انتخابِ محب عارفی

نوید صادق

محفلین
تہہ کشائی کا محب کس کو دماغ
کر کے تہہ اپنے کنائے رکھئے
اب یہی فن ہے کہ پایابی کو
گدلے پانی سے چھپائے رکھئے
 

نوید صادق

محفلین
جب آئینے کا مکیں تھا دُھن تھی حقیقت تک راہ پاؤں کیسے
سو آئینے پر وہ پردہ آیا کہ اپنے گھر میں اب آؤں کیسے
 

نوید صادق

محفلین
گرد ہیں کاروانِ گذشتہ کی ہم
کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں

دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت
لے چلو دوستو! سائے سائے ہمیں

اک نوا تھی فضاؤں میں گم ہو گئی
ہم یہیں تھے مگر کون پائے ہمیں
 

نوید صادق

محفلین
شعلہ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں
اک تمنا ہوں کہ مٹ جاؤں اگر بر آؤں

ایک نغمہ ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں
ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں

ایک عالم ہوں جسے بس کوئی محسوس کرے
کوئی معنی ہوں کہ الفاظ کے اندر آؤں

نقش بر آب سہی، کچھ بھی سہی، ہوں تو سہی
ریت کی قید میں کیا خود سے بچھڑ کر آؤں

میری پہچان ہو شاید انہی ذروں کی چمک
اپنے گھر میں اسی زینے سے اتر کر آؤں

کھل گئی مجھ سے حیا ان کی پر اے عمرِ وفا
دل یہ کہتا ہے کہ اب اور کسی پر آؤں

اپنے دامن میں کہو، آگ سنبھالوں کیسے
ہاتھ اپنے تو محب خیر سے اکثر آؤں
 

نوید صادق

محفلین
خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے آخر کوئی شے ہو گی
خود میں نظر آتا ہے شیشے کو جو بال اپنا

پردے نے بُنا مجھ کو، پردے نے سنا مجھ کو
نغمہ ہوں سمجھتا ہوں اتنا ہی کمال اپنا

اے ہم نظرو ! ٹھہرو ، کیا ہو جو برآمد ہو
ہر گوشہ خلوت سے اک نقشِ خیال اپنا
 

نوید صادق

محفلین
ہے ہے وہ شیریں جھلکیاں کب تک مگر سر پھوڑئے
دیوار پھر دیوار ہے حالانکہ شیشے کی تو ہے

ہوتی کہاں تک مسترد بے باکئ دستِ صبا
کھلنے لگا بندِ حیا آخر شگوفہ ہی تو ہے

اب صلح کر بھی لیں محب تنہائیوں سے وحشتیں
وہ میرا سایہ ہی سہی اک شے نظر آئی تو ہے
 

نوید صادق

محفلین
دم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں
لہرا اُٹھے ہیں دریا، صحرا ٹھہر گئے ہیں

تھا جانے کب سے جاری رقصِ نگارِ ہستی
ہم آئے ہیں تو سارے اعضاء ٹھہر گئے ہیں

ماحول کہ سایہ ہمراہ چل رہا ہے
اے شوق چل رہے ہیں ہم یا ٹھہر گئے ہیں

یہ کائنات ساری، تصنیف ہے ہماری
اک مسئلہ محب ہم جس کا ٹھہر گئے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
چن دیا ہے ہوسِ دید کو پس منظر میں
جب کہیں شکل کوئی مجھ کو نظر آئی ہے

میں چلا ہوں تو مرے ساتھ چلی ہے منزل
اور قدموں سے لگی راہ گزر آئی ہے

ہیں محب خاک کے ذرے جو چمک اٹھتے ہیں
کیا کہیں کوئی کرن خود بھی نظر آئی ہے
 

نوید صادق

محفلین
خرد یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے
یہ دھوپ سایہ دیوار کی تلاش میں ہے

طلوعِ نغمہ سہی، نغمہ ور کے مدِ نظر
جنونِ زخمہ فقط تار کی تلاش میں ہے

چھلک چلا ہے قبائے حیا سے اس کا شباب
شراب جراتِ مے خوار کی تلاش میں ہے
 

نوید صادق

محفلین
سمجھتے ہیں، کسی ساحل نشیں کی شوخی ہے
جو رازِ مستئ موجِ رواں سمجھتے ہیں

جو ان کی بزمِ نوازش میں ہم کو مل نہ سکا
اس ایک لمحے کو ہم جاوداں سمجھتے ہیں

محب ملی ہے مجھے عمر بھر کی سعی کے بعد
وہ مرگ لوگ جسے ناگہاں سمجھتے ہیں
 
Top