انتخاب فارسی کلامِ غالب مع منظوم تراجم - تبصرے

بہت عمدہ قتیل غالب۔

دیکھ لو میاں اگر تمہارا ہنر ہمیں بھا گیا تو بہت سے کانپ سونپ دیں گے تمہیں پھر نہ کہنا کہ یہ خط تو صرف دکھانے کے لیے تھے۔ :lol:
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب قتیل صاحب۔ بہت شکریہ کہ آپ نے چچا کے فارسی کلام سے روشناس کرایا۔ ان کی فارسی شاعری سے کچھ تعارف حالی کی “ یادگار غالب“ میں ہوا ہے مگر ۔۔۔۔۔۔

“ہل من مزید“؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
بہت عمدہ قتیل غالب۔

دیکھ لو میاں اگر تمہارا ہنر ہمیں بھا گیا تو بہت سے کانپ سونپ دیں گے تمہیں پھر نہ کہنا کہ یہ خط تو صرف دکھانے کے لیے تھے۔ :lol:

بہت شکریہ علوی صاحب۔ نا چیز اپنی پوری کوشش کرے گا کہ یہ کام آپ کو پسند آ جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جیہ نے کہا:
بہت خوب قتیل صاحب۔ بہت شکریہ کہ آپ نے چچا کے فارسی کلام سے روشناس کرایا۔ ان کی فارسی شاعری سے کچھ تعارف حالی کی “ یادگار غالب“ میں ہوا ہے مگر ۔۔۔۔۔۔

“ہل من مزید“؟؟؟

بہت شکریہ آپ کا، آپ نے مرشدی کو چچا کے لقب سے یاد فرمایا بہت خوب، لیکن اس نا چیز کو تو اس فورم پہ پہلے دن ہی انکے بھانجے کا خطاب مل گیا تھا۔

کل رات ایک پوری غزل ٹائپ کرلی تھی کہ بجلی نے جھٹکا لگا دیا، انشااللہ آج پوسٹ کردوں ‌گا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت خوب جاری رکھیے

غالب کی غزل کا جو اردو ترجمہ افتخار عدنی نے کیا ہے وہ بہت خوب ہے
اول یہ کہ انہوں نے بحر وہی استعمال کی ہے جو غالب کی ہے
دوم یہ کہ نہایت معمولی ردو بدل کے ساتھ غالب جیسے مشکل پسند شاعر کے فارسی اشعار کو اس قدر خوبی اور سادگی سے اردو کے قابلب میں ڈھالا گیا ہے کہ ترجمہ کم اور تخلیق زیادہ لگتا ہے

صوفی تبسم کا ترجمہ غالب کا ابلاغ کماحقہ نہیں کر پا رہا یہ تو غلام علی کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے

فارسی غزل کے مقطع کے دوسرے مصرع میں شاید آپ سے ٹائپنگ کے دوران کوئی سہو ہوگیا ہے
وزن بگڑ گیا ہے اور مفہوم بھی پورا ادا نہیں ہو رہا

آپ نے مصرع اس طرح لکھا ہے

"چو ما حلقہء رندانِ خاکسار بیا"

اس وقت یہ غزل میرے سامنے تو نہیں لیکن مصرع کے وزن اور مفہوم کے اعتبار سے
اس مصرع میں
"چو ما" کے بعد "بہ حلقہء" ہونا چاہیے
اور اسطرح یہ مصرع یوں ہو جائے گا
چو ما بہ حلقہء رندانِ خاکسار بیا
یعنی
"ہماری طرح خاکسار رندوں کے حلقہ میں آجا"
رباعیات کا ترجمہ بھی خوب ہے

میں نے غالب کی صرف ایک فارسی غزل کا اپنے علاقہ کی مقامی بولی میں منظوم ترجمہ کیا ہوا ہے کسی وقت میں ارادہ کیا تھا کہ غالب کی کچھ غزلیات کا ترجمہ کر ڈالوں لیکن غالب جیسے عظیم اور مشکل پسند شاعر کا ترجمہ کرنے کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی صرورت ہے اس کے فقدان کی بنا پر یہ کام ایک ایک غزل پر موقوف ہوا
اگلی فرصت میں اگر آپ نے اجازت دی تو وہ غزل بمع ترجمہ کے پیش کردونگا
:)
 

محمد وارث

لائبریرین
شاکرالقادری نے کہا:
بہت خوب جاری رکھیے

غالب کی غزل کا جو اردو ترجمہ افتخار عدنی نے کیا ہے وہ بہت خوب ہے
اول یہ کہ انہوں نے بحر وہی استعمال کی ہے جو غالب کی ہے
دوم یہ کہ نہایت معمولی ردو بدل کے ساتھ غالب جیسے مشکل پسند شاعر کے فارسی اشعار کو اس قدر خوبی اور سادگی سے اردو کے قابلب میں ڈھالا گیا ہے کہ ترجمہ کم اور تخلیق زیادہ لگتا ہے

صوفی تبسم کا ترجمہ غالب کا ابلاغ کماحقہ نہیں کر پا رہا یہ تو غلام علی کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے

فارسی غزل کے مقطع کے دوسرے مصرع میں شاید آپ سے ٹائپنگ کے دوران کوئی سہو ہوگیا ہے
وزن بگڑ گیا ہے اور مفہوم بھی پورا ادا نہیں ہو رہا

آپ نے مصرع اس طرح لکھا ہے

"چو ما حلقہء رندانِ خاکسار بیا"

اس وقت یہ غزل میرے سامنے تو نہیں لیکن مصرع کے وزن اور مفہوم کے اعتبار سے
اس مصرع میں
"چو ما" کے بعد "بہ حلقہء" ہونا چاہیے
اور اسطرح یہ مصرع یوں ہو جائے گا
چو ما بہ حلقہء رندانِ خاکسار بیا
یعنی
"ہماری طرح خاکسار رندوں کے حلقہ میں آجا"
رباعیات کا ترجمہ بھی خوب ہے

میں نے غالب کی صرف ایک فارسی غزل کا اپنے علاقہ کی مقامی بولی میں منظوم ترجمہ کیا ہوا ہے کسی وقت میں ارادہ کیا تھا کہ غالب کی کچھ غزلیات کا ترجمہ کر ڈالوں لیکن غالب جیسے عظیم اور مشکل پسند شاعر کا ترجمہ کرنے کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی صرورت ہے اس کے فقدان کی بنا پر یہ کام ایک ایک غزل پر موقوف ہوا
اگلی فرصت میں اگر آپ نے اجازت دی تو وہ غزل بمع ترجمہ کے پیش کردونگا
:)

بہت شکریہ جناب قبلہ محترم قادری صاحب۔

آپ نے بالکل صحیح کہا، ٹائپنگ کی غلطی ہوگئی مقطے میں، کیا حسن اتفاق ہے، کہ غالب کی اپنے الفاظ میں "مقطع میں آ پڑی تھی سخن گسترانہ بات"۔ آپ کی ژرف نگاہی کیلیے فدوی ممنون ہے۔ تصیح کردوں گا۔

جہاں تک صوفی صاحب کی بات ہے، تو ابھی میں نے ایک اور غزل پوسٹ کی ہے، اس میں ذرا صوفی صاحب کا کمال دیکیھے گا۔ عدنی صاحب کے ساتھ ساتھ صوفی صاحب کا ترجمہ بھی غالب کی بحر یعنی رمل مثمن محذوف میں ہی ہے۔ اور جہاں تک ترجموں کا تعلق ہے اسیر عابد مرحوم نے دیوانِ غالب اردو کا کیا خوب منظوم پنجابی ترجمہ کر رکھا ہے۔ غالب مشکل پسند ضرور تھے لیکن بحور کے ساتھ آپ نے زیادہ تجربات نہیں کیے، جیسے کہ میر نے کیے تھے، غالب کے ہاں متداول بحور ہی ملتی ہیں ، اور اردو دیوان میں تو کل ملا کے یہی کوئی انیس بحریں ہیں، شاید اسلیے غالب کا ترجمہ غالب کی بحروں میں کرنا مشکل نہ ہو۔ ویسے مجھے ذاتی طور پر، رالف رسل کا ترجمہ بھی پسند آیا ہے۔

حضور ہم تو طفلِ مکتب ہیں فارسی، عربی کا ایک لفظ بھی باقاعدہ نہیں پڑا، بس خود ہی ہاتھ پاؤں مارے ہیں، ہم آپ کے احسان مند ہونگے اگر آپ اپنے ترجمے سے ہمیں نوازیں گے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اس غزل میں واقعی صوفی تبسم کمال فن کا معترف بنا رہے ہیں
بہت خوب
آپ نے بڑا مفید سلسلہ شروع کیا ہے
اسطرح غالب کے منظوم تراجم یکجا ہو جائیں گے
فارسی کے معاملہ میں ہمارا حال بھی کچھ مختلف نہیں خود آموزی اور خود افروزی ہی زاد راہ ہے
شعر
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحبِ خانہ امّا میہماں نامیدمش

میں "صاحب خانہ" کو بغیر اضافت کے ہونا چاہیے کیونکہ اضافت سے مصرع غیر متوازن ہو جاتا ہے
بغیر اضافت کے ترکیب جائز ہے
اقبال کے ہاں بھی ایسی تراکیب ملتی ہیں مثلا
"صاحب جنوں"

"نامیدمش"
نامیدن مصدر ہے یعنی "نام دینا" نامیدم + ش
کی ضمیر متصل کے ساتھ اسکا معنی ہوگا
"میں نے اسے نام دیا"

صوفی تبسم نے اسے
"کہنا پڑا"
اور عدنی نے
"کہتا تھا میں"
کیا ہے

صوفی تبسم کے ترجمہ میں اس کو
"میں نے کہا"
پڑھ کر دیکھیے
خاکم بدہن میں کوئی اصلاح نہیں تجویز کر رہا بس میرے وجدان نے اسے یوں محسوس کیا تو لکھ دیا ورنہ دونوں تراجم بہت بے تکلف سادہ اور متن کے بہت قریب ہیں
:)
بہرحال
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب قبلہ، صاحبِ خانہ والی بات آپ کی بالکل بجا ہے۔ حضور ہم تو سارا دن دوسروں کیلیے پیسے گنتے ہیں اور رات کی ان گھڑیوں میں دلِ بیمار کی جلدی جلدی خبر لیتے ہیں لہذا اگر کوئی سہو ہو جائے تو امید ہے کہ معاف فرمایں گے۔

جہاں تک میری محدود معلومات ہیں، عدنی صاحب بھی کسی سلسلہء طریقت سے بیعت پیں، صوفی صاحب کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن بہرحال نام کے ساتھ صوفی موجود ہے۔ لفظی ترجمہ نامیدمش کا آپ نے بجا کہا، اور یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے کہ صوفی تبسم جیسے استاذالاساتذہ سے یہ بات مخفی ہو۔

جہاں تک میری محدود عقل میں بات آئی ہے، وجودی صوفیہ جبر کے بھی قائل ہیں، اور شاید اسی لیے صوفی تبسم نے "کہنا پڑا" استعمال کیا ہے۔ تبسم صاحب شاید غالب اور اس غزل کی روح تک پہنچنا چاہ رہے ہونگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

آپکی پسندیدگی کیلیے بہت شکریہ۔
 

جیہ

لائبریرین
ماشاء اللہ وارث! مجھے اپنی کم مائگی کا احساس ہورہا ہے۔ غالب پر آپ کا مطالعہ قابل قدر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ جیہ آپ کا۔

بس جو کتابیں کبھی یونہی اٹھا لیں تھیں انکا صحیح استعمال اب اس فورم پر ہو رہا ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
جاری رکھیں اسے ہمیں مستفید کراتے رہیں۔

دعا ہے

اِس خداوندِ بندہ پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو
شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالب پہ مہرباں رکھیو!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم محمد وارث صاحب، لائبریری میں خوش آمدید!

آپ سے ایک سوال ہے کیا آپ پروف ریڈنگ بھی ساتھ کر رہے ہیں ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
سیدہ شگفتہ نے کہا:
السلام علیکم محمد وارث صاحب، لائبریری میں خوش آمدید!

آپ سے ایک سوال ہے کیا آپ پروف ریڈنگ بھی ساتھ کر رہے ہیں ؟

وعلیکم السلام سیدہ شگفتہ صاحبہ، شکریہ آپ کا۔

میں در اصل نوٹ پیڈ میں لکھتا ہوں، اور بعد میں پوسٹ کرتا ہوں، کوشش میری پوری ہوتی ہے کہ کوئی ٹائپنگ کی غلطی نہ رہ جائے۔

آپ نے اگر کوئی غلطی نوٹ کی ہے تو برائے مہربانی بتا دیں تاکہ درستگی کی جا سکے، شکریہ۔
 

جیہ

لائبریرین
ہاں! وارث صاحب ساتھ میں پروف بھی اگر ہوتی رہے تو ہم ایک ای بک بنا سکتے ہیں آپ کے کام کا۔


شگفتہ میں ٹھیک سمجھی ناں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
جیہ نے کہا:
جاری رکھیں اسے ہمیں مستفید کراتے رہیں۔

دعا ہے

اِس خداوندِ بندہ پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو
شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالب پہ مہرباں رکھیو!

بہت خوب، کیا لا جواب مثنوی ہے اور کیا آم یاد آگئے آپکے ان اشعار سے۔ اب دیکھتا ہوں فریج میں ۔۔۔۔
 

جیہ

لائبریرین
“آموں“ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں
اِ ک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

(روح غالب سے ایک بار معذرت) :lol:
 

محمد وارث

لائبریرین
بھئی یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ غالب کو بادہء پرتگالی پسند تھا، لیکن آم کونسے پسند تھے یہ نہ جان سکے، یا پھر قبلہ کو ہر قسم کے آم شاید پسند تھے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بالکل جویریہ، آپ ٹھیک سمجھیں !


محمد وارث صاحب، یہ سوال دراصل پروف ریڈنگ کے حوالے سے کیا تھا۔ میں اگر غلطی پر نہیں تو آپ ایک سے زائد مرتبہ پروف ریڈ کرنے کے بعد یہاں پوسٹ کر رہے ہیں متن۔
 

جیہ

لائبریرین
محمد وارث نے کہا:
بھئی یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ غالب کو بادہء پرتگالی پسند تھا، لیکن آم کونسے پسند تھے یہ نہ جان سکے، یا پھر قبلہ کو ہر قسم کے آم شاید پسند تھے۔

بھول گیے کیا ؟ غالب ہی نے اس سوال کے جواب میں کہا تھا، کہ آم کیسے ہونے چاہیے؟“

“آم زیادہ ہوں اور میٹھے ہوں“
 
Top