انسان کے ارتقا کا عمل قدرتی طور پر اب بھی جاری ہے، سٹڈی میں انکشاف

نوید صادق

محفلین
لندن (جنگ نیوز)انسان کے ارتقاء کا سفر ابھی بھی جاری ہے اور اس پر ابھی تک تبدیلیوں کے اثرات مرتب نہیں ہوئے، ایک لاکھ سال سے زمین پر موجودگی کے باوجود اس نے تبدیلی کے انتہائی قلیل اثرات قبول کئے لیکن موجودہ دور میں ہونے والی ماحولیاتی عوامل اس پر اثر اندازہوسکتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے جنیٹک ماہر پروفیسر گل مک ویان کے مطابق قدرتی عوامل کے باعث انسان کے ارتقاء کا عمل اب بھی جاری ہے،چنانچہ تبدیلیوں کے اس پرانتہائی کم اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سٹڈیز کے مطابق ایک لاکھ سال قبل بھی کّرہ ارض پر انسان موجود تھے ۔ ماہرین کے مطابق اب سے دس لاکھ سال بعد انسانی جین میں تبدیلیوں کا امکان ہے۔ نئے شواہد کے مطابق انسانی جینوم کوجو شکل دی گئی ہے وہ تحقیق کے دو بڑے حصوں سے سامنے آئی ہے۔ ” ہیپ میپ پروجیکٹ“ میں اس کا دنیا بھر میں پائی جانے والی چار پائے والی مخلوق سے موازنہ کیا گیا جبکہ دوسرے 1000 جینوم پروجیکٹ کا مقصد 1000 افراد کے جنیٹک بلیو پرنٹ کو ایک ترتیب دینا تھا۔ اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے جنیٹک ماہر پروفیسر گل مک ویان نے سٹڈیز کے حوالے سے یونیورسٹی آف لیور پول میں برٹش ایسوسی ایشن فیسٹول آف سائنس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے یہ بات سمجھنا شروع کردی ہے کہ انسانی جینوم ناقابل یقین اور قوت عمل رکھنے کا عنصر ہے، انسانی جینوم ہر شخص کے جینیٹک کوڈ میں موجود تین ارب کریکٹرز کی طرح ایک جیسی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم ترین بات اس میں ہونے والی متعدد تبدیلیاں ہیں جسے ہم بطور شواہد دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی شباہت میں قدرتی انتخاب سے عمل میں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے درمیان فرق ماحولیاتی اثرات کے باعث آیا ہے، اور انسان ابھی بھی بہت زیادہ ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انفیکشن کے اثرات ، ماحولیات اور خوراک نئی نسل کے جینیاتی کوڈ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔پروفیسر مک ویان کے مطابق اس کی ایک مثال یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ یورپی اور بعض افریقی قبائل نے کسی خاص جینیاتی تبدیلی کے باعث دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے جبکہ ”لیکٹوز ان ٹولرینٹ“ ہونے کے وجہ سے دیگر افراد تاحال بیمار ہوئے بغیر ڈیری مصنوعات کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی تغیرنے سب صحارا کے افریقیوں میں ملیر یا کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شواہد سامنے آئے ہیں کہ اس تغیر پذیری کو ماحولیاتی زہریلے اثرات کے خاتمے میں کیلئے مثلاً شہری آلودگی جیسے مسائل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کے انتخاب نئی راہوں کے تعین میں معاون ہوسکتا ہے۔ پروفیسر مک ویان کے مطابق ان کوششوں کے باوجود انسان ابھی بھی اس کرہ ارض کا انوکھا ذی نفس ہے۔ اس کا انسانی ارتقاء رواں دور میں ہی ہوا ہے اور اس دور کا ہر شخص افراد کے چھوٹے سے گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امکان اس بات کا بھی ہے کہ ایک ملین سال بعد ہم بھی دیگراصناف کی طرح تغیر کا شکار ہوجائیں گے۔

(شکریہ روزنامہ جنگ)
 
Top