انسانی زندگی پر ستاروں کا اثر؟

قسیم حیدر

محفلین
ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بہن ستاروں کے اثر کے قائل ہیں۔ ''آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا'' جیسے سلسلے اخبارات میں مستقل حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک نجی ٹیلی وژن نے ملکی مستقبل کے بارے میں نجومیوں کی رائے کو خبروں کا حصہ بنا دیا۔ میں اس بارے میں وارد آیات اور احادیث بغیر کسی تبصرے کے پیش کر رہا ہوں۔ قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے وقت سورت کا نام اور آیت نمبر لکھی گئی ہے۔ جبکہ حدیث کے حوالہ جات میں حدیث نمبر کے ساتھ ساتھ ''کتاب'' اور ''باب'' بھی درج کر دیےگیے ہیں۔ علاوہ ازیں میں نے صرف صحیح البخاری اور صحیح المسلم کی روایات لکھی ہیں تاکہ صحیح‌یا ضعیف حدیث کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ ان دونوں کتابوں کی احادیث کے صحیح ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔


مستقبل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ (سورۃ النمل۔65)

''فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں ان میں سے کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا سوائے اللہ کے''

اور فرمایا:

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (الانعام۔59)

''اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی ایسا دانہ نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔''

وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (لقمان۔ 34)

''کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔''


ستاروں میں تاثیر ماننا کفر ہے


عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللّهِ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِي إِثْرِ السَّمَاءِ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ. فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟» قَالُوا: الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ. فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ الله وَرَحْمَتِهِ، فَذٰلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ. وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذٰلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ (صحیح المسلم حدیث نمبر193۔ کتاب الایمان باب کفر من قال مطرنا بالنوء)

''زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:

''کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟''

صحابہ نے کہا '' اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔''

فرمایا:

''(اللہ تعالیٰ نے) ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ مومن ہوگئے ہیں اور کچھ کافر۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں برج کے اثر سے ہوئی ہے اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔''


عربی میں ''بنوء'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کے لیے مختلف الفاظ مستعمل ہیں جیسے ''نچھتر، برج، طالع، نصیبہ، منزل'' وغیرہ۔ اصطلاح میں ان سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے آثار و خواص لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں اور ان کو دیکھ کر نحوست یا خوش بختی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

''أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ، وَالاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ''۔ (صحیح المسلم حدیث نمبر2114۔ کتاب الجنائز،باب التشديد في النياحة)

''میری امت میں جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب و خاندان پر طعنہ زنی کرنا، تاروں کے اثر سے بارش ہونے کا عقیدہ رکھنا اور کسی مرنے والے پر بین کرنا۔''

صحیح البخاری میں صحابی رسول قتادہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ کہ '' اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لیے بنایا ہے:

آسمان کی زینت کے لیے

شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لیے

بحر و بر میں راستہ معلوم کرنے کے لیے

جو شخص ان کے علاوہ ان میں کچھ اور سمجھتا ہے اس نے غلطی کی اور (ہر بھلائی سے ) اپنا حصہ برباد کر لیا۔''

نجومییوں سے کچھ پوچھنے کا گناہِ عظیم

مَنْ أَتَىٰ عَرَّافاً فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاَةُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح المسلم حدیث نمبر 5773۔ کتاب السلام، باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان)

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

'' جو (مستقبل کی باتیں) بتانے والے کسی (نجومی) کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہو گی۔''


حدیث میں اصل لفظ 'عراف'' استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی مستند لغت ''لسان العرب'' میں اس کا مطلب ''ال۔مُنَ۔جِّم'' بتایا گیا ہے یعنی ''نجومی یا ستاروں کے ذریعے مستقبل کا حال بتانے والا۔''[/size]

نجومیوں کی کچھ باتیں سچ کیوں ہوتی ہیں[/color

قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللّهِ عَنِ الْكُهَّانِ؟ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللّهِ : «لَيْسُوا بِشَيْءٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَاناً الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا. قَالَ رَسُولُ اللّهِ : «تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّي. فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَة، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ (مسلم حدیث نمبر 5769۔ کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان)

اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کاہنوں(نجومیوں) کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''وہ کچھ نہیں ہیں'' (یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں)۔ لوگوں نے کہا '' اے اللہ رسول! ان کی بعض باتیں سچ نکلتی ہیں (اس کی کی وجہ ہے)''۔ انہوں نے فرمایا کہ ''وہ سچی بات وہی ہے جس کو کوئی جن (فرشتوں کی بات چیت کے دوران) اُڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف سے اور سو جھوٹ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔ہمیں چاہیے کہ اپنے عقیدے قرآن و حدیث کے مطابق رکھیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 

سارہ خان

محفلین
جزاک اللہ قسیم حیدر۔۔۔ بہت اچھی پوسٹ کی آپ نے ۔۔

بے شک مستقبل کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھا ٹاپک ہے قسیم حیدر صاحب، اور اتنی ہی اچھی آپکی پوسٹ ہے۔ جزاک اللہ خیراً۔

بالکل صحیح بات ہے، بقولِ اقبال

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

۔
 
بہت اچھی بات لکھی ہے آپ نے۔ قرآن کے حوالے بہت اچھے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو قران کی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ان توہمات سے محفوظ رکھیں۔

آپ ایات کا حوالہ دیتے ہوئے اگر آیت اس طرح لکھ کر 4:33 اور پھر اس اس کو ھئی لائٹ کرکے آپ اوپر "آیۃ" کو کلک کریں تو ٹیکسٹ میں مناسب لنک بن جائے گا اور ایک سے زیادہ تراجم آپ دیکھ سکیں گے

مثال:
4:33 بن جائے گ [a Y A H ] 4:33[ / A Y A H ] اور اس طرح نظر آئے گی
[ayah]4:33[/ayah ] اس کے نیچے آپ ترجمہ درج کرسکتے ہیں۔

والسلام
 

قسیم حیدر

محفلین
فاروق صاحب! مجھے آپ کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔ لنک کیسے بنے گا اور ''آیۃ'' کہاں پر ہے جس پر کلک کرنا ہے۔ براہِ مہربانی واضح فرما دیں۔ یہ تو کام کی چیز ہے۔
 
جب آپ ایڈیٹر میں جاتے ہیں تو دیکھئے جہاں " Eng عربی" لکھا ہے۔ اس کے بعد لفظ "آیۃ " لکھا ہے۔

آپ سورۃ 4 ، آیت 10 کے لئے لکھیں‌ 4:10 پھر آپ 4:10 کو ماؤس سے سلیکٹ‌کرلیں اور پھر آپ "آیۃ " کو کلک کریں‌ اور اب "معائنہ فرمائیں" کو کلک کرکے دیکھیں کے کیا ڈسپلے ہوتا ہے۔ آپ کو سورۃ‌ کے نام اور آیت کا نمبر دونوں نظر آئیں گے۔ جبکہ ٹیکسٹ میں‌صرف 4:10 ہوگا

مثال [AYAH]4:10[/AYAH] اس لنک کو کلک کرکے دیکھیں۔
والسلام
 

دوست

محفلین
بعض معاملات کی صریحًا ممانعت موجود ہے جیسے قرعہ یا فال نکلوانا۔ یہ جو عامل لوگ ہر خواہش پوری وغیرہ وغیرہ کے چیلنج دیتے ہیں یہ بھی کفر کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن اگر پامسٹری وغیرہ کو صرف علم ایک فن کہا جائے تو برا نہ ہوگا۔ میرے خیال سے پامسٹری نفسیات کے ذیل میں آنا چاہیے۔ جس میں آدمی کی عادات وغیرہ کا اس کے ہاتھ کی لکیروں سے پتا لگایا جاسکے بالکل اسی طرح جیسے علم الابدان (انگلیوں کی ساخت سے پیشے کا اندازہ وغیرہ وغیرہ( سے ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بعض معاملات کی صریحًا ممانعت موجود ہے جیسے قرعہ یا فال نکلوانا۔ یہ جو عامل لوگ ہر خواہش پوری وغیرہ وغیرہ کے چیلنج دیتے ہیں یہ بھی کفر کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن اگر پامسٹری وغیرہ کو صرف علم ایک فن کہا جائے تو برا نہ ہوگا۔ میرے خیال سے پامسٹری نفسیات کے ذیل میں آنا چاہیے۔ جس میں آدمی کی عادات وغیرہ کا اس کے ہاتھ کی لکیروں سے پتا لگایا جاسکے بالکل اسی طرح جیسے علم الابدان (انگلیوں کی ساخت سے پیشے کا اندازہ وغیرہ وغیرہ( سے ہوتا ہے۔[
اگر شخصیت شناسی ہو تو غلط نہیں ہے۔
 

asim10

محفلین
صرف اتنا کہوں گا ۔ لاجواب۔ اس سلسلے میں بہت جگہ بہت کچھ پڑھا لیکن ۔اتنی اچھی دلیلوں کا ساتھ پہلی دفعہ دیکھا۔جزاکاللہ
 
بعض معاملات کی صریحًا ممانعت موجود ہے جیسے قرعہ یا فال نکلوانا۔ یہ جو عامل لوگ ہر خواہش پوری وغیرہ وغیرہ کے چیلنج دیتے ہیں یہ بھی کفر کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن اگر پامسٹری وغیرہ کو صرف علم ایک فن کہا جائے تو برا نہ ہوگا۔ میرے خیال سے پامسٹری نفسیات کے ذیل میں آنا چاہیے۔ جس میں آدمی کی عادات وغیرہ کا اس کے ہاتھ کی لکیروں سے پتا لگایا جاسکے بالکل اسی طرح جیسے علم الابدان (انگلیوں کی ساخت سے پیشے کا اندازہ وغیرہ وغیرہ( سے ہوتا ہے۔
شاکرعزیز صاحب جاہل علماء کی کوئی کمی نہیں ہے جو کہ اپنی جاہلیت کی وجہ سے اچھے بھلے نجوم کے علم کو غیر اسلامی قرار دے رہے ہیں۔
انگلش میں آسٹرولوجر ہندی میں جیوتشی اور فارسی میں اختر شناس اور اردو میں نجومی کہتے ہیں۔اورسب سے بڑھ کریہ کہ عربی زبان میں منجم کہتے ہیں یعنی مصدر اسکا نجم ہے۔
اب اوپر جو احادیث واردہوئی ہیں ان میں ایک ہی لفظاستعمال ہوا ہے اسکا نام ہے ’’’’ اعراف ‘‘‘‘‘‘ اب اگراحادیث کو غور سے پڑھیں اور پرانے زمانے میں اسکا تجزیہ کریں تو واضح طورپر ایک نام ذہن میں آئے گا اوروہ ہے کاہن اب کاہن کیا چیز ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔

بڑے بڑے نام مثلا امام غزالی، فخر الدین رازی، بو علی سینا ایک لمبی قطار ہے جنہوں نے علم نجوم پر کتب تحریر کیں اور بہت سارے حکماء کی روازانہ کی مشق میں علم نجوم شامل تھا
 
Top