انحصار کرنے کو تھی بہار کی وحشت

Qaisar Aziz

محفلین
انحصار کرنے کو تھی بہار کی وحشت
میں نے اور وحشت سے استوار کی وحشت

چاپ جب سلگتی ہو ، آہٹیں سسکتی ہوں
آنکھ میں اترتی ہے ، اشکبار کی وحشت

خامشی کے سرمائے دشتِ جاں میں چھوڑ آئے
اب نئے سفر پر ہے ، کاروبار کی وحشت

بے کلی فغاں کرنے میرے دل تک آپہنچی
اور میں نے مجبوراً ، اختیار کی وحشت

میں بھلا کہاں جاؤں، بستیوں پہ پہرہ زن
بام و در کی خاموشی، رہگزار کی وحشت

منفعت کا دکھ آخر کیوں جہان میں بانٹوں
میں نے خود اگائی تھی اعتبار کی وحشت

اے فشانِ کوہِ عشق بات کیا ہے آخر کیوں
عمر بھر سلگتی ہے ، انتظار کی وحشت

کچھ خبر تو ہو آخر کس لیے دھڑکتی ہے
اے ٍغزالِ دشتِ دل ، بار بار کی وحشت

اے زمینِ نومردہ کچھ توبول آنکھیں کھول
میں کہاں چھپاؤں گا شہریار کی وحشت

پات پات پر محمود ایک خوف رقصاں ہے
کتنے بن جلائے گی اک شرار کی وحشت

م۔م۔مغل
 
Top