انگریزی زبان میں لکھنے والے پاکستانی مصنف

نبیل

تکنیکی معاون
آج بی بی سی اردو پر ایک آرٹیکل انگریزی کے افق پر پاکستانی ستارے پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس سے مجھے تجسس ہوا کہ ایسے پاکستانی مصنفین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں جو کہ انگریزی زبان میں لکھ رہے ہیں اور جن کی ناولوں کو عالمی سطح پر شہرت بھی مل رہی ہے۔ مذکورہ بالا آرٹیکل میں بیپسی سدھوا، محسن حامد، کاملہ شمسی، ندیم اسلم، محمد حنیف اور دانیال محی الدین کا ذکر موجود ہے۔ میں نے ان میں سے صرف محسن حامد کا ایک ناول The ReluctantFundamentalistپڑھا ہوا ہے جس کے بارے میں میں ایک علیحدہ پوسٹ میں لکھ بھی چکا ہوں۔ باقی مصنفین میں سے بھی جو حال میں لکھنے والے ہیں، ان کو پڑھنے کا مجھے اشتیاق ہے۔ انگریزی زبان میں لکھنے والے پاکستانی مصنفین کو حال میں زیادہ مقبولیت ملنا شروع ہوئی ہے جبکہ انڈیا کے مصنفین طویل عرصے سے عالمی سطح پر شہرت کما چکے ہیں۔ حال میں پاکستانی مصنفین کو ملنے والی شہرت کی ایک بڑی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے آنے والی خبریں اور دہشت گردی کا موضوع بھی ہے۔ اور ان مصنفین میں سے کئی ایسے ہی پلاٹ پر مبنی ناول لکھتے ہیں جس میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ دوسرے ممالک کے ناولسٹ‌ بھی ایسے موضوعات پر فکشن تحریر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی مصنفین کی جانب سے ایسے ناول شاید زیادہ معتبر تصور کیے جاتے ہیں۔ کچھ کچھ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اگرچہ نئے مصنفین بہت ذہین اور باصلاحیت ہیں، لیکن ان کے ناولوں کی مقبولیت میں ان کے پاکستانی بیک گراؤنڈ کا بھی ہاتھ ہے۔ آپ دوستوں کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

حوالہ جات:
انگریزی کے افق پر پاکستانی ستارے
Pakistani Writers in English: A Question of Identity
As their country descends into chaos, Pakistani writers are winning acclaim
 

arifkarim

معطل
انگریزی کُتب میں "پیسا" کمانے کے زیادہ چانسز ہیں۔ اسلئے پاکستانی ادیب اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر غیر زبان میں لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں!
 

حماد

محفلین
بپسی سدھوا کے تمام ناول مرے پسندیدہ ہیں.
محمد حنیف کا لکھا ہوا ناول "آور لیڈی آف ایلس بھٹی " حال ہی میں بہت مقبول ہوا ہے .
 
انگریزی کُتب میں "پیسا" کمانے کے زیادہ چانسز ہیں۔ اسلئے پاکستانی ادیب اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر غیر زبان میں لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں!

شايد ايك سبب يہ ہو ليكن دوسرے عوامل بھی ہيں : اردو دنيا ميں ريڈرشپ كم ہے ، ناولز سے ہٹ كر كسى كتاب ، تحقيقى كتاب كو پڑھنے والے كتنے ہيں ؟۔ كرپشن بہت ہے (بدقسمتى سے ) ۔ انٹلكچول پراپرٹی رائٹس كا شعور بہت كم ہے Plagiarism چيک تو ديوانے كا خواب ہے، اسى ليے بہت سے محقق اور مصنف ذاتى تخليق كے ليے بين الاقوامى زبانوں كے دامن ميں پناہ ليتے ہيں۔
 

نمرہ

محفلین
ان سب مصنفین نے دہشت گردی وغیرہ کے علاوہ بھی موضوعات چنے ہیں ویسے۔۔بپسی سدھوا کے موضوعات اکثر برصغیر کے سماجی رویوں کے گرد گھومتے ہیں اور نائن الیون سے پہلے کی دنیا کا ذکر ہوتا ہے ( جتنی کتابیں میں نے پڑھیں)۔ محسن حامد کا ایک اور ناول ہے، اور وہ نوے کی دہائ کا قصہ سناتا ہے۔
کاملہ شمسی کی ایک کتاب ہے، جو کہ جاپان پر ایٹمی حملے کے اثرات کا احاطہ کرتی ہے۔۔پھر محمد حنیف کی پہلی کتاب طنز و مزاح کے پیرائے میں جنرل ضیاالحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذکر کرتی ہے ۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
ان لوگوں نے اردو چھوڑ کر انگریزی نہیں چنی۔۔۔ ان لوگوں نے تو پرورش ہی انگریزی ماحول میں پائی ہے :) ۔۔ خالص اردو میں یہ لوگ ایک صفحہ بھی غالباً نہیں لکھ پائیں گے۔۔۔
 
انگریزی زبان میں لکھنے والے پاکستانی مصنفین کو حال میں زیادہ مقبولیت ملنا شروع ہوئی ہے جبکہ انڈیا کے مصنفین طویل عرصے سے عالمی سطح پر شہرت کما چکے ہیں۔ حال میں پاکستانی مصنفین کو ملنے والی شہرت کی ایک بڑی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے آنے والی خبریں اور دہشت گردی کا موضوع بھی ہے۔ اور ان مصنفین میں سے کئی ایسے ہی پلاٹ پر مبنی ناول لکھتے ہیں جس میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
شکریہ نبیل بھائی شیئر کرنے کا۔ دراصل یہ لکھاری مغربی دنیاء کو دہشت گردی اور بنیاد پرستی جیسے موضوعات سے متاثر کررہے ہیں۔ محفلین مانیں یا نہ مانیں، اس بات میں حقیقت تو ضرور ہے کہ گو دہشت گردی اور بنیاد پرستی ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ مغربی دیناء کا واویلا ہے ۔ دہشت گردی چند جرائم پیشہ افراد کا کام ہے جو ہمارے معاشرے کا جزو ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے کے نمائیندہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور ان کا ٹھکانا جیلیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس شدت پسندی ضرور ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم ارد گرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ شدت پسندی ہماری طبیعتوں اور ہمارے رویوں میں در آئی ہےہم شدت پسندی میں خاصے آگے بڑھ گئے ہیں ، اس پر طرہ یہ کہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہم کوئی سیاسی بحث نہیں چھیڑنا چاہتےلیکن ایک سماجی مسئلے کے طور پر اس کا تذکرہ ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ لوگ جو انگریزی میں لکھ رہے ہیں انھیں یہ موضوعات اپیل کرتے ہیں اور اردو میں لکھنے والوں کو نہیں کرتے۔ کیا وہ لوگ پاکستانی نہیں۔ کیا ان کا تعلق پاکستانی سوچ سے نہیں۔ بات ہمارے خیال میں یہ ہے کہ آج ان موضوعات پر اردو میں لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ایک زمانے میں جنسی موضوعات پر لکھنا تھا۔ اس کے باوجود کہ ان مصنفوں پر فحش نگاری کے الزام لگے اور ان پر مقدمات قائم کیے گئے، لیکن انھوں نے اپنے موقف سے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ کیا آج کے پاکستانی معاشرے میں کوئی بھی مصنف اس انداز سے لکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ اب الزام اور مقدمہ بازی کے زمانے لد گئے۔ اب تو سڑکوں پر اور نام نہاد آزاد چینلز پر احتساب ہوجا تا ہے اور کوئی بے چارہ جان سے جاتا ہے۔

اس شدت پسندی کے خلاف ہمارے مصنف جو ہر طبقہء خیال کے نمائیندہ ہوتے ہیں کب آواز اٹھائیں گے۔ کب ہمارے اندر منٹو اور عصمت جیسے نڈر مصنف پیدا ہوں گے جو اس موضوع کو اپنائیں گے۔ ایک لمحہء فکریہ ہے سوچنے والوں کے لیے۔
 
حال میں پاکستانی مصنفین کو ملنے والی شہرت کی ایک بڑی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے آنے والی خبریں اور دہشت گردی کا موضوع بھی ہے۔ اور ان مصنفین میں سے کئی ایسے ہی پلاٹ پر مبنی ناول لکھتے ہیں جس میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ دوسرے ممالک کے ناولسٹ‌ بھی ایسے موضوعات پر فکشن تحریر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی مصنفین کی جانب سے ایسے ناول شاید زیادہ معتبر تصور کیے جاتے ہیں۔ کچھ کچھ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اگرچہ نئے مصنفین بہت ذہین اور باصلاحیت ہیں، لیکن ان کے ناولوں کی مقبولیت میں ان کے پاکستانی بیک گراؤنڈ کا بھی ہاتھ ہے۔ آپ دوستوں کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

اردو ميں لكھنے والوں كو بھی عالمى حالات نے متاثر كيا ہے اور اس موضوع پر شعرا و ادبا لكھ رہے ہيں ۔ iiui کے اردو مجلہ معيار ميں ڈاكٹر نجيبہ عارف كى ايك تحرير ديكھی تھی شايد اردو افسانے پر نائن اليون كے اثرات قسم كا عنوان تھا ۔ اس ميں ايسے تمام افسانوں پر تبصرہ کيا گيا تھا ، ضمنا بعض انگريزى شارٹ سٹوريز كا تذكرہ بھی آ گيا ہے۔
 
آپ كا بھی شكريہ برادر محترم آپ نے اسے ڈھونڈ نكالا ، مجھے تو بمشكل ملتا دوبارہ ۔
اس ميں ايك امريكى updike كا ناول ہے ٹيررسٹ ، يہ نيٹ پر موجود ہے۔ آپ نے شدت پسندى كى بات كى تھی ۔ اس ناول كو ديكھ كر كوئى كہہ سكتا ہے كہ امريكى شدت پسندی ميں كسى سے كم ہيں ۔ مجھے ملعون ٹيرى جونز كا انٹرويو سنتے ہوئے updike كا لہجہ بار بار ياد آتا تھا ۔
ان لوگوں نے اردو چھوڑ کر انگریزی نہیں چنی۔۔۔ ان لوگوں نے تو پرورش ہی انگریزی ماحول میں پائی ہے :) ۔۔ خالص اردو میں یہ لوگ ایک صفحہ بھی
غالباً نہیں لکھ پائیں گے۔۔۔
محسن حمید يا حامد کے متعلق زبان كى حد تك يہ بات درست ہے ۔ ليكن پھر بھی reluctant fundamentalist ميں اس نے امريكا ميں رہنے والے عام پاكستانى کى ذہنی كشمكش كو كاميابى سے بيان كيا ہے اور كئى باريك باتوں ميں وہ روايتى پاكستانى احساسات بيان كر جاتا ہے ۔
 
Top