ابوشامل

محفلین
فیض احمد فیض کی ایک نظم لڑکپن میں سننے کا اتفاق ہوا، بہت پسند آئی تھی۔ البتہ اب پوری طرح یاد نہیں۔ انٹرنیٹ پر بعد از تلاش ایک جگہ سے ملی لیکن میرے خیال میں اس میں کافی غلطیاں ہیں۔ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ تصحیح فرما دیں۔ نظم درج ذیل ہے:

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کے ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب للہ فی الارض، دہقاں کے نام
جس کی ڈوروں کو ظا لم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے اک انگشت پتوار سے کاٹ لی ہے
دوسری مالئے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئ ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں سے سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتاگئے ہیں
بیواؤں کے نام
کتاریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتے ہیں اکثر وضو
جن کی سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھانے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہی تھے گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کی شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی سر سر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئ ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
 

فاتح

لائبریرین
ابو شامل صاحب، فیض کی خوبصورت نظم "انتساب" شیئر کرنے پر آپ کا بہت شکریہ!
اسے نیرہ نور نے گایا بھی ہے مگر بدقسمتی سےمیرے پاس موجود نہیں۔ اگر کسی دوست کے پاس ہو تو براہ کرم شیئر کر دے۔

چند چھوٹی چھوٹی شاید املاء کی اغلاط تھیں جو میں نے اصل کتاب سے دیکھ کر صحیح کر دی ہیں۔

انتساب​
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب للہ فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظا لم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالئے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئ ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتاگئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں[/COLOR]ٌ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)

ٌ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں

(فیض احمد فیض کی کتاب "سرِ وادیِ سینا" سے ماخوذ)
 

ابوشامل

محفلین
فاتح صاحب آپ نے اتنی جلدی درستگی کر کے مجھے حیران کیا ہے تو مجھ پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ میں آپ کی خواہش پوری کروں۔ نیرہ نور کی آواز میں "انتساب" بہت چھوٹا ہے، مکمل طور پر نہیں پڑھا گیا لیکن جتنا ہے میں آپ کے لیے یہاں پیش کیے دیتا ہوں درج ذیل ربط سے ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ لڑکپن میں جو میں نے سنا تھا وہ مکمل تھا بلکہ وہ ریلیز کے لیے نہیں تھا بلکہ ہمارے "خاندانی" اسٹوڈیو میں ریہرسل کے دوران ایک لڑکے نے پڑھا لیکن باقاعدہ ریلیز نہیں کیا گیا۔ کوشش کروں گا کہ ریکارڈ سے اسے نکالوں، اگر مل گئی تو انشاء اللہ یہاں اپ لوڈ کردوں گا.

انتساب از فیض احمد فیض
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے واہ اتنی جلدی ایک دوسرے کی فرمائشیں پوری ہو رہی ہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ "محفل" کی دنیا میں نہ دیر ہے اور نہ اندھیر ہے۔ ;)
 

ابوشامل

محفلین
وارث بھائی یہی تو حیران کن بات ہے، حیرت ہو رہی ہے کہ میں نے کل رات کو کمپیوٹر بند کرنے سے قبل اس آڈیو فائل کو یو ایس بی میں کیوں رکھا تھا؟ یقین نہیں آ رہا کہ آج ہی اس کا ایک طالب بھی مل گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواہش فاتح بھائی کے دل سے نکلی ہوگی اس لیے اللہ نے پوری بھی کردی۔ ;)
 

فاتح

لائبریرین
ابو شامل صاحب، بہت بہت شکریہ!
مجھے واقعی ایک مدت سے تلاش تھی اس نظم کی۔ انڈس ٹی وی نے ایک مرتبہ "فیض احمد فیض کو خراج عقیدت" کے نام سے ایک پروگرام پیش کیا تھا جس میں نیرہ نور نے فیض کا کچھ کلام گایا بھی ہے لیکن "انتساب" بہرحال نہیں تھا۔

ضرور دیکھیے گا اگر وہ ریہرسل مل سکے اور مزید جس قدر بھی ایسی تایخی ریہرسلیں ملیں اگر ممکن ہو تو شیئر کیجیے گا۔
ایک مرتبہ پھر تہِ دل سے شکریہ جناب!
 
کیا بات ہے جناب فرمائشی پروگرام چل رہے ہیں اور فی الفور پورے بھی ہو رہے ہیں۔ فیص کی نظموں کی کیا بات ہے ٹینا ثانی نے بھی اچھی گائی ہیں خاص طور پر رقیب تو بہت ہی عمدہ گائی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
محب صاحب کی فرمائشیں پوری کرنا کسی ذی روح کے بس میں نہیں;) کہ ؎
کیسی خواہش ہے کہ مٹھی میں سمندر ہوتا​
 

ام اویس

محفلین
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کا نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئ ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریاکار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹٹریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزومند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہوگئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہوگئے ہیں
فیض احمد فیض
انتساب
 
Top