کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

انسان! رہے یاد کہ مرنا بھی پڑے گا
اور قبر کے گڈھے میں اترنا بھی پڑے گا

کرنا ہے اگر سارے زمانے کو معطر
خوشبو! تجھے ہر سمت بکھرنا بھی پڑے گا

معشوق کو گرویدہ اگر کرنا ہے اپنا
مرغوب طریقے سے سنورنا بھی پڑے گا

مانا کہ تری آنکھیں سمندر سی ہیں گہری
اس گہرے سمندر میں اترنا بھی پڑے گا

تصویر کا خاکہ بھی ہے اور رنگ بھی موجود
ان رنگوں کو تصویر میں بھرنا بھی پڑے گا

رحمان کی رحمت کی تمنا رہے بے شک
قہار کے ہر قہر سے ڈرنا بھی پڑے گا

چلتا ہی چلا جائے ہمیشہ کہاں ممکن
کچھ دیر مسافر کو ٹھہرنا بھی پڑے گا

جنت ہے اگر منزلِ مقصود تو جاوید
کانٹوں بھری دنیا سے گزرنا بھی پڑے گا
 
Top