امریکی اسلحہ ، طالبان اور پاکستان

یوسف-2

محفلین
طالبان پاکستانی ہوں یا افغانی، انہیں اسلحہ اور سرمایہ من جانب امریکہ ہی ملتا ہے، مگر کیسے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔
تاریخ کے ورق کو ذرا پلٹ کر دیکھئے۔ سویت یونین کی فوجوں کے افغانستان پر چڑھائی کے بعد مقامی افغانیوں نے از خود جہاد کا علم بلند کیا تھا۔ کئی برس تک وہ تن تنہا سویت فوجوں سے نہتے لڑتے رہے۔ ان ابتدائی چند سالوں میں انہوں نے پتنگوں کی مدد سے بھی سویت جہاز گرائے۔ لیکن ان ابتدائی برسوں کے جہاد کی روئیداد عام نہیں ہوئی۔ پھر دوسرے مرحلے میں پاکستان داخل ہوا کیونکہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ سویت یونین افغانستان تک ”محدود“ نہیں رہے گا اور یہ لازما" پاکستان کا رخ کرے گا۔ لہذا سویت یونین کو افغانستان کی سرزمین میں ہی الجھائے رکھنا ہوگا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے پاکستان آرمی کی ہدایت پر افغانی مجاہدین کو پاکستانی سرزمین کو ”بیس کیمپ“ بنانے کی اجازات دی۔ یوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھٹو حکومت کے دور میں شروع ہوا۔ ان ”مہاجرین“ میں زخمی مجاہدین، مجاہدین کے اہل خانہ، پاکستان سے سپلائی لے جانے والے مجاہدین وغیرہ شامل تھے۔ ان افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ افغان ماجہدین کے کمانڈرز بھی پاکستان آنے لگے تاکہ پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسران سے صلاح مشورہ اور جنگی حکمت عملی سیکھ سکیں۔ پاکستان کے دینی سیاسی جماعتوں نے بھی افغان جہاد میں بھر پور شمولیت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان دینی جماعتوں نے پاکستان کے طول و عرض اور بیروں ملک سے نہ صرف جہاد فنڈ جمع کیا بلکہ اپنے کارکنان کو بھی مجاہدین کے روپ میں افغانستان بھیجا۔ ان جد و جہد جماعت اسلامی سر فہرست تھی۔

جب افغانستان جہاد، پاکستانی عوام اور افواج کی پشت پناہی سے زور پکڑنے لگا تو امریکہ بہادر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا۔ اور سی آئی اے نے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور دیگر وسائل کی پیشکش کی۔ افغان مجاہدین نے اپنے پاکستانی سویلین اور فورسز کے سرپرستوں سے صلاح مشورہ کیا۔ اس دوران یہ نکتہ بھی بحث کا موضوع رہا کہ کیا کسی کافر ملک (سویت یونین) سے جہاد کرتے ہوئے دوسرے کافر ملک (امریکہ) سے اسلحہ بارود وغیرہ لینا شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ اور جب علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد نے اسے جائز قرار دیا تب افغان مجاہدین نے امریکی اسلحہ کے لئے گرین سگنل دیا۔ اس وقت تک پاکستان مین جنرل ضیاء الحق شہید کی حکومت آچکی تھی۔ گویا افغان جہاد کو بالواسطہ سپورٹ کرنے والی پاک آرمی ہی پاک حکومت بن چکی تھی۔ چنانچہ اب پاک آرمی، پاک حکومت اوردینی جماعتوں سے منسلک پاکستانی عوام یہ سب کے سب افغان جہاد میں شامل ہوگئے اور امریکہ نے پاکستان کی معرفت افغان مجاہدین کو اسلحہ بارود کی سپلائی شروع کردی۔ (جاری)
 

یوسف-2

محفلین
امریکہ دنیا میں اسلحہ بنانے اور فروخت (ایکسپورٹ) کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا انحصار اسلحہ اور گولہ بارود کی دنی کی مارکیٹ میں کھپت پر ہے۔ اسلحہ کی کھپت اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب دنیا کے مختلف خطوں میں خانہ جنگی اور لڑائی ہو رہی ہو۔ امریکہ اور دنیا بھر میں موجود امریکن لابی اس بات کا خاص ”خیال“ رکھتے ہیں کہ خانہ جنگی کی یہ آگ کبھی بجھنے نہ پائے۔ پاکستان اپنے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید کے دور سے ہی ”امریکن لابی“ میں شامل رہا ہے۔ یوں امریکن سی آئی اے کو ابتدا ہی سے پاکستان میں کھُل کھیلنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ” اپنے مقامی ایجنٹس“ کو اتنی ترقی دلائی کہ یہ حکومتی ایوانوں میں بھی شامل ہوگئے۔ پاکستان کی سول اور آرمڈ فورسز کی بیروکریسی مین اس نے اپنے پنجے جما لئے۔ پاکستان مین موجود اقلیتی شہریون سے زیادہ گروہ منافقین اور قادیانیوں نے سی آئی اے کے مفادات کی نگرانی اپنی بقا سمجھ کر کی۔ اور امریکیوں نے بھی اس خدمت کے بدلہ مین انہیں اور ان کے اہل خانہ کو امریکہ و یورپ میں سیٹل ہونے میں مدد دی۔ جب بھٹو کے اقتدار کی کشتی ڈوب رہی تھی تو اس نے برسر عام یہ کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ میری کابینہ کے کم از کم پانچ ارکان سی آئی اے ایجنٹ ہیں۔ (وہ خود کیا تھا، یہ ایک الگ بحث ہے) چنانچہ افغانستان جہاد میں پاکستان کے سرکاری طور پر ”شامل“ ہونے اور امریکہ بہادر کی طرف سے اسے ”اسپانسر“ کرنے کے ”فیصلہ“ کو پاکستان کی سول و آرمڈ بیوروکریسی (جو ضیاء کے فوجی عہد میں ، تو من شدی، من تو شدم ہوگئے تھے) نے دل سے خوش آمدید کہا۔ اس دور میں دنیا بھر کی طرح پاکستانی عوام و دانشور بھی لیفٹ اور رائیٹ کے کانون میں بٹے ہوئے تھے۔ پاکستان کا لیفٹسٹ اقلیتی طبقہ یعنی عوام ، دانشور اور لکھاری سویت یونین کے حامی تھے جبکہ بھاری اکثریت رائیٹسٹ گروپ تھا جس میں آرمی، بیروکریسی اور حکومتی ارکان پیش پیش تھے۔دینی جماعتیں اور اس کے کارکنان بر بنائے مخالفین سویت یونین ازخود رائیٹسٹ ”بن گئے“۔

امریکہ کے لئے ”افغان جہاد“ کو ”کیش“ کرانے اور سویت یونین کو دوسری سپر پاور کی حیثیت سے ختم کرنے کا نادر موقع ملا۔ بہت سے قارئین کو یہ جان کر ”حیرت“ ہوگی کہ امریکہ نے، خود امریکہ اور یورپ میں ’افغان وار“ کو ”افغان جہاد“ کے طور پر متعارف کرایا۔ مسلم عرب ریاستوں میں تیل کی دریافت کے بعد تیل کی آمدن سے مالا مال بہت سے عرب مسلمان امریکہ اور یورپ میں عیش و آرام اور کاروبار کر رہے تھے۔ امریکہ ( کے غیر سرکاری اداروں نے) نے ان دولت مند عرب مسلمانوں کی افرادی اور ڈالری قوت کو ”افغان جہاد“ میں استعمال کرنے کی غرض سے لاکھوں کی تعداد میں قرآن مجید کے نسخے شائع کئے اور ان عرب مالدار مسلمانوں کو قرآن کی مدد سے ”بتلایا“ کہ روس ایک دہریہ یعنی اللہ کو نہ ماننے والا ملک ہے، جس نے اللہ کو ماننے والے ایک مسلمان ملک افغانستان پر حملہ کیا ہے۔ لہٰذا ”ہمارا“ (اللہ کے ماننے والوں کا) یہ فرض ہے کہ ہم اس ”جہاد“ میں عملا" شامل ہوں۔ امریکہ کی یہ ”چال“ کامیاب ہوئی اور اسامہ بن لادن سمیت ہزاروں عرب مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار پاکستان اور افغانستان کا رکھ کرنے لگے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی دولت بھی لے کر آئے اور اپنی دولت سے امریکی ہتھیاروں کی پاکستان و افغانستان ”سپلائی“ کا بھی اہتمام کیا۔ اسی عہد میں سی آئی اے کا ایک ایسا ”ونگ“ تشکیل پایا جن کا کام ہی ان ”عرب مجاہدین“ کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ اسامہ اور ان کے جملہ ساتھی اسی عہد میں سی آئی اے کے اسی ونگ کے بہت قریب ہوگئے۔ اور سویت یونین کے ٹوٹنے، افغانستان سے رشین آرمی کے نکلنے تک یہ روابط مظبوط تر ہوتے گئے۔ (جاری ہے)
 

یوسف-2

محفلین
سویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن گیا۔ امریکی معیشت کو استحکام ملا اور اس کی ”دلچسپی“ افغانستان سے ختم ہوگئی۔ پاکستان مین ضیاء الحق کی شہادت ( ؟ ؟ ؟ ) کے بعد یکے بعد دیگرے بینظیر اور نواز شریف کی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ افگانستان میں بالآخر طالبان کی ”اسلامی حکومت“ بنی اور پاکستان مین نواز شریف حکومت نے امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو ایٹمی بلاک میں ”شامل“ کروا دیا۔ یہ دو ایسے اہم ”موڑ“ تھے، جس کے دنیا پر ”دور رس نتائج“ کا ادراک امریکہ اور اس کے ”اتحادی‘“ ممالک نے تو بخوبی کر لیا، مگر حیف کے پاکستان کے علمائے حق اور دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین نے طالبان حکومت کو ”ایک مسلک کی حکومت“ اور نواز شریف حکومت کو ”غیر اسلامی حکومت“ قرار دے کر ان کی طرف ”پُشت“ ہی کئے رکھی۔ اور یہ ”سمجھنے“ کی کوئی کوشش نہیں کی کفار اب طالبان والے ”اسلامی افغانستان“ اور نواز شریف والے ”ایٹمی پاکستان“ کو برداشت نہیں نہیں کرے گا۔ اور یہی ہوا۔ امریکن سنڈیوں کے پہلے حملہ کے نتیجہ میں نواز حکومت کا خاتمہ کرکے ایک قادیانی جنرل کو پاکستان کا چیف ایگزیکیوٹیو ’بنا‘ دیا گیا۔ نواز مخالف دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین اور علمائے کرام نے ”سکھ“ کا سانس لیا کہ نواز شریف کی ”غیر اسلامی حکومت“ اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ انہین یہ ”نظر“ ہی نہیں آیا کہ نواز حکومت کے خاتمہ کے نتیجہ میں ایک ”قادیانی حکومت“ پاکستان آرمی کی ’سپورٹ‘ کے ساتھ برسر اقتدار آگئی ہے جو عملا" سی آئی اے کی ’اے ٹیم‘ کے طور پر کام کرے گی اور پاکستان کی دینی قوتوں، اداروں اور شناخت کا کاتمہ کرکے ہی دم لے گی۔ ”ان“ سے بہتر تو ایک ٹین ایجر مریم نواز نکلیں جس نے مشرف کے بر سر اقتدار آتے ہی یہ بیان داغ دیا کہ پاکستان مین آرمی انقلاب نہیں بلکہ ’قادیانی انقلاب‘ آیا ہے۔ اور مشرف نے اپنے عہد اقتدار میں سی آئی کی ’اے ٹیم‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے افغانستان کی طالبان حکومت کے خاتمہ میں (اپنا نہیں، بلکہ پاکستان کے) تن من دھن کی بازی لگادی۔ افغان و عرب مجاہدین اور ان کے پاکستانی خیر خواہوں پر پر پاکستان کی سر زمین تنگ کردی۔ انہین پکڑ پکڑ کر امریکہ کے ہاتھوں بیچتے اور دالر جمع کرتے رہے اور پاکستانی دینی و سیاسی جماعتون کے قائدین اور علمائے کرام منہ دیکھتے رہے اور یہ سوچ کرعملا" خاموش رہے کہ مشرف کون سا ہمیں پکڑ رہا ہے، دوسرے باطل مسالک کے لوگوں کو پکڑ رہا ہے تو پکڑنے دو۔ وہ لال مسجد کی اینٹ سے ایںٹ بجا رہا ہے تو بجانے دو، ہمارا مرکز اور ہمارے دارلعلوم و مساجد تو ’محفوظ‘ ہیں نا۔ مشرف نے بھی ”دینی جماعتوں‘ کی یہ کمزوری پکڑ لی۔ مشرف کے عہد میں جتنے علمائے کرام قتل کئے گئے، شاید اتنے علمائے کرام پاکستان مین کبھی قتل نہ ہوئے ہوں۔ مگر ’جس گروپ کے علماء‘ قتل ہوئے، صرف اسی گروپ کے وابستگان نے انفرادی احتجاج کیا۔ کبھی سب نے مل کر اجتماعی احتجاج نہیں کیا۔ چنانچہ علما کے قتل کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ ”سیاسی مفادات“ کی خاطر تو مختلف مسالک کے علماء یکجا ہوتے رہے ہیں، لیکن کبھی دینی ایشو پر اکٹھے نہین ہوئے۔ اور آج بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان کے جملہ مسالک کے وابستگان یکجا ہوکر نیٹو سپلائی کا کھلنے والا راستہ روک سکیں۔ آج یا کل یہ راستہ کھل کر رہے گا اور ہم حسب سابق زبانی جمع خرچ کرتے رہین گے۔ حالانکہ پاکستانی عوام نے چیف جسٹس کی بحالی کی مہم میں حصہ لے کر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر کوئی ہمین مثبت کام کے لئے کال کرے تو ہم حاظر ہیں۔
معذرت کہ اس دھاگہ کے اصل موضوع کا پس منظر اتنا طویل ہوگیا کہ ابھی تک ”اصل بات“ پر گفتگو نہیں ہو سکی۔ لیکن یہ پس منظر بہت ضروری تھا۔ انہیں جانے بغیر اس قسم کی خبروں سے کوئی ”آگہی“ حاصل نہیں ہوتی اور ہم طالبان کو امریکی اسلحہ ملنے کی ”تصدیق“ پر مغلیں بجانے لگتے ہین۔ (جاری)
 

یوسف-2

محفلین
جب ”ہماری“ نا عاقبت اندیشی کے سبب پاکستان پر سی آئی اے کی راست حکومت بواسطہ مشرف قائم ہوگئی تو امریکہ نے ”مشرف کی آرمی اور حکومت“ کو ”وار اگینسٹ ٹیرارزم“ کے نام پر ”وار اگینسٹ پاک و افغان مجاہدین“ کا حکم دیا تو پاک آرمی نے اپنے ہی ملک پر اپنی ہی آرمی سے بمباری کروائی۔ ہزاروں آرمی مین کو ہلاک کروایا (پتہ نہین، یہ شہید ہوئے یا ہلاک)، قبائلی علاقوم میں مقیم عرب مجاہدین اور ان کے سرپرستوں کا قتل عام کروایا۔ امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے دئے تاکہ یہیں سے امریکی درون حملے پاکستانی علاقون پر کئے جاسکیں۔ افغانستان مین در آنے والی اتحادی افواج کے نان نفقہ کی سپلائی کا کام پاک آرمی اور پاک حکومت نے اپنے ہاتھوں مین لے لیا تاکہ کافر اتحادی افواج افغانی مسلمان، طالبان اور عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہیں۔ کراچی سے افغانستان تک بلا روک ٹوک اسلحہ و بارود سپلائی ہوتا رہا اور اس طویل راستے میں یہ کنٹینرز ”مِس“ ہو ہو کر قوم پرست، امریکہ و برطانیہ نواز پارٹیوں کو دل کھول کر اسلحہ سپلائی کرتے رہے۔

ایک طرف امریکہ اور سی آئے اے نے مشرف کی حکومت اور آرمی کی بھر پور ”مدد“ کی کہ اسلامی جہادی قوتوں بالخصوص طالبان، القاعدہ وغیرہ پر ضرب لگاتے رہیں ۔۔۔ لیکن امریکہ کو بخوبی معلوم تھا کہ اس ”یکطرفہ کاروائی“ سے افغانی و عرب مجاہدین کی کمر تو ٹوٹ جائے گی، مگر اس سے ”ایٹمی طاقت کے حامل پاک آرمی اور پاکستان“ کا کوئی کاص نقصان نہیں ہوگا۔ لہذا سی آئی اے نے اس نام نہاد ”وار اگینسٹ ٹیریرزم“ کو دوطرفہ طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف پاک آرمی اور حکومت کو عملا" ”کرائے کی آرمی“ بنا کر اسے مجبور کیا کہ ملک کے طول و عرض میں جہاں کہیں سی آئی اے اشارہ کرے، حملہ کردے۔ دوسری طرف سویت دور مین افغان جہاد کے موقع پر سی آئی کے تشکیل کردہ ”افغان جہاد ونگ“ کو بھی فعال کر دیا۔ اس ونگ کے طالبان اور عرب مجاہدین سے روابط تو پہلے سے ہی تھے۔ ان روابط کو مچید نچلی سطح پر قائم کر کے انہین یہ یقین دلایا گیا کہ پاک آرمی اور پاکستانی حکومت ان مجاہدین کی ”مخالف“ ہے۔ مجاہدین کی ”اسلام پسندی“ کو ایکسپلائیٹ کرتے ہوئے انہیں بتلایا اور دکھلایا گیا کہ یہ حکومت سرارسر ”غیر اسلامی“ ہے۔ لہذا آپ مجاہدین کو حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔ ”ہم“ حسب سابق آپ کی مدد کرتے رہیں گے۔ گو کہ ”ہماری حکومتیں“ بھی آ مے خلاف ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ لہٰذاہم آپ کی پس پردہ رہ کر دامے درمے قدمے اسلحے مدد کرتے رہین گے۔ یہ افغان مجاہدین تو عشروں سے ان سی آئی اے ایجنٹس سے ان ڈائریکٹلی یا ڈائریکٹلی اسلحہ لیتے ہی رہے تھے، لہٰذا وہ اب بھی لیتے رہے تاکہ نیٹو افواج سے افغانستان میں اور پاک حکومت اور پاک آرمی سے پاکستان میں جہاد کرتے رہیں، اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں۔
سی آئی نے اپنے دیگر ”سیکو لر ایجنٹس“ سے پاکستان کے طول وعرض میں دھماکے اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرواتے اور اسے طالبان کے نام ”رجسٹر“ کرواتے رہے۔ طالبان اور القاعدہ کے لیڈرز چونکہ ”انڈر گراؤنڈ “ ہیں، لہذا ان کی طرف سے خبریں شائع کروانا کوئی مشکل کام نہین جبکہ میڈیا پہلے سے ہی اینٹی اسلام اور اینٹی طالبان ہے۔ پاکستان مین بیشتر ”طالبان دھماکوں“ کا ”اعتراف“ اے ایف پی نامی فرانسیسی اور دیگر غیر ملکی نیوزا یجنسی کی طرف سے کروایا جاتا رہا۔ ابتدا میں کچھ کبروں کی طالبان ذرائع نے تردید بھی کی۔ لیکن بعد مین یا تو ان کی تردید کو میڈیا مین آنے سے روکا جانے لگا یا پھر طالبان کی ہی اندر گراؤنڈ قیادت نے سوچا ہو کہ چلو جانے دو۔ اس طرح ہمارا ہی ”نام“ ہوتا ہے کہ ہم ہنوز اس قابل ہین کہ حملے کرسکیں۔
یوں سی آئی اے پاکستان میں دوطرفہ جنگ لڑ رہی ہے۔ جس مین اس کا اسلحہ پاکستانی سیکیوریٹی فورسز بھی استعمال کر رہے ہیں اور ان کے خلاف بھی طالبان اور ان کے ہمدردوں کے ہاتھوں امریکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے۔ درمیان میں قوم پرست تنظیمیں اور مافیا بھی سرگرم عمل ہے کہ انہین بھی اس خانہ جنگی کی آگ کو بھڑکائے رکھنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے اور کفار کی مکارانہ چالوں کو سمجھنے کی توفیق دے آمین (ختم شد)
نوٹ: یہ ایک ”جوابی مضمون“ ہے جو اس ”الزام“ کے جواب میں لکھا گیا کہ پاکستانی طالبان امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں
 
مثلاََ
۔ مجاہدین کی ”اسلام پسندی“ کو ایکسپلائیٹ کرتے ہوئے انہیں بتلایا اور دکھلایا گیا کہ یہ حکومت سرارسر ”غیر اسلامی“ ہے۔ لہذا آپ مجاہدین کو حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔
افغان و عرب مجاہدین اور ان کے پاکستانی خیر خواہوں پر پر پاکستان کی سر زمین تنگ کردی۔ انہین پکڑ پکڑ کر امریکہ کے ہاتھوں بیچتے اور دالر جمع کرتے رہے اور پاکستانی دینی و سیاسی جماعتون کے قائدین اور علمائے کرام منہ دیکھتے رہے اور یہ سوچ کرعملا" خاموش رہے کہ مشرف کون سا ہمیں پکڑ رہا ہے، دوسرے باطل مسالک کے لوگوں کو پکڑ رہا ہے تو پکڑنے دو۔ وہ لال مسجد کی اینٹ سے ایںٹ بجا رہا ہے تو بجانے دو، ہمارا مرکز اور ہمارے دارلعلوم و مساجد تو ’محفوظ‘ ہیں نا۔ مشرف نے بھی ”دینی جماعتوں‘ کی یہ کمزوری پکڑ لی۔ مشرف کے عہد میں جتنے علمائے کرام قتل کئے گئے، شاید اتنے علمائے کرام پاکستان مین کبھی قتل نہ ہوئے ہوں۔ مگر ’جس گروپ کے علماء‘ قتل ہوئے، صرف اسی گروپ کے وابستگان نے انفرادی احتجاج کیا۔ کبھی سب نے مل کر اجتماعی احتجاج نہیں کیا۔ چنانچہ علما کے قتل کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ ”سیاسی مفادات“ کی خاطر تو مختلف مسالک کے علماء یکجا ہوتے رہے ہیں، لیکن کبھی دینی ایشو پر اکٹھے نہین ہوئے۔ اور آج بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں
پرویز مشرف عہد میں علماء کے قتل کے نسبت تناسب کا تو مجھے پتہ نہیں باقی جس فرقے کی عبادت گاہ یا جلوس یا مرکز یا دربار پر حملہ ہوا صرف وہی چیخے چلائے باقیوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
محترم کالم نگار سے میری گزارش ہے کہ اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین بھی سمجھا دیں اور اس جنگ یا جہاد کا منطقی انجام ، حیثیت پر بھی روشنی ڈال دیں ۔ کچھ وقت لے کر ایک لمبا تفصیلی کالم لکھیں ۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں مدعا سمجھنے اور سمجھانے میں دشواری ہو سکتی ہے
 
یعنی انہوں نے ہمیں استعمال کیا
ہمارے اپنے ہی خلاف
ہم استعمال بھی ہوئے
پامال بھی ہوئے
ہمیں انہوں نے رقم اور اسلحہ دیا
ہمارے اندر غلط فہمیوں کو گھسیڑا
ہمارے ٹکڑے کیے
ہم رسوا ہوئے
وہ ہمارا تماشا دیکھا کیے
ہم باہم لڑتے رہے
چاروں طرف سے ڈرتے رہے
نادانی میں مگن رہے
کٹتے رہے گرتے رہے
ایک دوسرے کو مارتے رہے
پھر وہ مکار بھیس بدل کر آئے
ہمیں نئے انداز سکھائے
ہم سمجھ نہ پائے
دو طرفوں سے امداد لی
اپنوں کے قتل کی غیروں سے
ہم نے داد لی
پھر ہم نے بیچی
انہیں کو اپنی دھرتی
اور وہ ہوئے یہاں آ کر بھرتی
جب اڑائی انہوں نے ہماری خاک
ہمارے تھے ارادے ناپاک
الزام اپنوں پہ لگایا ہم نے
اپنا گھر خود جلایا ہم نے
اپنا گھر خود جلایا ہم نے
 

ساجد

محفلین
تاریخ کے ورق کو ذرا پلٹ کر دیکھئے۔ سویت یونین کی فوجوں کے افغانستان پر چڑھائی کے بعد مقامی افغانیوں نے از خود جہاد کا علم بلند کیا تھا۔ کئی برس تک وہ تن تنہا سویت فوجوں سے نہتے لڑتے رہے۔ ان ابتدائی چند سالوں میں انہوں نے پتنگوں کی مدد سے بھی سویت جہاز گرائے۔ لیکن ان ابتدائی برسوں کے جہاد کی روئیداد عام نہیں ہوئی۔ پھر دوسرے مرحلے میں پاکستان داخل ہوا کیونکہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ سویت یونین افغانستان تک ”محدود“ نہیں رہے گا اور یہ لازما" پاکستان کا رخ کرے گا۔ لہذا سویت یونین کو افغانستان کی سرزمین میں ہی الجھائے رکھنا ہوگا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے پاکستان آرمی کی ہدایت پر افغانی مجاہدین کو پاکستانی سرزمین کو ”بیس کیمپ“ بنانے کی اجازات دی۔ یوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھٹو حکومت کے دور میں شروع ہوا۔ ان ”مہاجرین“ میں زخمی مجاہدین، مجاہدین کے اہل خانہ، پاکستان سے سپلائی لے جانے والے مجاہدین وغیرہ شامل تھے۔
4اپریل 1979 یعنی سوویت جارحیت سے 8 ماہ اور 20 دن پہلے ہی بھٹو مرحوم کو پھانسی بھی دی جا چکی تھی۔
24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج داخل ہوتی ہیں افغانستان میں ؛ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت 5 جولائی 1977 کو ختم کی جا چکی تھی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت سے قبل ہی بھٹو مرحوم عالمِ بالا میں تھے ۔
 
24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج داخل ہوتی ہیں افغانستان میں ؛ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت 5 جولائی 1977 کو ختم کی جا چکی تھی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت سے قبل ہی بھٹو مرحوم جیل میں تھے۔
ساجد صاحب سے گزارش ہے کہ تحقیقی کام آپ بھی تفصیلی رقم فرمائیں۔ مجھے آج تک اس ساری جنگ کی معلومات میسر نہیں ہو سکیں۔ اور سمجھ بھی نہیں آ سکی۔ جب لکھنا پلیز مجھے ذاتی طور پر ضرور مطلع فرمائیے گا۔
 

یوسف-2

محفلین
24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج داخل ہوتی ہیں افغانستان میں ؛ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت 5 جولائی 1977 کو ختم کی جا چکی تھی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت سے قبل ہی بھٹو مرحوم جیل میں تھے۔
بجا فرمایا آپ نے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سویت فوجوں کے افغانستان میں ”باقاعدہ داخلے“ سے قبل افغانستان میں “روسی کٹھ پتلی حکومتیں“ موجود تھیں، جو روس کے تعاون سے نہ صرف یہ کہ افغان عوام بلکہ پاکستان کے خلاف بھی صف آراء تھیں ۔ افغان حکومت کے مخالفین بڑی تعداد میں پہلی مرتبہ ”افغان مہاجرین“ کی شکل میں پاکستان آنا شروع ہوئے تھے، جسے مبینہ طورپر بھٹو حکومتے کی حمایت حاصل تھی۔
لیکن یہ تو ”اوپر کے ٖقصے“ میں ایک ضمنی بات ہے، جو اگر ”غلط“ بھی ہو تو اس سے مراسلہ کے ”مین ٹاپک“ پر کوئی فرق نہیں پڑتا، یا پڑتا ہے ؟؟؟ یہ پہلے ہی واضح کردیا گیا ہے کہ یہ ایک ”جوابی تحریر“ ہے، کوئی باقاعدہ مضمون نہیں ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
ریکارڈ کی درستگی اور محترم ساجد بھائی کی اطلاع کے لئے:
”افغان جہاد اصل تو بھٹو دور میں شروع ہوا تھا۔ سردار داؤد اس وقت ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر افغانستان کا صدر بن بیٹھا اور سویت یونین کے ہاتھوں میں کھیلنے لگا۔ وہاں جامعات میں کمیونزم کی تعلیم دی جانے لگی تو اسلامی ذہن رکھنے والوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ اس کے سبب وہ ہجرت کرکے پاکستان میں آنے لگے۔ کچھ لوگوں نے حکومت پاکستان اور بھٹو صاحب سے رابطہ کیا، جب انہوں نے رابطہ کیا تو ( بھٹو حکومت کے) پاکستان نے ان کی اعانت شروع کردی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ احمد شاہ مسعود، شیخ جمیل الرحمٰن، ربانی، حکمت یار، پروفیسر سیاف وغیرہ بھٹو صاحب سے رابطہ کرکے کام شروع کر چکے تھے۔ یوں جہاد افغانستان کی بنیاد بھٹو صاحب کے دور میں پڑ چکی تھی۔“
(جماعت الدعوۃ کے مولانا امیر حمزہ کے انٹرویو سے اقتباس جو ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور کے مئی 2012 شمارہ میں شائع ہوا ہے۔ مولانا امیر حمزہ ایک عالم دین، ایک خطیب، ایک صحافی اور اہل قلم ہیں جن کی 25 کتب شائع ہوچکی ہیں۔)
 
Top