امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے ---------------- ظفر اقبال

مغزل

محفلین
غزل

امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے
یہ اک درخت کہ دیوار کے برابر ہے

زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے

تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے

کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے

ہو اس کے بعد زمانوں کا کیا حساب کتاب
جب ایک لمحہ لگاتار کے برابر ہے

میں اس لیے بھی زباں کھولتا نہیں کہ ابھی
سکوت ہی یہاں اظہار کے برابر ہے

ہوں اتنا بے سروساماں کہ اس دفعہ مجھ کو
یہ برگِ سبز بھی اشجار کے برابر ہے

مجھے پسند ہے جی جان سے یہ عیبِ سخن
جہاں جہاں میرے معیار کے برابر ہے

وہی پسینہ پسینہ ہوں رات دن کہ ظفر
ہوا یہاں میری رفتار کے برابر ہے


ظفر اقبال
 

نوید صادق

محفلین
سبحان اللہ ! کیا غزل ہے۔


زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے

تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے

میں اس لیے بھی زباں کھولتا نہیں کہ ابھی
سکوت ہی یہاں اظہار کے برابر ہے

مجھے پسند ہے جی جان سے یہ عیبِ سخن
جہاں جہاں میرے معیار کے برابر ہے
 
تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے

کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے

بہت خوب مغل بھائی جی کیا غزل ہے ۔
شکریہ جناب ادہر شئیر کرنے کیلیے۔
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ نوید بھائی ، وارث صاحب اور پیاسا صحرا صاحب۔
بہت بہت شکریہ کرم نوازی کیلیے۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ نظامی صاحب۔
اور ہاں وہ آپ کا سوال کیا ہوا ؟؟
لڑی بنا کر سلسلہ کا آغاز کیجے ۔
والسلام
 
Top