یوسف-2
محفلین
طالبان پاکستانی ہوں یا افغانی، انہیں اسلحہ اور سرمایہ من جانب امریکہ ہی ملتا ہے، مگر کیسے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔
تاریخ کے ورق کو ذرا پلٹ کر دیکھئے۔ سویت یونین کی فوجوں کے افغانستان پر چڑھائی کے بعد مقامی افغانیوں نے از خود جہاد کا علم بلند کیا تھا۔ کئی برس تک وہ تن تنہا سویت فوجوں سے نہتے لڑتے رہے۔ ان ابتدائی چند سالوں میں انہوں نے پتنگوں کی مدد سے بھی سویت جہاز گرائے۔ لیکن ان ابتدائی برسوں کے جہاد کی روئیداد عام نہیں ہوئی۔ پھر دوسرے مرحلے میں پاکستان داخل ہوا کیونکہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ سویت یونین افغانستان تک ”محدود“ نہیں رہے گا اور یہ لازما" پاکستان کا رخ کرے گا۔ لہذا سویت یونین کو افغانستان کی سرزمین میں ہی الجھائے رکھنا ہوگا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے پاکستان آرمی کی ہدایت پر افغانی مجاہدین کو پاکستانی سرزمین کو ”بیس کیمپ“ بنانے کی اجازات دی۔ یوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھٹو حکومت کے دور میں شروع ہوا۔ ان ”مہاجرین“ میں زخمی مجاہدین، مجاہدین کے اہل خانہ، پاکستان سے سپلائی لے جانے والے مجاہدین وغیرہ شامل تھے۔ ان افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ افغان ماجہدین کے کمانڈرز بھی پاکستان آنے لگے تاکہ پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسران سے صلاح مشورہ اور جنگی حکمت عملی سیکھ سکیں۔ پاکستان کے دینی سیاسی جماعتوں نے بھی افغان جہاد میں بھر پور شمولیت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان دینی جماعتوں نے پاکستان کے طول و عرض اور بیروں ملک سے نہ صرف جہاد فنڈ جمع کیا بلکہ اپنے کارکنان کو بھی مجاہدین کے روپ میں افغانستان بھیجا۔ ان جد و جہد جماعت اسلامی سر فہرست تھی۔
جب افغانستان جہاد، پاکستانی عوام اور افواج کی پشت پناہی سے زور پکڑنے لگا تو امریکہ بہادر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا۔ اور سی آئی اے نے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور دیگر وسائل کی پیشکش کی۔ افغان مجاہدین نے اپنے پاکستانی سویلین اور فورسز کے سرپرستوں سے صلاح مشورہ کیا۔ اس دوران یہ نکتہ بھی بحث کا موضوع رہا کہ کیا کسی کافر ملک (سویت یونین) سے جہاد کرتے ہوئے دوسرے کافر ملک (امریکہ) سے اسلحہ بارود وغیرہ لینا شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ اور جب علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد نے اسے جائز قرار دیا تب افغان مجاہدین نے امریکی اسلحہ کے لئے گرین سگنل دیا۔ اس وقت تک پاکستان مین جنرل ضیاء الحق شہید کی حکومت آچکی تھی۔ گویا افغان جہاد کو بالواسطہ سپورٹ کرنے والی پاک آرمی ہی پاک حکومت بن چکی تھی۔ چنانچہ اب پاک آرمی، پاک حکومت اوردینی جماعتوں سے منسلک پاکستانی عوام یہ سب کے سب افغان جہاد میں شامل ہوگئے اور امریکہ نے پاکستان کی معرفت افغان مجاہدین کو اسلحہ بارود کی سپلائی شروع کردی۔ (جاری)
تاریخ کے ورق کو ذرا پلٹ کر دیکھئے۔ سویت یونین کی فوجوں کے افغانستان پر چڑھائی کے بعد مقامی افغانیوں نے از خود جہاد کا علم بلند کیا تھا۔ کئی برس تک وہ تن تنہا سویت فوجوں سے نہتے لڑتے رہے۔ ان ابتدائی چند سالوں میں انہوں نے پتنگوں کی مدد سے بھی سویت جہاز گرائے۔ لیکن ان ابتدائی برسوں کے جہاد کی روئیداد عام نہیں ہوئی۔ پھر دوسرے مرحلے میں پاکستان داخل ہوا کیونکہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ سویت یونین افغانستان تک ”محدود“ نہیں رہے گا اور یہ لازما" پاکستان کا رخ کرے گا۔ لہذا سویت یونین کو افغانستان کی سرزمین میں ہی الجھائے رکھنا ہوگا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے پاکستان آرمی کی ہدایت پر افغانی مجاہدین کو پاکستانی سرزمین کو ”بیس کیمپ“ بنانے کی اجازات دی۔ یوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھٹو حکومت کے دور میں شروع ہوا۔ ان ”مہاجرین“ میں زخمی مجاہدین، مجاہدین کے اہل خانہ، پاکستان سے سپلائی لے جانے والے مجاہدین وغیرہ شامل تھے۔ ان افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ افغان ماجہدین کے کمانڈرز بھی پاکستان آنے لگے تاکہ پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسران سے صلاح مشورہ اور جنگی حکمت عملی سیکھ سکیں۔ پاکستان کے دینی سیاسی جماعتوں نے بھی افغان جہاد میں بھر پور شمولیت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان دینی جماعتوں نے پاکستان کے طول و عرض اور بیروں ملک سے نہ صرف جہاد فنڈ جمع کیا بلکہ اپنے کارکنان کو بھی مجاہدین کے روپ میں افغانستان بھیجا۔ ان جد و جہد جماعت اسلامی سر فہرست تھی۔
جب افغانستان جہاد، پاکستانی عوام اور افواج کی پشت پناہی سے زور پکڑنے لگا تو امریکہ بہادر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا۔ اور سی آئی اے نے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور دیگر وسائل کی پیشکش کی۔ افغان مجاہدین نے اپنے پاکستانی سویلین اور فورسز کے سرپرستوں سے صلاح مشورہ کیا۔ اس دوران یہ نکتہ بھی بحث کا موضوع رہا کہ کیا کسی کافر ملک (سویت یونین) سے جہاد کرتے ہوئے دوسرے کافر ملک (امریکہ) سے اسلحہ بارود وغیرہ لینا شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ اور جب علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد نے اسے جائز قرار دیا تب افغان مجاہدین نے امریکی اسلحہ کے لئے گرین سگنل دیا۔ اس وقت تک پاکستان مین جنرل ضیاء الحق شہید کی حکومت آچکی تھی۔ گویا افغان جہاد کو بالواسطہ سپورٹ کرنے والی پاک آرمی ہی پاک حکومت بن چکی تھی۔ چنانچہ اب پاک آرمی، پاک حکومت اوردینی جماعتوں سے منسلک پاکستانی عوام یہ سب کے سب افغان جہاد میں شامل ہوگئے اور امریکہ نے پاکستان کی معرفت افغان مجاہدین کو اسلحہ بارود کی سپلائی شروع کردی۔ (جاری)