہاں اب وہ روزانہ جاتا تھا۔ اِسی کوڑے کے ڈھیر پر اُسے وہ دونوں کھیلتے ہوئے ملے تھے جن سے اب وہ روزانہ کھیلنے جاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، ننگے پاؤں، معصوم چہرے، شرارتی آنکھیں۔ پہلے دن تو وہ اُنہیں دُور سے ہی دیکھتا رہا۔ وہ کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کوڑے کو کریدتے اور اُس میں سے ملنے والی اشیاء اپنی بڑی بڑی نیلی بوریوں میں ڈالتے (بوریاں جو اُن سے بھی بڑی معلوم ہوتی تھیں اور جنہیں جب وہ کمر پر لادتے تو پوری نہ اٹھتیں اور زمیں پر گِھسٹتی رہتیں)، اور کبھی سب کچھ چھوڑ کر کھیل کود میں لگ جاتے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، یا کسی ڈبے کو گیند بنا کر کھیلنے لگتے۔ اُن کے ایک دوسرے کو بار بار پکارنے سے اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ نسبتا لمبے قد مگر چھوٹے بالوں والا جمیل ہے، اور چھوٹی سی چادر سر پر اوڑھنے والی جمیلہ ہے (یہ چادر جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی کبھی سرکتی سرکتی جمیلہ کے کندھوں پر آ جاتی اور کبھی کھیل کے دوران بالکل ہی زمین پر پڑی ہوتی، تب اُس کے لمبے بھورے بال صاف نظر آتے)۔ پہلے دن اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دونوں کام اور کھیل کے بیچ کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے دن سے وہ اُن کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔

پھر وہ دن بھی آیا جب اُس نے اُنہیں لڑتے دیکھا۔

اُس دن جمیل کو کوڑے کے ڈھیر میں خراب انگوروں کا ایک گچھا ملا تھا جن میں ایک دانہ بالکل صاف تھا۔ جمیل اِس صاف دانے کو دیکھ کر خوشی سے اچھلا تھا اور جمیلہ اُس کی طرف بھاگی تھی۔ اپنے انگور کے دانے کو بچانے کے لیے جمیل نے جمیلہ کو دھکا دیا تھا۔ وہ منہ کے بل گِری تھی اور بہت زور سے روئی تھی۔ جمیل گچھا چھوڑ کر جمیلہ کی طرف بھاگا تھا اور پھر اپنے پھٹے ہوئے کُرتے کے کونے سے اُس نے جمیلہ کے ہونٹ سے بہتے خون کو روکا تھا اور پھر اپنے ہاتھ سے جمیلہ کو انگور کا دانہ کھلایا تھا۔ دانہ کھا کر جمیلہ اپنا درد بھول گئی تھی اور اُس کے ننھے چہرے پر ایک خاص تازگی آ گئی تھی۔ یہ جھگڑا، یہ خون، یہ تازگی اُس نے اُن دونوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر دیکھے تھے۔ اور شاید اسی لیے اگلے دن گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے ایک نیا کام کیا تھا۔ اُس نے اپنے ہی گھر سے چوری کی تھی۔ اور پھر کرتا چلا گیا تھا۔ مہمان خانے میں چھوٹی میز پر دھری پھلوں کی ٹوکری سے انگوروں کا ایک گچھا غائب کرتا اور اُن دونوں کو لا دیتا۔ تازہ انگور کھا کر وہ بہت خوش ہوتے۔ دیوانہ وار اچھلتے، دوڑتے اور کھیلتے۔ ہنستے ہنستے اُن کے چہرے سُرخ ہو جاتے۔ اُس نے ایسا سرخ رنگ اِس سے پہلے کچھ پودوں پر پتوں کے بیچ جھومتے دیکھا تھا۔

چوری، کھیل، اور گھر واپسی، یہ سلسلہ اب تک بغیر کسی مداخلت اور روک ٹوک کے چلتا رہا تھا۔ مگر آج ہوا میں جا بجا بکھرا کچھ اور ہی پیغام تھا۔ اور اُس کی سونگھنے کی حِس اُسے خبردار کر چکی تھی۔

گھر پہنچتے ہی بڑی مالکن اُس پر برس پڑیں۔ چھوٹے مالک نے اُس کا پیچھا کیا تھا اور گھر آ کر سب کچھ بتا دیا تھا۔ ٹونی نے پہلے تو دُم ہلا ہلا کر اور ہلکی آواز میں بھونک کر بڑی مالکن کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ پھر نیم شرمندگی اور نیم خوف کے عالم میں گلے کے اندر ہی اندر غراتا ہوا اُن کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔ مگر بڑی مالکن کا غصہ کم نہ ہوا اور انہوں نے ڈانٹتے ڈانٹتے اُسے پٹّے سے پکڑ کر ایک زنجیر سے باندھ دیا۔ اِس سے پہلے اُسے بہت کم اِس زنجیر سے باندھا گیا تھا۔ مالکن واقعی بہت ناراض تھیں۔ کئی دن تک اُس نے زنجیر سے جان چھڑانے کی دیوانہ وار کوشش کی اور بھونک بھونک کر شور مچاتا رہا۔ اُسے فکر تھی کہ شاید پھر جمیل اور جمیلہ انگوروں پر لڑ رہے ہوں گے، جمیلہ گِر جائے گی، اُس کے ہونٹ سے خون نکلے گا، درد ہو گا، وہ روئے گی۔ مگر کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ دی اور دھیرے دھیرے اُس کا شور کم ہونے لگا۔ پھر وہ وقت بھِی آیا جب وہ اُن دونوں کو مکمل طور پر بھول گیا۔ اب وہ صرف گھر کے چھوٹے مالکوں کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ اب باہر کوڑے کے ڈھیر پر پلتے، کھیلتے، لڑتے، اور خراب انگوروں میں صاف دانے تلاش کرتے جمیل اور جمیلہ کا خیال اُسے بالکل نہیں ستاتا تھا۔ اور ستاتا بھی کیوں؟ اب وہ انسانوں کے طور طریقے سیکھ چکا تھا۔

تحریر : نوید رزاق بٹ
 
Top