امیر خسرو پر دہلی میں سمینار

F@rzana

محفلین
امیر خسرو نے ایک شعر میں کہا تھا:
دانی کہ ھستم در جہاں من خسرو شیریں زباں
گر نایی از بہر دلم بہر زبان منِ بیا

یعنی کہ ’میں دنیا بھر میں زبان کا بادشاہ ہوں اگر تو میرے دل کے لیے نہیں آتا زبان کے لیے تو آ‘ اور شاید یہی سبب تھا کہ 25 تا 29 مارچ 2006 کے دوران دنیا بھر سےامیر خسرو کے چاہنے والے سکالرز جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی سمینار بعنوان ’امیر خسرو: ہندوستان افغانستان، وسط ایشیا اور ایران کے مضبوط ثقافتی رشتوں کا مصور‘ میں شریک ہوئے۔

اس موقع سے جہاں امیرخسرو کی رنگارنگ شخصیت پر عالمانہ گفتگو کا ایک طویل سلسلہ رہا وہیں مشاعرہ، غزل سرائی اور قوالی کی محفلیں بھی منعقد ہو‏ئیں۔

جامعہ کے انصاری آڈیٹوریم میں اس پانچ روزہ سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا کہ امیرخسروکی شخصیت ہمارے لیے مشعل راہ ہے کیونکہ وہ پہلے شخص تھے جن کے نزدیک انسانیت سب سے بڑی چیز تھی اور وہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتے تھے۔ وہ قومی یکجہتی کے علم بردار تھے۔

’خسرو ایسی پریت کر جیسے ہندو جوئے‘
گلوکارہ انیتا سنگھوی نےامیر خسرو کی غزل اورقوالی کو آواز دے کر سماں باندھا،
مشہور سا‏‏ئنس داں اور جامعہ کے سابق وائس چانسلر سید ظہور قاسم نے کہا کہ میں تو سا‏ئنس کا آدمی ہوں اور امیرخسرو کی شخصیت پر اظہار خیال کرنے کا اہل نہیں ہوں تاہم ان کی زبان دانی کے بارے میں پڑھ کر میں حیران ہوں کہ آخر اس آدمی کا ذہن کیسا ہوگا جو کئی زبانوں کا ماہر اور موجد تھا اور جس میں فنون لطیفہ کے اسرارورموز اس قدر پنہاں تھے۔ وہ ایسے ماہر لسانیات تھے جن سے کئی زبانوں کی ارتقاء کو منسوب کیا جاتا ہے۔

بھارت میں ایران کے سفیر اسفندیار مشائی نے اس موقع سے امیرخسرو کے حوالے سے بھارت اور ایران کے تہذیبی اور ثقافتی رشتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امیرخسرو ایسے واحد ہندوستانی شاعر ہیں جو ایران میں آج تک پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور وہ آج تک ہندوستانی تہذیب وثقافت کے سفیر ہیں۔

اسفندیار مشائی نے اس موقع سےجامعہ ملیہ میں ایرانی‏ سٹڈیز کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر پروفسر مشیرالحسن نے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس بارے میں تمام تفصیلات آئندہ بیس دنوں میں طے کر لی جائیں گی۔

آثار مفاخر فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر اور فارسی زبان کے ماہر اور شاعر ڈاکٹر مہدی محقق نے امیر خسرو کے کلام، موسیقی اور ان کے تصوف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امیر خسرو کی پہنچ دنیا میں کئی اعتبار سے ہے اور شہر دہلی ایسی ہی شخصیات کی بدولت عالم میں انتخاب ہے۔
جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر پروفسر مشیرالحسن نے بھی سیمینار سے خطاب کیا

اسی موقع سے امیر خسرو کی غزل اورقوالی کو گلوکارہ انیتا سنگھوی نے آواز دے کر وہ سماں باندھا کہ:

’من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید باازیں من دیگرم تو دیگری‘

کا ماحول بیدار ہو گیا۔ اور جب انھوں نے امیر خسرو کا کلام:

’نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہ ہرسو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم‘

یا

’چھاپ تلک سب چھینی مو سے نیناں ملائے کے‘

اور

’بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
جھٹ پٹ بھر لاؤں جمنا سے مٹکی‘

گائی تو ہر کس وناکس پر ایک وجد کا عالم طاری ہو گیا۔

امیر خسرو سیمنار میں ان کی شخصیت اور تصانیف کو جن عنوانوں کے تحت بیان کیا گیا وہ بھی ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے میں عاجز نظر آئے۔

ایران، افغانستان، ترکمانستان، پاکستان، تاجکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ اور جرمنی سے تشریف لانے والے اسکالرز نے امیر خسرو کی شخصیت پر اپنے مقالےکئی زبانوں میں پڑھے اور سامعین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ:

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
 
Top