انتخابِ اختر عثمان

نوید صادق

محفلین
ہمارا گھر تو پہلے ہی وہاں گروی پڑا تھا
ہمارے ذہن بھی اس کے حوالے ہو گئے ہیں
یہاں اک عمر دن پہ رات کا سایہ رہا ہے
یہاں کے لوگ اس دوران کالے ہو گئے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
کشیدِ جاں سے غزل پر اثر بناتا ہوں
میں اپنا وار بہت کارگر بناتا ہوں

ترا خمیر اٹھاتا ہوں اپنی ملبے سے
تجھے بناؤں تو پھر ٹوٹ کر بناتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا

بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری
ہمیں اجداد کہتے تھے ، تمہارا کیا بنے

نئے سالار سے زنداں میں بچے پوچھتے ہیں
ہمارے شہر کے فاتح، ہمارا کیا بنے گا
 

نوید صادق

محفلین
تری دنیا پہ کھلتا کیوں نہیں ہوں
یقینا" میں ابھی موزوں نہیں ہوں

ترے آنے کا دھڑکا سا ہے، ورنہ
میں ہر دستک پہ ہی کہدوں، نہیں ہوں
 

نوید صادق

محفلین
کڑی کڑی سے ملے ایک سلسلہ ہو جائے
یہ دل ملے جو نظر سے تو کیا سے کیا ہو جائے

میں شش جہت میں سراپا سرائے حیرت ہوں
مجھے جو غور سے دیکھے وہ آئنہ ہو جائے

مرے جہان کی رونق تری نظر تک ہے
تری نگاہ بدلتے ہی جانے کیا ہو جائے

غضب کا زنگ ہے یک سطحِ شیشہء دل پر
عجب نہیں یہ کوئی دن میں آئنہ ہو جائے
 

نوید صادق

محفلین
ابھی سے لوگ طنز آور ہیں تجھ پر
ابھی تو میں بھی جیتا جاگتا ہوں

شبِ ہجراں! تجھے معلوم کب ہے
میں تیرے ساتھ کب کا جاگتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
جب دور ہیں تجھ سے تو یہ افتاد بھی آئے
طوفانِ شبِ دشت میں تو یاد بھی آئے

اک بو کہ بغل گیر ہوئی دشت میں ہم سے
جیسے یہاں پہلے کبھی اجداد بھی آئے
 

نوید صادق

محفلین
جہان دیکھنا پڑتا ہے اک نگہ میں مجھے
میں شش جہات کو، خود کو، تجھے بھی دیکھتا ہوں

مجھے عزیز ہے معیار میرا اپنا بھی
میں تیرا حسن تری آنکھ سے بھی دیکھتا ہوں

عطا کیا ہے مجھے تو نے دیکھنے کا مذاق
سنور کے بیٹھ کوئی دم، تجھے بھی دیکھتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
کچھ ہم ترے معیار پہ پورے نہیں اترے
کچھ تو بھی کہ مشہور تھا جیسا، نہیں نکلا

پوشاک رفو کار کے کیا کہنے ہیں اختر
اک تار گریبان میں اپنا نہیں نکلا
 

نوید صادق

محفلین
تری نظر کے طلسمِ غزل سے گزرا ہوں
میں ٹوٹ پھوٹ میں کیسے عمل سے گزرا ہوں

مرا کمال کہ لُو کو صبا کیا میں نے
مرا نصیب کہ ہر بار تھل سے گزرا ہوں
 
Top