انشا پارے

کچھوا اور خرگوش
ایک تھا کچھوا، ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں شرط لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، وہ مہیری سمجھا جائے۔ اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔
دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا۔ پلک جھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شاندار ماضی کی یادوں میں کھو گئے، جب اس دنیا میں کچھوے راج کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یوں ہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں، باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے، " ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچے کی کیا اوقات ہے! میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی وا میرے کیا کہنے!"
جانے کتنا زمانے سوئے رہے۔ جب جی بھر کر سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی، واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔ کچھوے نے کہا، "اے برخوردار! تو خرگوش خاں کو جانتا ہے؟"
خرگوش کے بچے نے کہا، "جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ ہیں وہ کچھوے میاں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدّتوں آپ کا انتظار کرتے رہے، آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔"
کچھوے نے فورا اپنے کان اور اپنی سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔
 
پان اور ذبیحہ
ہمارے ہاں کے ایک بزرگ ایک روز جنیوا کے ہوٹل کے باہر کی سیر کر رہے تھے اور پان کی پچکاریاں مار رہے تھے کہ کچھ بچوں نے دیکھ لیا اور پولیس کو رپورٹ کی کہ ایک شخص خون تھوک رہا ہے۔ فورا کانسٹیبل آئے اور کہا کہ چلو ہسپتال۔ وہ بہت بھنائے اور انگریزی میں عذر کرنے لگے کہ میں تو یہ ہوں، وہ ہوں۔ مجھے تم جیل نہیں بھجوا سکتے، لیکن جنیوا کے کانسٹیبل انگریزی کیا جانیں؟ اتفاق سے ایک بھلے مانس کا گزر ادھر سے ہوا اور انہوں نے صورتحال سمجھی اور سمجھائی اور ان سے کہا کہ پانوں کی ڈبیا نکال کر انہیں دکھائیے۔ بڑی مشکل سے چھٹکارا ہوا، لیکن ہوٹل والوں نے ان کے غسل خانے کو بھی رنگین پایا تو بڑے جزبر ہوئے۔ یہاں تک تو انہوں نے برداشت کیا، لیکن ایک روز ان بزرگ کو شک ہوا کہ یہ گوشت جو ہوٹل والے دیتے ہیں شاید ذبیحہ نہیں۔ انہوں نے ہوٹل والوں سے کہا، "اپنا باورچی خانہ دکھائیے۔"
سارا دودھ کی تازہ سفید تھا۔ انہوں نے کہا، "کوئی مرغی لاؤ۔"
وہ سمجھے کہ سوئیزرلینڈ کی مرغیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک پلی ہوئی مرغی لا کر انہوں نے دی۔ قریب ہی چاقو پڑا تھا۔ انہوں نے اللہ اکبر کہہ کر اس کی گردن پر پھیر دیا۔ وہ پھڑپھڑا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن ادھ کٹی گردن کی چھینٹوں سے سبھی کے کپڑے گلنار ہو گئے۔ باورچی خانہ بھی رنگین ہو گیا۔ یورپ میں خود مرغی یا کوئی جانور ذبح کرنا جرم ہے، یہاں بھی وہ اپنی حیثیت کا حوالہ دے کر چھوٹے، لیکن بعد میں ہوٹل والے پاکستانی کو انکار کر دیتے تھے کہ ہمارے ہاں کمرہ نہیں ہے۔
 
تہران کا سالن
لیکن میاں ہوشنگ۔ اب تو بھوک لگ رہی ہے۔ کہیں چل کے چکھوتیاں ہونی چاہیں۔ بولے، "آئیے آئیے۔ بفرمائید! کیا کھائیے گا؟ اگلی گلی میں ریستوراں ہے۔"
ہم نے کہا، "دور کیوں جاتے ہو۔ یہ سامنے سالن کی دکان ہے۔ روٹی بھی ضرور دیتے ہوں گے۔ یہ اچھی نہیں تو ادھر بھی سالن کا بورڈ لگا ہے۔"
بولے، "یہ کھانے کی دکانیں تھوڑا ہی ہیں۔"
"پھر کیا ہیں؟"
"یہاں عورتوں کے بال بناتے ہیں اور ادھر درزی بیٹھتا ہے۔"
"پھر سالن کیوں لکھا ہے؟"
ہنس کر بولے، "یہ اصل میں سیلون ہے۔ درذی، نائی، دھوبی سب ہی کی دکانیں سالن ہیں۔"
 
روٹی ایران کی
ایک کوچے میں دیکھا کہ ایک کیل سے کوئی لمبی سی چیز لٹک رہی ہے۔ بظاہر نان معلوم ہوتا تھا اور تھا بھی لیکن کوئی ڈھائی تین گز لمبا۔ یہ محظ اشتہار کے طور پر تھا۔ اندر دیکھا کہ ہر وضع قطع کی روٹیاں ہیں۔ کوئی توے کے برابر ہے، کوئی پرات کے برابر۔ دیوار پر جابجا کھونٹیاں لگی ہوئی ہیں اور روٹیاں ان سے لٹکی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔ ایک صاحب نے ایک دو فیٹ قطر کی روٹی لی اور بغیر کسی چیز میں لپیٹے سائیکل کے کیرئیر پر رکھ کر یہ جا وہ جا۔
 
جاپانی پہلوان
جاپانی پہلوانوں کی کشتی ہم نے ویسے تو نہیں دیکھی، ٹیلی ویژن پر دیکھی ہے۔۔۔۔۔ معیار ہمارے ہاں صحت کا یہ ہے کہ چھاتی نکلی رہے اور کمر دبی رہے۔۔۔۔۔ جاپانی پہلوان اپنا پورا بدن نکالتا ہے، خصوصا پیٹ۔ جب تک وہ تیل کے ماٹ کی طرح لٹک کر تھل تھل نہ کرے پہلوان کو کشتی کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ آدمی کیا ہوتا ہے گوشت اور چربی کا پہاڑ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس کے لیے پہلوان کو بہت کھانا پڑتا ہے، بےتحاشا لیٹنا اور ڈکارنا پڑتا ہے۔ ایسے کام کی ممانعت ہے جس میں چربی کے ذرا سا گھلنے کا بھی خطرہ ہو۔ اس کشتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق چاہیے اور وہ دو چار دن میں نہیں دو چار نسل ہی میں پیدا ہوسکتا ہے۔
 
فرینک فرٹ کا غسل خانہ
فرینک فرٹ میں پہلے روز ہم نے غسل خانے جانا چاہا تو اس کا دروازہ ہی نہ ملا۔ ہم نے مینیجر کو بلا کر کہا، "بھلے مانس! کہاں ہے غسل خانے کا دروازہ؟"
اس نے کہا، "کہیں بھی نہیں ہے، کیوں کہ آپ کے کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں ہے۔"
اس پر ہم نے ہوٹل والوں سے کہا، "ہمیں غسل خانہ چاہیے۔ اس کے ساتھ کمرا ہو یا نہ ہو کچھ پروا نہیں، کیوں کہ ہم غسل خانے کے تخت طاؤس پر بیٹھے بیٹھے غور و فکر کرتے ہوئے وقت گزار لیں گے۔"
مینیجر کے جی میں نیکی آئی تو اس نے اگلے روز ہمیں ایک غسل خانہ دے دیا اور اس کے ساتھ ملحقہ ایک کمرا یعنی بیڈ روم بھی۔
 
لندن میں گوشت کی دکان
پچھلے ہفتے ہم لندن سے باہر لیسٹر اور برمنگھم بھی گئے۔۔۔۔۔ بالکل گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کا نقشہ پایا۔ ایک سڑک پر تو ستر فیصد دکانیں پاکستانیوں کی تھیں۔ یونس سویٹ مارٹ سے ہم نے پیڑے اور جلیبیاں کھائیں۔ یہ دکان دین محمد قسائی حلال گوشت والے کی دکان کے عین سامنے ہے۔
یہاں مستقل رہنے والے پاکستانی بالعموم پاکستانی قسائیوں سے گوشت لیتے ہیں۔ یہ وہ دکانیں ہیں جن پر لکھا ہے:
"یہاں حلال گوشت ملتا ہے۔" (بعضے ہلال گوشت بھی لکھتے ہیں۔)
یہاں قسائی کی دکان آئینہ خانہ ہوتی ہے۔ جانوروں کا ڈاکٹر باقاعدہ معائنہ کرتا ہے۔ ہماری طرح خانہ ساز اور نہ پڑھی جانے والی جامنی مہر نہیں ٹھونکی جاتی۔ پھر گوشت کے نفیس پارچے مومی کاغذ میں سجے ہوتے ہیں۔ ان پر ان کی قسم اور قیمت لکھی رہتی ہے۔ بیچنے والا سفید براق ایپرن باندھے ہوتا ہے۔ شیشوں کے دروازے کھڑکیاں اور ٹھنڈا کرنے کو فریج۔ کئی بار تو یہ گوشت کچا کھانے کو جی چاہتا ہے۔
 
اکبر بادشاہ
آپ نے حضرت ملا دو پیازہ اور بیربل کے ملفوظات میں اس بادشاہ کا حال پڑھا ہوگا۔ راجپوت مصوری کے شاہکاروں میں اس کی تصویر بھی دیکھی ہوگی۔ ان تحریروں اور تصویروں سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ سارا وقت داڑھی کٹوائے، مونچھیں ترشوائے اکڑوں بیٹھا پھول سونگھتا رہتا تھا یا لطیفے سنتا رہتا تھا۔ یہ بات نہیں، اور کام بھی کرتا تھا۔
اکبر قسمت کا دھنی تھا۔ چھوٹا سا تھا کہ باپ یعنی ہمایوں بادشاہ ستارے دیکھنے کے شوق میں کوٹھے سے گر کر جاں بحق ہوگیا اور تخت و تاج اسے مل گیا۔ ایڈورڈ ہفتم کی طرح چونسٹھ برس ولی عہدی میں نہیں گزارنے پڑے۔ ویسے اس زمانے میں اتنی لمبی ولی عہدی کا رواج بھی نہ تھا۔ ولی عہد لوگ جونہی باپ کی عمر کو معقول حد سے تجاوز کرتا دیکھتے تھے، اسے قتل کر کے یا زیادہ رحمدل ہوتے تو قید کر کے تخت حکومت پر جلوہ افروز ہو جاتے تاکہ زیادہ سے زیادہ دن رعایا کی خدمت کا حق ادا کرسکیں۔
 
سمندر
یہ سمندر ہے۔ اس میں پانی ہے۔۔۔۔۔ سمندر میں پانی کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ جب یہ چڑھائی کرتا ہے تو کسی کی نہیں مانتا، خواہ کیسا ہی لاٹ صاحب کیوں نہ ہو۔ انگلستان کے ایک بادشاہ کینوٹ کو اس کے مصاحبوں اور درباریوں نے باور کرایا تھا کہ ساری دنیا آپ کے حکم کے تابع ہے۔ آپ کا حکم زمین پر چلتا ہے، ستاروں پر چلتا ہے، اخباروں پر چلتا ہے، ہوا پر چلتا ہے اور سمندر پر بھی چلتا ہے۔ ایک روز شاہ جلالت مآب سمندر کے کنارے کرسی بچھائے بیٹھے تھے۔ لوگوں سے پوچھا، "یہ جو لہریں بڑھی آرہی ہیں ہمیں تنگ تو نہ کریں گی؟"
مصاحبوں نے کہا، "حضور! ان کی کیا مجال ہے۔ الٹا لٹکوادیں گے۔"
اس پر بھی لہریں جھپٹ کر آئیں۔ بادشاہ سلامت بہت ناراض ہوئے۔ سختی سے ڈانٹا، "اے سمندر! خبردار، پرے ہٹ جا، میرے پاؤں بھیگتے ہیں۔"
سمندر نے ایک نہ سنی، بادشاہ کو بھگودیا، قریب قریب ڈبو دیا۔
بادشاہ سلامت نے اپنے درباریوں اور مصاحبوں سے جواب طلب کیا، "وجہ بیان کرو۔ تمہارے خلاف کیوں نہ ضابطے کی کاروائی کی جائے؟ تمہارا تو بیان تھا کہ میری سلطنت عام ہے۔۔۔۔۔ سمندر تک میرا غلام ہے۔"
لیکن یہ اقدام بعد از وقت تھا۔ اس دوران خود بادشاہ سلامت کے خلاف ضابطے کی کاروائی ہوچکی تھی۔ عالم پناہ کو پہلے یہ بات سوچنی چاہیے تھی۔ اپنے محکمۂ اطلاعات پر اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
 
Top