انتخاب اختر رضا سلیمی

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اختر رضا سلیمی نوجوان نسل کے شاعر ہیں بہت کم عرصے میں مقبولیت حاصل کی ان کی تو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ انٹر نیٹ پر اختر رضا سلیمی صاحب کا کلام بہت کم نظر آتا ہے یہاں آپ اختر رضا سلیمی صاحب کا مختصر کلام پڑھ سکیں گے شکریہ

خرم ابن شبیر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
غزل

تمہارے ہونے کا شاہد سراغ پانے لگے
کنارِ چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے

پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے

مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے

وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری دربدَری بھی کسی ٹھکانے لگے

میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانےلگے

دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے

ادھر سے گزرے جو اختر کبھی بہار کے ساتھ
تو پھول ہم کو تری داستاں سنانے لگے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ خواب دریچہ تو کسی پر نہیں کھلتا
کھل جائے جو بالفرض تو منظر نہیں کھلتا

ہر آنکھ نہیں ہوتی سزاوارِ تماشا
ہر آئنے پر حسن کا جوہر نہیں کھلتا

محسوس تو کرتا ہوں ترے لمس کو لیکن
کیا چیز ہے اس لمس کے اندر، نہیں کھلتا

کھل جاتے ہیں اَسرارِ ازل بھی مرے آگے
وہ شخص مگر ذرہ برابر نہیں کھلتا

بس ایک ہیولیٰ سا نظر آتا ہے سب کو
میں کون ہوں میں کیا ہوں کسی پر نہیں کھلتا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ حسنِ سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر

میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچاکرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر

یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر

میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضا
کہیں گراں نہ گزرتا ہو سبز ڈالی پر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے

اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے

آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے

خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے

ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اسی کے نام سے ہر صبح ابتدا کی ہے
وہ جس نے ظلمتوں سے روشنی رہا کی ہے

بہار آتی ہے جیسے اسی کے کھلنے سے
ہر ایک پھول میں خوشبو تری قبا کی ہے

جسے نسیم سحر آج لوگ کہتے ہیں
وہ گرم لُو تھی ترے لمس نے صبا کی ہے

میں جھیلتا ہوں شب و روز آگہی کے عذاب
نگاہِ عقدہ کشا کیوں مجھے عطا کی ہے

فقیہ و شاہ کو خاطر میں ہم نہیں لائے
جو بات کی ہے رضا ہم نے برملا کی ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں
لگی ہے عمر تجھے دیوتا بنانے میں

مجھی پہ قہر جو ٹوٹا تو اس میں حیرت کیا
مرا بھی ہاتھ تھا اُس کو خدا بنانے میں

زمانہ میرے خدوخال ڈھونڈنے نکلا
میں صرف ہو چکا جب آئنہ بنانے میں

مرادِ منزلِ مقصود ہے کسی کا نصیب
کٹی ہے عمر مری راستہ بنانے میں

پلک جھپکنے میں مسمار ہو گیا صاحب
وہ شہر جس کو زمانہ لگا بنانے میں

بہت کھٹن تھا رضا اپنا سامنا کرنا
کئی زمانے لگے حوصلہ بنانے میں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں عکس اس کا ، شعر میں ایسا اتارا تھا
سب نے مرے کلام کا صدقہ اتارا تھا

پھر اس کے بعد گرگیا سونے کا بھاؤ بھی
اِک شام اس نے کان سے جھمکا اتارا تھا

کل رات فیض یاب ہواتھا گناہ سے
کل رات پارسائی کا دھبہ اتارا تھا

خود کو سرِ وصال کیا تھا سپردِ ہجر
اک روز یوں بھی قرضِ تمنا اتارا تھا

کس راہ پر لے آئی ہے یہ مفلسی مجھے
میں نے ابھی سکول کا بستہ اتارا تھا

برسوں پرانا زخم کوئی یاد آ گیا
کل شب ہوا نے شاخ سے پتہ اتارا تھا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خبر نہیں تھی کسی کو کہاں کہاں کوئی ہے
ہر اک طرف سے صدا آرہی تھی یاں کوئی ہے

یہیں کہیں پہ کوئی شہر بس رہا تھا ابھی
تلاش کیجئے اس کا اگر نشاں کوئی ہے

جوارِ قریہ گریہ سے آرہی تھی صدا
مجھے یہاں سے نکالے اگر یہاں کوئی ہے

تلاش کر رہے ہیں قبر سر چھپانے کو
ترے جہان میں ہم سا بھی بے اماں کوئی ہے

کوئی تو ہے جو دِنوں کو گھما رہا ہے رضا
پسِ گماں ہی سہی پر پسِ جہاں کوئی ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہمارے جسم اگر روشنی میں ڈھل جائیں
تصوراتِ زمان و مکاں بدل جائیں

ہمارے بیچ ہمیں ڈھونڈتے پھریں یہ لوگ
ہم اپنے آپ سے آگے کہیں نکل جائیں

یہ کیا بعید کسی آنے والے لمحےمیں
ہمارے لفظ بھی تصویر میں بدل جائیں

ہم آئے روز نیا خواب دیکھتے ہیں مگر
یہ لوگ وہ نہیں جو خواب سے بہل جائیں

یہ لوگ اسیر ہیں کچھ ایسی خواہشوں کے رضا
جو تتلیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جائیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فراتِ چشم میں اک آگ سی لگاتا ہوا
نکل رہا ہے کوئی اشک مسکراتا ہوا

پس گمان کئی واہمے جھپٹتے ہوئے
سرِ یقین کوئی خواب لہلہاتا ہوا

گزر رہا ہوں کسی جنتِ جمال سے میں
گناہ کرتا ہوا نیکیاں کماتاہوا

بہ سُوئے دشتِ گماں دے رہا ہے اذنِ سفر
کنارِ خواب ستارہ سا جھلملاتا ہوا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا

زمیں کی خاک تو کب کی اڑا چکے ہیں ہم
ہماری زد میں ہے اب چرخِ نیلگوں اس کا

تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا

اب اس سے قطع تعلق میں بہتری ہے مری
میں اپنا رہ نہیں سکتا اگر رہوں اس کا

دلِ تباہ کی دھڑکن بتا رہی ہے رضا
یہیں کہیں پہ ہے وہ شہر پُر سکوں اس کا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے
وہاں نہیں ہیں جہاں پر مکان ہوتے تھے

سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے

وہ جس جگہ سے ابھی اٹھ رہا ہے گرد و غبار
کبھی ہمارے وہاں پر مکان ہوتے تھے

ہر ایک سمت نظر آرہے ہیں ڈھیر پہ ڈھیر
ہر ایک سمت مکاں پر مکان ہوتے تھے

ٹھہر سکے نہ رضا موجِ تند کے آگے
وہ جن کے آبِ رواں پر مکان ہوتے تھے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اندیشے مجھے نگل رہے ہیں
کیوں درد ہی پھول پھل رہے ہیں

دیکھو مری آنکھ بجھ رہی ہے
دیکھو مرے خواب جل رہے ہیں

اک آگ ہماری منتظر ہے
اک آگ سے ہم نکل رہے ہیں

جسموں سے نکل رہے ہیں سائے
اور روشنی کو نگل رہے ہیں

یہ بات بھی لکھ لے اے مورخ
ملبے سے قلم نکل رہے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک بزرگ دوست کے لئے

مجھے معلوم تھا
میری باتیں تمھیں سن رسیدہ لگیں گی
مجھ پہ اکثر یہ الزام لگتا رہا ہے
کہ میں کم سنی میں، بڑی عمر کی گفتگو کر رہا ہوں
اور کئی لوگ تو اس کو شہرت کمانے پہ محمول کرتے رہے ہیں
انہیں کیا خبر؟
میں نے ان چند برسوں میں کتنا سفر طے کیا ہے
عمر کو۔ ۔ ۔ ۔ روز و شب اور مہ و سال سے
ماپنے کا طریقہ غلط ہے
میں تو ایک ایک دن میں
ہزاروں برس بھی جیا ہوں
مگر تم نہیں جانتے
جان سکتے بھی کیسے
کیا کبھی تم کسی پیکرِ خواب کی جستجو میں
زمان و مکاں کی حدوں سے ورا بھی گئے ہو؟
جہاں ایک اک دن
یہاں کے ہزاروں برس سے بڑا ہے
کبھی تم زمان و مکاں کی حدوں سے نکل کے تو دیکھو
تمہیں میری باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوں گی
 
Top