انا الحق (ارمغان حجاز)۔ فارسی کلام اقبال بمہ ترجمہ و تشریح

توصیف امین

محفلین
علامہ صاحب نے ارمغان حجاز میں ایک مکمل باب ‫اناالحق کے موضوع پر تحریر کیا ہے اور اس نقطے کی بہت خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے۔ میں اس پورے باب کو فارسی بمع اردو ترجمہ اور جہاں تک ممکن ہوا تشریح کے ساتھ پیش کرنیکی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر مجھ سے کسی بھی قسم کی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اسکے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس محفل کے اہل علم حضرات کے تعاون سے اس میں مزید بہتری آئے گی
--------------------------
اناالحق

اناالحق جز مقام کبریا نیست
سزای او چلیپا ہست یا نیست
اگر فردی بگوید سر زنش بہ
اگر قومے بگوید ناروا نیست

--------------------------​
ترجمہ
اناالحق مقام کبریا کے سوا کچھ نہیں
۔ (لیکن اگر کوئی شخص اناالحق کہے تو)سزا کے طور پراسے سولی پہ چڑھانا چاہیے یا نہیں؟
اگر ایک فرد ایسا کہے تو وہ سزا کا مستحق ہے
لیکن اگر ایک قوم کہے تو اس میں کچھ برائی نہیں
-----------------------------
شرح
دراصل انالحق کہنا صرف ذات باری تعالٰی کو زیب دیتا ہے لیکن پھر بھی بندگان خدا میں بعض سالک اور ملحدین کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا ہے۔ سالک کے حصے میں دار آئی اور ملحد کو براہ راست عذاب الٰہی نے آ لیا۔ اس کو دیکھتے ہوئے علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کون اور کس صورت میں انالحق کہنے کا حقدار ہو سکتا ہے۔
سو دوسرے شعر میں آپ کہتے ہیں کہ ایک فرد جب بھی انالحق کہے گا اس پر شریعت لاگو ہو جائے گی لیکن ایک پوری قوم ایسا کہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن یہ بات دلیل کی محتاج ہے اور یہ دلائل علامہ صاحب نے اس کے بعد کے اشعار میں دیے ہیں


به آن ملت اناالحق سازگار است
که از خونش نم هر شاخسار است
نهان اندر جلال او جمالی
که او را نه سپهر آئینه دار است
------------------
ترجمہ
اس قوم یا ملت کے لیے اناالحق کہنا سازگار ہے
کہ جو اپنے خون سے (چمن کی)ہر شاخ کو سیراب کرتی ہے
اس کے جلال میں حسن کا جمال پوشیدہ ہوتا ہے
ایسی ملت کیلیے نو آسمان ایسے ہیں جیسے آئینے ،جو انہی کا عکس دکھاتے ہیں/یعنی ایسی ملت کی جولانگاہ نو آسمان یعنی ساری کائینات ہے
-----------------
شرح
انسان خدائے بزرگ و برتر کا نائب ہے اور اسے صفات خداوندی سے نوازا گیا ہے۔ اگر وہ بھر پور انداز میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بنی نوع انسان کی فلاح کیلیے بروئے کار لائے تو یقینا ایسے افراد سے جو ملت جنم لے گی وہ خود کو اناالحق کہہ سکتی ہے۔ایسی ملت کا وجود انسانیت کیلیے رحمت ہی رحمت ہے۔
اسکے جلال میں بھی جمال پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر ایسی ملت کسی کو سزا بھی دیتی ہے تو وہ معاشرے اور اس شخص کی اپنی ذات کے بھی فائدے کیلیے ہوتا ہے۔
ایسی قوم دنیا میں تمام قوموں کی امامت کرتی ہے۔

------------------
میان امتان والا مقام است
که آن امت دو گیتی را امام است
نیاساید ز کار آفرینش
که خواب و خستگی بر وی حرام است

---------------------​
ترجمہ
ایسی امت تمام امتوں میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے
کہ وہ امت دونوں جہانوں کی امامت اور قیادت کرتی ہے
وہ ہر وقت تخلیقی عمل میں مصروف رہتی ہے
اور اس قوم پر نیند اور تھکان حرام ہوتے ہیں
--------------------
شرح
آخری شعر میں علامہ صاحب نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ کا حوالہ دیا ہے۔جس میں ذات باری تعالی کی خصوصیت بیان ہے کہ
"نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند"
اب اگر کوئی قوم اپنے آپ کو اس طرح خصوصیت کا حامل بنا لیتی ہے اور اپنے آپ کو ہر وقت عمل میں مصروف رکھتی ہے تو وہ قوم اناالحق کا دعویٰ کر سکتی ہے۔
ایسی امت تمام امتوں میں اعلی ترین حیثیت کی حامل ہو گی اور تمام قوموں کی امامت کی مستحق بھی ٹھہرے گی۔

-----------------
وجودش شعله از سوز درون است
چو خس او را جهان چند و چون است
کند شرح اناالحق همت او
پی هر ”کن“ که میگوید ”یکون“ است

-----------------​
ترجمہ
ایسی امت کے سوز درون کی وجہ سے اسکا وجود شعلے کی طرح ہوتا ہے۔
اور اِس جہان کی تمام اشیا اُس قوم کیلیے خس و خاشاک کی مانند ہیں
ایسی قوم ہی اناالحق کی شرح کی ہمت رکھتی ہے
اور جب وہ قوم ” کن”یعنی ہو جا کہتی ہے تو اسکا نتیجہ”یکون”“ یعنی ہو جانے کی صورت میں ہوتا ہے
--------------------
وضاحت
چوتھے مصرعے میں علامہ صاحب نے قرآن کریم میں سے سورۃ یسین کی آیت ۸۲ کا حوالہ دیا ہے اور خدائے ذوالجلال کی خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے
اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا وہ شئے ہوجاتی ہے

اگر کوئی قوم اپنے آپ کو اس مقام پر فائز کر لے کہ وہ جب کسی کام کا ارادہ کر لے اور اپنی تمام تر قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے۔اور اس کے سامنے کچھ بھی ناممکن نہ ہو ایسی قوم کو اناالحق کا دعویٰ کرنے کا حق ہے۔
علامہ صاحب کہتے ہیں ایسی قوم اپنے اندر کی تڑپ اور لگن کی وجہ سے ایک شعلے کی مانند ہوتی ہے جو دوسروں کیلیے مشعل راہ ہوتی ہے
-----------------
پرد در وسعت گردون یگانه
نگاه او به شاخ آشیانه
مه و انجم گرفتار کمندش
بدست اوست تقدیر زمانه
-----------------​
ترجمہ
آسمان کی بلندیوں میں اسکی پرواز بے مثال ہوتی ہے
لیکن اس کی نگاہ آشیانے کی شاخ پر ہوتی ہے
ایسی قوم چاند ستاروں پر کمندیں ڈالتی ہے
اور زمانے کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے
------------------
وضاحت
علامہ صاحب زندہ قوم کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ اس قوم کا مقام بے حد بلند ہوتا ہے اور وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے لیکن وہ فضاوں میں گم نہیں ہوتی اور اپنا تشخص برقرار رکھتی ہے اور اپنی اصل کو کبھی نہیں بھولتی۔ وہ کہیں بھی پہنچ جائے اس کی نگاہ اسکے نشیمن کی طرف ہوتی ہے۔
ایسی قوم کے سامنے چاند تارے کوئی حیثت نہیں رکھتے اور زمانے کی تقدیر اس کے تابع ہوتی ہے۔
اگر ہم پچھلے تمام اشعار کا جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا
کہ انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اور خدائی صفات کا حامل ہے ۔جب وہ اپنے مقام کو پہچان لیتا ہے تو انسانیت کے اعلی ترین درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔اور جب ایک قوم ایسے افراد پر مشتمل ہو تو وہ خدائی صفات کی حامل ہو گی اور ایسی قوم اناالحق کہنے کا دعوی کر سکتی ہے۔
------------------
به باغان عندلیبی خوش صفیری
به راغان جره بازی زود گیری
امیر او به سلطانی فقیری
فقیر او به درویشی امیری

------------------​
ترجمہ
وہ باغوں میں خوش آواز بلبل ہے
اور پہاڑوں میں زور آور شاہین ہے
ایسی قوم کے امیر بادشاہی میں فقیر ہوتے ہیں
اور فقیر درویشی میں امیر ہوتے ہیں
---------
بجام نو کهن می از سبو ریز
فروغ خویش را بر کاخ و کو ریز
اگر خواهی ثمر از شاخ منصور
به دل ”لا غالب الا الله“ فرو ریز​
------------​
ترجمہ
اپنے نئے جام میں پرانی شراب انڈیل لو
اور اپنی روشنی سے محل اور کوچے منور کر لو
اگر شاخ منصور سے پھل حاصل کرنا چاہتے ہو
تو اپنے دل پر ”لا غالب الااللہ“ نقش کر لو
-----------
وضاحت
یہ اشعار حاصل عنوان ہیں۔علامہ اپنی قوم کو بتاتے ہیں کہ تیری منزل کے حصول کا راز تیرے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے میں ہی مضمر ہے۔نئے جام میں پرانی شراب کا مطلب یہی ہے کہ دور جدید میں قرون اولٰی کے مسلمانوں کی لگن اور جذبہ عشق ہی تمہاری کامیابی کا ضامن ہے۔ یہ مضمون ساقی نامہ میں بھی ملتا ہے
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
میری خاک جگنو بنا کر اڑا

اور اگر اناالحق کا مفہوم سمجھنا ہے تو خدا کے غالب ہونے کا کامل یقین رکھ ۔ انالحق یہ ہے کہ خدا کی طرح خود کو اس زمانے سے بے نیاز کر لے۔ اور کسی دوسرے کو نہ تو خود سے طاقتور سمجھ اور نہ ہی کسی دوسرے کا زیرنگین ہو اور خود پہ کامل یقین رکھ ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
کام لیا جائے گا تجھ سے دنیا کی امامت کا
 
Top