انتخاب فارسی کلامِ غالب مع منظوم تراجم

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے اسی لیے کہا تھا کہ "بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است"۔ غالب اپنے آپ کو کلاسیکی فارسی شعراء کے ہم پلہ بلکہ انسے بہتر ہی سمجھتے رہے، اور یہ بالکل بجا بھی ہے۔ غالب فارسی کلام میں سبک ہندی لڑی کے آخری تاجدار ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ایرانی سبکِ ہندی کو بالکل در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن سبکِ ہندی، کہ نازک خیالی اور حسنِ تعلیل جسکی بڑی خصوصیات ہیں، میں غالب کا مقام انتہائی بلند ہے۔

نوجوانی میں غالب، فارسی اور اردو دونوں میں بیدل کا تتبع کرتے تھے لیکن تائب ہوگئے، اس کے علاوہ فارسی غزل مین وہ نظیری سے بہت متاثر تھے لیکن بالآخر اپنا رنگ جما کر رہے۔ لیکن انکا فارسی کلام کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکا، اسکی کئی ایک وجوہات مولانا حالی نے بیان کی ہیں۔ ناقدر شناسی اور فارسی سے دُوری اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ برصغیر میں فارسی کا انحطاط تو شاید غالب کے زمانے میں ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن آزادی تک پہنچتے پہنچتے تو فارسی شناس معدودے چند ہی رہ گئے تھے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ "زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"۔

کلیاتِ غالب نظمِ فارسی، پاکستان میں‌ پہلی دفعہ، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور نے 1965 میں‌ شائع کیے، اس میں غالب کے فارسی قطعات، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند، مثنویات، قصائد، غزلیات، رباعیات اور تقریظ شامل ہیں۔ مکمل کلیاتِ نظمِ فارسی کا ترجمہ شاید ابھی تک شائع نہیں ہوا۔

غزلیات فارسی غالب کا اردو ترجمہ صوفی غلام مصطفٰٰی تبسم نے کیا تھا جو کہ پکیجز لاہور نے شائع کروایا تھا اسکی بھی مجھے صرف جلد دوئم جس میں ردیف د تا ے کی غزلیں ہیں، ہی ملی، جلدِ اول بعد از تلاش بسیار نہیں مل سکی۔

ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے ایک ترجمہ "شرح کلیاتِ غالب فارسی" کے نام سے پیش کیا ہوا ہے لیکن وہ غالب کے مکمل فارسی کلام پر مشتمل نہیں ہے بلکہ غزلیاتِ غالب، رباعیات غالبِ اور چند قصیدوں کے انتخاب پر مشتمل ہے۔

ایک لا جواب کام افتخار احمد عدنی صاحب اور پروفیسر رالف رسل کا ہے۔ انتخاب فارسی غزلیاتِ غالب کے تراجم ان دونوں اصحاب کے یک جا ہیں اور لا جواب ہیں۔ عدنی صاحب نے منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے، انجمنِ ترقی اردو کے تعاون سے 1999 میں‌ شائع کی۔

غالب کے فارسی کلام کا ایک منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ نے کیا تھا جو کہ 1972 میں "شش جہاتِ غالب" کے نام سے شائع ہوا، اس میں انہوں نے غالب کی فارسی منتخب کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔

فارسی رباعیات غالب کا منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی مرحوم نے "ہم کلام" کے نام سے کیا تھا، اور کیا خوب کام ہے یہ۔ 1986 میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔


سب سے پہلے میں غالب کی ایک مشہور غزل پیش کر رہا ہوں، وجہء شہرت اس غزل کی صوفی تبسم کا پنجابی ترجمہ اور غلام علی کی گائیکی ہے۔


شعرِ غالب
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ

منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا

انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come



شعرِ غالب
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شود خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا

یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔

باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ

عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا

رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age's armoury to use on me, and come



شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدعی شوقت
یکے برغم دلِ نا امیدوار بیا

یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔

باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہے عذر
کبھی برغمِ دلِ نا امیدوار آؤ



شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا

یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔

باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ

عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا

رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come



شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا

یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔

باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ

عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا

رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come



شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا

یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔

تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا

تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا

باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ

عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذتیں اپنی
ہزار بار جدا ہوکے لاکھ بار آجا

رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come



شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا

یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔

تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا

تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا

باجوہ
ہو تم سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ



شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازم، چہا نمی خواہم
یکے بہ پرسش جانِ امیدوار بیا

یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔

باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ



شعرِ غالب
ز خوئے تست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دلم می رود ز کار بیا

یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ



شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مرو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا

یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔

تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا

تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا

باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ

عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا

رسل
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come



شعر غالب
حصار عافیتے گر ہوس کنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا

یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔

تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا

تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقہ رندانِ خاکسار آ جا

باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ

عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا

رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی غالب

غالب آزادۂ موحد کیشم
بر پاکی خویشتن گواہِ خویشم
گفتی بہ سخن برفتگان کس نرسد
از باز پسین نکتہ گزاران پیشم


ترجمہ
اے غالب، میں ایک آزاد منش اور موحد کیش انسان ہوں، اپنی پاک فطرتی پر خود ہی اپنا گواہ ہوں۔ تو نے کہا کہ کوئی بھی (آج کا شاعر) شاعری میں گذشتہ دور کے شعرا تک نہیں پہنچتا، میں‌ بہرحال آخر میں آنے والے نکتہ آفرینوں سے آگے ہوں۔


منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
غالب آزاد ہوں، موحد ہوں میں
ہاں پاک دلی کا اپنی شاہد ہوں میں
کہتے ہیں کہ سب کہہ گئے پچھلے شعرا
اب طرزِ سخن کا اپنی موجد ہوں میں



رباعی غالب

غالب بہ گہر ز دودۂ زاد شمم
زان رو بہ صفائے دمِ تیغست دمم
چوں رفت سپہبدی زدم چنگ بہ شعر
شد تیر شکستہ نیا کان قلمم

ترجمہ
غالب، میں نسل کے لحاظ سے ایک اچھے اور صاف خاندان کا فرد ہوں، اسی لئے میرا دم تلوار کے دم کی طرح صاف ہے۔ جب خاندان سے سپہ گری ختم ہوگئی تو میں نے ہاتھ میں‌ قلم پکڑ لیا، چنانچہ میرے اسلاف کا ٹوٹا ہوا تیر میرا قلم بن گیا۔

صبا
غالب ہے نسب نامہ مرا تیغِ دو دم
تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
اب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
ٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ "غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے"۔

جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا "مثالیت پسندی" یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔

یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب "فلسفہ کلامِ غالب" میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین "نقدِ غالب" میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔

دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ "وجودی" تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔


غزل پیشِ خدمت ہے۔


شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش

صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔

صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا

افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں

پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world



شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔

تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا

عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں

رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea



شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش

تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔

تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں

رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come



شعرِ غالب
قطرہء خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش

تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔

تبسم، منظوم
قطرہء خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا

عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں

رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech



شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔

تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا

عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare's noose tightening: I said, this is my nest



شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش

تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔

تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا

عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul



شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش

تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔

تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا

عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں

رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss



شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش

تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔

عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں

رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me



شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش

تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔

عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں

رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind



شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش

تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔

تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحبِ خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا

عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحبِ خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں

رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest



شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش

تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔



شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش

تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔



شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش

تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔

تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا

عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں

رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on



شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔

تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا

عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں

رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me



شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش

تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب

در عالمِ بے زری کہ تلخ است حیات
طاعت نتواں کرد بہ امیدِ نجات
اے کاش ز حق اشارتِ صوم صلوٰت
بودے بوجود مال چون حج و زکوٰت

ترجمہ
مفلسی کی حالت میں جبکہ زندگی تلخ ہوتی ہے، نجات کی امید میں عبادت کیونکر کی جاسکتی ہے۔ کاش کہ خدا کی طرف سے، روزے اور نماز کے سلسلے میں بھی حج اور زکوٰت کی طرح مال کی شرط ہوتی، یعنی نماز اور روزہ بھی صاحبِ استطاعت و صاحبِ نصاب پر فرض ہوتے۔

صبا اکبر آبادی
افلاس کے عالم میں ہوئی تلخ حیات
طاعت بھی نہیں ہوتی بہ امید نجات
اے کاش نماز اور روزہ ہوتے
مشروط بہ مال جیسے حج اور زکوٰت
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب
آں مرد کہ زن گرفت دانا نبود
از غصّہ فراغتش ہمانا نبود
دارد بجہاں خانہ و زن نیست درَد
نازم بخدا چرا توانا نبود


صبا اکبر آبادی
شادی جو کرے گا ہوگا دانا کیسے
افکار سے پھر جان بچانا کیسے
گھر ساری خدائی میں ہے گھر والی نہیں
پھر میرا خدا نہ ہو توانا کیسے

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
جس آدمی نے شادی کرلی، وہ دانا انسان نہیں ہے، اسلئے کہ (شادی کے نتیجے میں) اسے، یوں سمجھو، مصائب و آلام سے فراغت نصیب نہ ہوگی۔ مجھے خدا پر رشک آتا ہے کہ یہ ساری کائنات اس کا گھر ہے لیکن اس میں عورت نہیں ہے، پھر بھلا وہ (خدا) توانا کیونکر نہ ہوگا۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب

ہر کس ز حقیقت خبرے داشتہ است
بر خاک رہِ عجز سرے داشتہ است
زاہد ز خدا ارم بہ دعویٰ طلبد
شدّاد ہمانا پسرے داشتہ است


صبا اکبر آبادی

جس شخص کو ہے اصل حقیقت کی خبر
رکھتا ہے زمیں ہہ عاجزی سے وہ سر
زاہد کو خدا سے یوں ارم کی ہے طلب
جس طرح کہ شداد کا کوئی ہو پسر
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
مژدہء صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun



شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشم نگرانم دادند

تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل میرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see



شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament



شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen

شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔



شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back



شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبران، مےِ ناب آوردند
بشب جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan



شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament



شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب

شرط است بدہر در مظفر گشتن
اسبابِ دلاوری میسر گشتن
جامے ز شراب ارغوانی باید
آنرا کہ بود ہوائے خاور گشتن



منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی

لازم ہے حیات میں مظفر ہونا
اسبابِ دلاوری میسر ہونا
اک جامِ شراب ارغواں دے اسکو
وہ شخص جو چاہے مثلِ خاور ہونا

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
زمانے میں فتح مند ہونے کیلیے ضروری ہے کہ دلیری و بہادری کے اسباب میسر ہوں، اگر کسی کو روشن ہونے کی خواہش ہے تو اس کیلیے سرخ شراب کا ایک جام درکار ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب
بر قولِ تو اعتماد نتواں کردن
خود را بہ گزاف شاد نتواں کردن
از کثرتِ وعدہ ہائے پے در پے تو
یک وعدہء درست یاد نتواں کردن


صبا اکبر آبادی
ہر بات پہ اعتماد کیسے رکھتا
الفاظ سے دل کو شاد کیسے رکھتا
تُو نے کیے مجھ سے لاکھ جھوٹے وعدے
سچا وعدہ میں یاد کیسے رکھتا


ترجمہ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
تیرے قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اپنے آپ کو تیری غیر یقینی باتوں سے خوش نہیں کیا جا سکتا، تو نے جو مسلسل بےشمار وعدے کئے ہیں ان میں سے کوئی ایک وعدہ بھی صحیح طور یاد نہیں رہ سکتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب
ہر چند کہ زشت و نا سزائیم ہمہ
در عہدہء رحمتِ خدائیم ہمہ
در جلوہ دہد چنانکہ مائیم ہمہ
شائستہ نفت و بوریائیم ہمہ

منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
حالانکہ خراب و ناسزا ہیں ہم سب
ہاں طالبِ رحمتِ خدا ہیں ہم سب
تُو جلوہ نما ہو، ہم ہیں جیسے بھی ہیں
شائستہء خاک و بوریا ہیں ہم سب

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
اگرچہ ہم سب برے اور نالائق ہیں، تاہم ہم سب اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اگر وہ اپنا جلوہ دکھائے تو ہم سب، جیسے کہ ہم ہیں خاک اور بوریے کے لائق ہیں۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ غزل، غالب کے فارسی دیوان کی پہلی غزل ہے اور حسبِ روایتِ قدیم، حمدیہ غزل ہے، اور عین اردو دیوان کی پہلی غزل کے، یہ بھی ایک انتہائی مشکل غزل ہے جسکا کچھ اندازہ آپ کو نیچے تراجم پڑھ کر ہوگا۔

اس غزل کے تعارف میں پروفیسر رالف رسل فرماتے ہیں۔

Nearly all the verses are addressed to God. They stress His apparent indifference to the sufferings of even the best of mankind, like Ali and Husain, and praise His true lovers, who gladly submit to His inscrutable will with utter faith in His beneficence
.
منظوم تراجم کے حوالے سے ایک بات اور ہے کہ اس محفل کے رکن دلکش صاحب کی عنایت سے ڈاکٹر خالد حمید صاحب کے منظوم ترجمے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔


شعرِ غالب
اے بہ خلا و ملا، خوئے تو ہنگامہ زا
باہمہ در گفتگو، بے ہمہ با ماجرا

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
پہلی غزل ہونے کے ناطے یہ حمدیہ غزل ہے، اس میں غالب نے یہ کہا کہ اللہ کی ذات ایسی ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی اور اسکی تخلیق کے بعد بھی آئے دن کی تخلیقات میں یا انقلابات لانے میں مصروف رہتی ہے۔ سب موجود ہوں تو ان سے مصروفِ گفتگو ہوتا ہے اور کوئی نہ ہو تو تُو اپنی شان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ تیری ذاتِ عظیم کی شان تخلیق سے پہلے بھی اور آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔

منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید
ہے تیرا شوقِ ہنگامہ جو کرتا ہے جہاں برپا
وگرنہ حیثیت رکھتے ہیں کیا پیدا و نا پیدا

منظوم ترجمہ نبی احمد باجوہ
اے کہ خلا و ملا میں ہے تو ہنگامہ زا
باہمہ تو سخن، بے ہمہ با ماجرا

منظوم ترجمہ افتخار احمد عدنی
تیرے کرشموں سے پُر قلبِ خلا و ملا
گفتگو ہر ایک سے، امر میں سب سے جدا

ترجمہ پروفیسر رالف رسل
Hidden and Manifest, Your way is ever to raise turmoil
Discoursing all the time with all, yet acting for beyond all

تشریح رسل
God is ever active in working His purpose out, and was so even before He created man. He speaks with all His creation, of which man is only a part, and He is still engaged in work to which the existence or non-existence of man is irrelevant.



شعرِ غالب
شاہدِ حُسنِ ترا در روشِ دلبری
طُرہِ پُر خم صفات موئے میاں ما سوا

یزدانی
محبوبِ حقیقی کے حسن کی تصویر کشی پرپیچ زلفوں کی تشبیہ سے کی گئی ہے جو دلکشی میں بے مثال ہوتی ہیں، مراد یہ کہ اے اللہ تعالٰی تیری صفات پرپیچ زلفوں کی طرح ہیں جنہیں سمجھنا آسان بلکہ ممکن نہیں۔ محبوب کی کمر کو بال سے تشبیہ دی جاتی ہے یعنی بہت باریک بلکہ نظر نہ آنے والی کمر، ماسوا کو اس سے تشبیہ دے کر گویا یہ کہا گیا ہے کہ ماسوا کا وجود ہی کوئی نہیں۔

خالد حمید
جمالِ شاہدِ رعنا، خمِ گیسوئے جانانہ
ہے تیری دلبری کے سامنے موئے میاں جیسا

باجوہ
یوں ہے تو جلوہ فروز دلبری کی شان میں
گیسو ہیں گویا صفات اور کمر ما سوا



شعرِ غالب
دیدہ وراں را کند دیدِ تو بینش فزوں
از نگہِ تیز رو گشتہ نگہ توتیا

یزدانی
جو صاحبانِ بصیرت ہیں، تیرا دیدار انکی بصیرت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ نگہِ تیز رو یعنی گہری بصیرت سے نگاہ سرمہ بن گئی ہے۔

خالد حمید
بنایا دُوربیں دیدہ وروں کو دید نے تیری
نگاہِ تیز رو ان کی ہوئی ہے نگہِ سرما سا

باجوہ
دیکھنے والوں کو دید تیری بصارت فروز
ایک نگہ تیز رو خود ہے سرمہ آنکھ کا



شعرِ غالب
آب نہ بخشی بزرو خونِ سکندر ہدر
جاں نہ پذیری بہ ہیچ نقدِ خضر ناروا

یزدانی
سکندر کا زرو اور جاہ و جلال آبِ حیات کے حصول میں کام نہ آیا اور اسکا خون رائیگاں گیا، اور خضر کی ابدی زندگی بیکار ہے کہ تنہائی میں رہ رہے ہیں۔

خالد حمید
ہوا خونِ سکندر جستجو میں آبِ حیواں کی
حیاتِ جاوداں پر لُٹ گیا مالِ خضر کیسا

باجوہ
زرو سے لے کون آب؟ خونِ سکندر روا
لے نہ تو جاں مفت بھی؟ نقدِ خضر ناروا

عدنی
آبِ بقا کے قریں خونِ سکندر ہدر
ہدیہء جاں مسترد، نقدِ خضر ناروا

رسل
Sikandar's power, Sikandar's very life could not win water
Khizar would give his life - to You, his coin is counterfeit

تشریح رسل
Not all the power of Sikandar, ruler of the world, could avail him to get the water of life, and God withheld it from him to the last. Khizar, having gained eternal life, grew weary of it, and would gladly have surrendered it to God, but God rejects it as though it were counterfeit coin.



شعرِ غالب
بزمِ ترا شمع و گُل، خستگیِ بُو تراب
سازِ ترا زیر و بم، واقعہء کربلا

یزدانی
حضرت علی کی خستگی تیری محفل کی شمع اور سجاوٹ ہے، واقعہء کربلا تیرے ساز کے زیر و بم ہیں۔

خالد حمید
ہیں زخمِ بو ترابی شمع و گل اس بزم میں تیری
وقوعہ کربلا کا زیر و بم ہے سازِ محفل کا

باجوہ
بزم کی زینت تری، خستگیء بُو تراب
ساز کا ہے زیر و بم واقعہء کربلا

عدنی
شمع تری بزم کی خستگیِ بو تراب
نغمہ ترے ساز کا واقعہء کربلا

رسل
Ali's defeat is light and roses gracing Your assembly
Karbala's tragedy a tune that issues from Your lute

تشریح رسل
'Ali's defeat' - all his misfortunes from the death of the Prophet until his eventual murder.



شعرِ غالب
نکبتیانِ ترا قافلہ بے آب و ناں
نعمتیانِ ترا مائدہ بے اشتہا

یزدانی
ایک طرف تیرے مفلسوں کا قافلہ ہے کہ بھوکے پیاسے ہیں اور دوسری طرف نعمتوں والے ہیں کہ بھوک کے بغیر بھی جنکے دسترخوان سجے ہوئے ہیں۔

خالد حمید
جو ہیں معتوب تیرے ان کو روٹی ہے نہ پانی ہے
ملی ہیں نعمتیں بے بھوک، جن پر فضل ہے تیرا

باجوہ
غم زدوں کا ہے ترے قافلہ بے آب و ناں
نعمتیوں کو ترے مائدہ بے اشتہا

عدنی
ہیں جو ترے غم زدہ وہ رہے بے آب و ناں
جن پر کرم ہے، انہیں مائدہ بے اشتہا

رسل
Those whom You frown upon toil on with neither bread nor water
Those whom You favour, sated, are still plied with heavenly food



شعرِ غالب
گرمیِ نبضِ کسے کز تو بدل داشت سوز
سوختہ در مغزِ خاک ریشہء دارو گیا

یزدانی
جس کے دل میں تیرا سوز تھا اسکی نبض کی گرمی سے زمین کے اندر داروگیا بوٹی کی جڑ جل گئی۔

خالد حمید
نہ برگ و گل ترے عاشق کی تربت پر ہیں، ان کو تو
جلا کے خاک کر دیتا ہے سوزِ عاشقی اس کا

باجوہ
سوزِ غم سے جو ترے نبض ہے آتش بجاں
وہ جلائے زیرِ خاک ریشہء دارو گیا



شعرِ غالب
مصرفِ زہرِ ستم دادہ بیادِ تو ام
سبز بَود جائے من در دہن اژدہا

یزدانی
تیری یاد میں مجھ میں زہرِ ستم رچا ہوا ہے، اژدھا کے منہ میں میری جگہ سبز ہے یعنی اسکے منہ میں مجھے زیادہ آسودگی میسر آئے گی۔

باجوہ
عشق میں تیرے ہوں مصرفِ زہرِ ستم
سبز ہے میرا نشاں در دہانِ اژدھا



شعرِ غالب
کم مَشِمر گریہ ام زانکہ بعلمِ ازل
بودہ دریں جوئے آب گردشِ ہفت آسیا

یزدانی
میرے گریہ کو کم مت جان کہ یہ بات علمِ ازل میں تھی کہ کبھی میرے آنسوؤں کی جھڑی سے سات آسمان گردش میں رہیں۔

باجوہ
کم نہیں گریہ مرا، کیونکہ بعلمِ ازل
تھی اسی گرداب میں گردشِ ہفت آسیا

عدنی
گریہ مرا کم نہیں روزِ ازل بے گماں
تھی اسی سیلاب میں گردشِ ہفت آسیا

رسل
Do not discount my tears; eternal wisdom has decreed
That in this flowing stream the seven milestones all revolve

تشریح رسل
The seven milestones are the seven heavens, the revolution of which determines the fate of man. But it is the force of the stream of tears man sheds in his sufferings that causes the milestones to revolve. So man himself contributes to the making of his own fate.



شعرِ غالب
سادہ ز علم و عمل مہرِ تو ورزیدہ ایم
مستیِ ما پایدار، بادہء ما ناشتا

یزدانی
ہم علم و عمل دونوں سے عاری یا دور ہیں اور اس حالت میں تیرا عشق اختیار کیا ہے، ہماری مستی پایدار ہے اور ہماری شراب ایسی ہے جس میں کوئی کھانے پینے والی چیز نہیں۔

باجوہ
علم و عمل سے تہی، دل میں ہے الفت تیری
مستی اپنی پائدار بن پیے مے دائما

عدنی
علم و عمل سے تہی غرقِ محبت ہوں میں
مستی مری پایدار بادہ مرا ناشتا

رسل
We, ignorant and powerless, maintain our love for You
Intoxicated always, with a wine that does not fail

تشریح رسل
The wine is the wine of love of God. We are powerless and ignorant, but we love You utterly and steadfastly.



شعرِ غالب
خلد بہ غالب سپار زانکہ بداں روضہ در
نیک بَود عندلیب خاصہ نو آئیں نوا

یزدانی
تو خلد غالب کے سپرد کردے کہ اس باغ میں نئے نئے نغمے الاپنے والی بلبل اچھی رہے گی۔

باجوہ
خلد تو غالب کو بخش تا کہ ہو اس باغ میں
خوب ایک عندلیب، طرفہ نرالی نوا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب
راہیست ز عبد تا حضوراللہ
خواہی تو دراز گیر و خواہی کوتاہ
ایں کوثر و طوبٰی کہ نشانہا دارد
سرچشمہ و سایہ ایست درنیمہء راہ

صبا اکبر آبادی
اک راستہ بندے کا ہے تا ذاتِ الٰہ
تُو اس کو طویل کردے چاہے کوتاہ
یہ کوثر و طوبٰی تو ہیں بس صرف نشاں
ہو چشمہ و سایہ کوئی جیسے سرِ راہ

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
بندے سے خدا کے حضور تک، یعنی انسان کی خدا تک رسائی کیلیے ایک راستہ ہے۔ اب یہ تیری مرضی ہے کہ تو خواہ طویل راستہ اختیار کرلے خواہ چھوٹا۔ یہ جو کوثر اور طوبٰی کے نشان ہیں تو یہ، در حقیقت، اس رسائی کے سفر کے آدھے راستے میں سرچشمہ اور ایک سائے کی صورت ہیں۔

گویا اللہ تک رسائی کیلیے کوثر و طوبٰی کے چکر میں پڑنا دراصل اس راہ کو طویل کرنا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اللہ سے کس خواہش و مقصود کے بغیر لو لگائی جائے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب

آن را کہ عطّیہ ازل در نظر است
ہر چند بلا بیش، طرب بیش تر است
فرق است میانِ من و صنعاں در کفر
بخشش دگر و مُزدِ عبادت دگر است


صبا اکبر آبادی
ہر اک کے لیے عطائے رحمت ہے الگ
ہر درد و الم میں لطف و راحت ہے الگ
کافر سہی لیکن یہ عقیدہ ہے مرا
بخشش ہے الگ، اجرِ عبادت ہے الگ


ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
جسکی نظر میں ازلی بخشش ہے (یعنی خدا کے کریم و غفار ہونے پر ایمان ہے) ہر چند اس کی مصیبتیں بہت ہوں لیکن اس کیلیے عیش و مسرت کا سامان ان سے کہیں زیادہ ہے۔ میرے اور (شیخ) صنعان کے کفر میں فرق ہے، کیونکہ بخشش کچھ اور چیز ہے اور عبادت کی اجرت کچھ اور۔

.
 

محمد وارث

لائبریرین
شعرِ غالب
در ہجر، طرب بیش کند تاب و تبم را
مہتاب کفِ مارِ سیاہ است شبم را

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
فراق کی رات میں، خوشی و مسرت کی بات میری بے قراری اور اضطراب میں اضافہ کردیتی ہے۔ گویا چاندنی میری رات کیلیے کالے سانپ کا پھن ہے۔ چاندنی رات سب کو بھلی لگتی ہے لیکن فراق زدہ انسان کیلیے مزید بے قراری کا باعث بن جاتی ہے۔


شعرِ غالب
آدخ کہ چمن جستم و گردوں عوضِ گل
در دامنِ من ریختہ پاے طلبم را

یزدانی
میں تو چمن کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ آسمان نے پھول کی بجائے میری جھولی میں میری آرزو کا پاؤں ڈال دیا۔ یعنی مجھے جس چیز کی خواہش تھی وہ میرے مقدر میں نہ تھی۔

منظوم ترجمہ نبی احمد باجوہ
افسوس چمن ڈھونڈنے نکلا میں، فلک نے
دامن میں مرے پھینک دیا پائے طلب کو


شعرِ غالب
ساز و قدح و نغمہ و صہبا، ہمہ آتش
یابی ز سَمَندَر رہِ بزمِ طربم را

یزدانی
ساز و قدح اور نغمہ و صہبا سبھی آگ ہیں۔ تجھے میری بزم کا راستہ سمندر (آگ میں رہنے والے کیڑے) کے وسیلے سے ملے گا۔ مراد یہ کہ ہے مذکورہ اشیاء بظاہر عیش و طرب کا سامان مہیا کرتی ہیں لیکن ان سے میرے غم و اندوہ کی آگ مزید بھڑک اٹھتی ہے۔

باجوہ
ہیں ساز و قدح، نغمہ و صہبا سبھی آتش
پاؤ گے سپندے سے مری بزمِ طرب کو

منظوم ترجمہ افتخار احمد عدنی
ساز و قدح و نغمہ و صہبا میں ہے اک آگ
فطرت میں سمندر کی مرا رازِ طرب ہے

ترجمہ پروفیسر رالف رسل
The lute, the cup, the melody, the wine - all kindle fire
The salamander knows; ask him the way to my assembly



شعرِ غالب
از لذتِ بیدادِ تو فارغ نتواں زیست
دریاب عیارِ گلۂ بے سببم را

یزدانی
تیری بیداد کی لذت کچھ ایسی لذت ہے کہ اسکے بغیر اپنی زندگی صحیح طور پر بسر نہیں ہوسکتی۔ تو میرے بے سبب گلہ کو ٹھیک طرح سے جانچ لے۔ یعنی تیرے ستم اٹھانے میں مجھے لذت ملتی ہے، تیرا مجھ پر ستم نہ کرنا میرے گلے کا باعث بنتا ہے۔

باجوہ
بے لذتِ بیداد ہوا جینا بھی مشکل
پہچان مرے شکوۂ بے کیف و سبب کو

عدنی
بے لذتِ بیداد کے جینا نہیں ممکن
اس شکوۂ بے جا کا فقط یہ ہی سبب ہے

رسل
Without the joy your cruel wrath brings to me I should die
Think, then! Why is it I complain against you without cause


شعرِ غالب
در من ہوسِ بادہ طبیعست کہ غالب
پیمانہ بہ جمشید رساند نسبم را

یزدانی
اے غالب مجھ میں جو ہوسِ بادہ ہے تو یہ میری فطرت کا تقاضا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیمانہ میرا حسب نسب جمشید سے ملاتا ہے۔

باجوہ
مجھ میں ہوسِ بادہ ہے طبعی، جو ملائے
جمشید سے پیمانہ مرے حسب و نسب کو

عدنی
مے کی نہ ہوس کیوں مری فطرت میں ہو غالب
جمشید تلک جام سے جب میرا نسب ہے

رسل
Ghalib, the love of wine is in your nature, for the cup
From which you drink it takes your pedigree back to Jamshed


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب
گیرم کہ ز دہر رسمِ غم برخیزد
شب* ہائے گزشتہ چوں بہم برخیزد
مشکل کہ دہید دادِ ناکامیٔ ما
ہر چند کہ فرجام ستم برخیزد


منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی
ممکن ہے جہاں سے رسمِ غم اٹھ جائے
گزری ہوئی راتوں کا الم اٹھ جائے
مشکل ہے کہ داد پاؤں ناکامی کی
چاہے دنیا سے ہر ستم اٹھ جائے

ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں یہ مان لیتا ہوں کہ آئندہ دنیا سے غم و آلام کا دستور ختم ہوجائے گا، لیکن وہ جو سابقہ غم ہیں (یعنی جن میں ہم مبتلا ہیں) وہ کیونکر اٹھ جائیں گے۔ یہ بات مشکل ہے کہ تم ہماری ناکامی کی داد دو گے، وہ الگ بات ہے کہ ستم آخر کار ختم ہو جائے گا۔ یعنی آئندہ جو کچھ بھی ہو، بات تو اب کی ہے کہ ہم نے کتنے ستم اٹھائے ہیں اور غم و آلام کا شکار ہوئے ہیں۔ اس طرف کون توجہ کرے گا؟ ظاہر ہے کوئی بھی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* کلیات غالب فارسی مطبوعہ شیخ مبارک علی اور کلیات غالب فارسی ترجمہ خواجہ حمید یزدانی مطبوعہ دانیال پبلشرز دونوں میں لفظ "شب" کی جگہ لفظ "غم" ہے یعنی رباعی کا مصرعہ اسطرح ہے

"غم" ہائے گزشتہ چوں بہم برخیزد

لیکن جونکہ صبا صاحب نے اسکا منظوم ترجمہ "شب" کے لحاظ سے کیا ہے سو میں نے بھی یہی لفظ رہنے دیا ہے وگرنہ انکا منظوم ترجمہ "خراب" ہوجائے گا۔ گو "غم" کی جگہ "شب" رکھنے سے غالب کا مصرع "خراب" ہو جانے کا خدشہ ہے لیکن صبا صاحب جیسے صاحبِ علم و نظر سے بعید ہے کہ انہوں نے بغیر دیکھے، بھالے اور تحقیق کے یہ لفظ استعمال کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نسخے میں یہ مصرع ایسا ہی ہو جیسا کہ صبا صاحب نے لکھا ہے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔


شعرِ غالب
خیز و بے راہ روے را سرِ راہے دریاب
شورش افزا نگہِ حوصلہ گاہے دریاب

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
اٹھ اور کسی بے راہ رو کو کسی راستے کے کنارے پا لے، حوصلہ مند نگاہ کو شورش افزا حالت میں دیکھ لے۔ مطلب یہ کہ تیرے عشق میں کسی کو اپنی منزل کی خبر نہیں، وہ سرِ راہے پڑا ہے اور اسکی ان نگاہوں میں جو بڑے حوصلے والی تھیں اب اس عشق کے سبب ایک غوغا مچا ہوا ہے۔

منظوم ترجمہ افتخار احمد عدنی
کوئی آوارہ ملے ہم کو سرِ راہ سہی
کوچہ گردی میں کہیں شورگاہ گاہ سہی

انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
Go out and find some wanderer, strayed from the beaten track
You may find one whose high resolve stirs tumult in the world



شعرِ غالب
عالم آئینۂ راز است چہ پیدا چہ نہاں
تابِ اندیشہ نداری بہ نگاہے دریاب

یزدانی
یہ کائنات کیا ظاہر میں اور کیا باطن میں، دونوں صورتوں میں اس حقیقتِ مطلقہ کے راز کا آئینہ ہے، اگر تجھ میں اس کیفیت پر غور و فکر کرنے کی طاقت نہیں ہے تو نگاہوں ہی سے یہ راز پا لے۔ مراد یہ کہ کائنات کی ہر شے اس ذاتِ مطلق کے وجود کا پتہ دیتی ہے، انسان اگر اس ضمن میں غور و فکر سے کام نہ (بھی) لے تو کم از کم اسکی نگاہیں اسے اس راز سے آگاہ کر سکتی ہیں۔

عدنی
ہے جہاں آئینۂ راز عیاں ہو کہ نہاں
تابِ اندیشہ نہیں ہے تو پھر نگاہ سہی

منظوم ترجمہ نبی احمد باجوہ
دہر ہے آئینہ اسرار کا ظاہر باطن
گر نہیں تابِ تفکر تو نگہ بھی ہے بہت

رسل
In the world’s glass, see, manifest and hidden both are mirrored
Your thought cannot embrace them? Be content to gaze on them

تشریح رسل
What cannot be fully understood may nevertheless be enjoyed. And increased understanding may come with enjoyment.



شعرِ غالب
گر بہ معنی نرسی جلوۂ صورت چہ کم ست
خمِ زلف و شکنِ طرفِ کلاہے دریاب

یزدانی
اگر تو حقیقت یعنی حسن کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا تو اسکا ظاہری جلوہ کیا کم ہے یعنی ظاہری جلوے میں بھی بہت دلکشی کا سامان ہے۔ تو اس ظاہری جلوے کو محبوب کے خمِ زلف اور اسکی کج کلاہی، جس میں ایک شان اور دلکشی ہے، میں دیکھ اور لطف اندوز ہو۔

عدنی
حسنِ صورت ہے بہت گرچہ ہو معنی مستور
خمِ زلف و شکنِ طرفِ کج کلاہ سہی

باجوہ
گر تجلّی نہیں معنی کی تو صورت ہی سہی
خمِ زلف اور شکنِ طرفِ کلہ بھی ہے بہت

رسل
Meaning eludes you? Be content with what your eyes can see
Look for fair women’s coiling tresses and exulting pride



شعرِ غالب
غمِ افسردگیم سوخت، کجائی اے شوق
نفسم را بہ پر افشانی آہے دریاب

یزدانی
افسردگی کے غم نے مجھے جلا دیا ہے اے شوق تو کہاں ہے، آ اور میرے سانس کو آہ کی صورت میں پھڑپھڑاتے دیکھ۔ مطلب یہ کہ شوق مجھے اس افسردگی سے نجات دلائے جس کے سبب میرا سانس آہ کی صورت اختیار کیئے ہوئے ہے۔

باجوہ
غمِ افسردگی نے مارا، کہاں تو اے شوق
سانس کو میرے پر افشانیٔ آہ بھی ہے بہت


شعرِ غالب
بر توانائی نازِ تو گواہیم ز عجز
تابِ بیجادہ بجذبِ پرِ کاہے دریاب

یزدانی
ہم اپنے عجز کی بنا پر تیرے ناز کی توانائی پر گواہ ہیں۔ تو پرکاہ کو اپنی طرف کھینچنے میں ذرا کہربا کی طاقت ملاحظہ کر، یعنی تیرے ناز و ادا میں بڑی قوت ہے جو ایک طرح سے کہربا کی مانند ہے اور ہم گویا پرکاہ ہیں جسے یہ کہربا اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تیرا ناز و ادا بیحد دلکش ہے۔


شعرِ غالب
تا چہا آئینۂ حسرتِ دیدار تو ایم
جلوہ بر خود کن و ما را بہ نگاہے دریاب

یزدانی
ہم تیرے دیدار کی حسرت میں کس حد تک آئینہ بنے بیٹھے ہیں۔ ذرا تو اپنا اپنے حسن کا نظارہ خود دیکھ اور پھر ہم پر ایک نظر ڈال۔ یعنی تجھے ہماری اس حالت کا پتا چل جائے گا، محبوب کے انتہائی دلکش حسن کا بالواسطہ بیان ہے۔

عدنی
ہم تری حسرتِ دیدار کا آئینہ ہیں
خود پہ کر جلوہ مگر ہم پہ اک نگاہ سہی

باجوہ
کس قدر آئینۂ حسرتِ دیدار ہیں ہم
خود کو دیکھو تو وہی ہم کو نگہ بھی ہے بہت

رسل
How long must we be mirrors longing for the sight of you?
Come forth in all your radiance. Enslave us with a glance



شعرِ غالب
تو در آغوشی و دست و دلم از کار شدہ
تشنہ بے دلو و رسن برسرِ چاہے دریاب

یزدانی
تو میری آغوش میں ہے اور میرے دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں تو یوں سمجھو کہ میری حالت اس پیاسے کی سی ہے جو بیٹھتا تو کنوئیں کے کنارے ہے لیکن اس کے پاس ڈول (دلو) اور رسی نہ ہونے کے باعث وہ کنوئیں سے پانی نہیں نکال سکتا اور یوں پیاسا ہی رہتا ہے۔ یعنی عاشق اس کیف آور اور مسرت بخش حالت میں اتنا محو اور غرق ہے کہ اسے اپنا کوئی ہوش نہیں۔ معرفت کا شعر ہو تو مطلب یہ کہ خدا شہ رگ کے قریب ہے لیکن اسے پانا ناممکن ہے۔

باجوہ
تو ہے آغوش میں اور گزرا دل و دست سے میں
تشنہ بے دلو ر رسن بر سرِ چہ بھی ہے بہت



شعرِ غالب
داغِ ناکامیِ حسرت بود آئینۂ وصل
شبِ روشن طلبی روزِ سیاہے دریاب

یزدانی
آئینۂ وصل حسرتوں کی ناکامی کا داغ ہے، تُو شبِ روشن کا طالب ہے تو روز سیاہ پالے یا روزِ سیاہ دیکھ لے۔ یعنی وصل میں بھی انسان کی حسرت پوری نہیں ہوتی یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وہ شبِ روشن کا خواہاں ہو لیکن اسے روزِ سیاہ سے واسطہ پڑ جائے۔

عدنی
داغِ حسرت ہی یہاں وصل کا آئینہ ہے
رات روشن نہ ہوئی دن بھی اب سیاہ سہی

باجوہ
داغِ ناکامیٔ حسرت بنے آئینۂ وصل
شبِ روشن کے عوض روزِ سیہ بھی ہے بہت

رسل
Look in the scar of yearning and see bliss reflected there
You seek the brightest night? Then go and find the darkest day

تشریح رسل
You cannot appreciate the full extent of joy unless you have also experienced the full extent of sorrow.


شعرِ غالب
فرصت از کف مدہ و وقت غنیمت پندار
نیست گر صبحِ بہارے شبِ ماہے دریاب

یزدانی
فرصت یا موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دے اور وقت کو غنیمت جان اگر صبحِ بہاری میسر نہیں تو چاندنی رات ہی سے لطف اندوز ہو جا۔ مراد یہ کہ جو کچھ میسر آ جائے اسے غنیمت سمجھو اور بہتر کے انتظار میں میسر شدہ کمتر چیز کو ہاتھ سے نہ کھو بیٹھو۔

عدنی
ہے غنیمت جو کوئی لمحۂ فرصت مل جائے
گر نہیں صبحِ بہاراں تو شبِ ماہ سہی

رسل
Hold fast the little time you have and learn to treasure it
Spring mornings are not in your grasp? Then seek the moonlight night.


شعرِ غالب
غالب و کشمکش بیم و امیدش، ہیہات
یا بہ تیغے بکش و یا بہ نگاہے دریاب

یزدانی
غالب ہے اور امید و بیم کی باہمی کھینچا تانی، افسوس کی بات ہے تو اسے یا تو کسی تلوار سے مار ڈال یا پھر اس پر ایک نگاہِ محبت ڈال کر ہی اسے امید و بیم کی اس باہمی کشمکش سے نجات دلا۔

باجوہ
غالب اور کشمکشِ بیم و امید اسکی حیف
قتل کر تیغ سے یا اس کو نگہ بھی ہے بہت

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ غالب

در باغِ مراد ما ز بیداد تگرگ
نے نخل بجائے ماند نے شاخ نہ برگ
چوں خانہ خرابست چہ نالیم ز سیل
چوں زیست وبالیست چہ ترسیم ز مرگ


ترجمہ خواجہ حمید یزدانی

ہمارے باغِ مراد میں اولوں کے ظلم و ستم کے باعث نہ تو کوئی درخت ہی اپنی جگہ پر رہا ہے، نہ کوئی شاخ ہی اور نہ کوئی پتا ہی۔ جب (ہمارا) گھر ہی ویران و تباہ ہے تو پھر ہم سیلاب کے ہاتھوں کیا نالہ و فریاد کریں اور جب ہماری زندگی ہی ایک وبال ہے تو پھر موت سے ہم کیا ڈریں۔ اپنی انتہائی نامرادی اور بد نصیبی کو باغ اور درخت کے استعارے میں بیان کیا ہے۔


منطوم ترجمہ صبا اکبر آبادی

پڑتے ہیں مرے باغ پہ اولے پیہم
شاخوں کا کروں رنج کہ پتّوں کا اَلم
میں خانہ خراب ہوں تو آئے سیلاب
جب زیست وبال ہو تو کیا موت کا غم

۔
 
Top