امریکیوں کی ہرزہ سرائی۔ضرورت پڑی تو کارروائی سے گریز نہیں:گیٹس

mujeeb mansoor

محفلین
امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے پاکستانی سرزمین پر امریکی فوج کی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے فوجیوں کے تحفظ کے لیے جو بھی اقدامات اٹھانے پڑے وہ اٹھائے گا۔

افغانستان کے دورے کے بعد نیٹوممالک کے وزراء سے بات چیت کے لیے لندن میں موجود رابرٹ گیٹس نے سکیورٹی امور کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان شدت پسندوں سے خود نمٹے۔

دریں اثناء امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا رِچرڈ باؤچر نے کہا ہے کہ پاکستان کا استحکام امریکہ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس علاقے کو مستحکم بنانے کا کام پاکستانیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔‘
ادھر امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے، اس سوال پر کہ کیا پاکستان نے امریکہ کو اپنے علاقے میں فضائی کارروائی کی اجازت دی ہے، کہا: ’میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ ہم اپنے فوجیوں کے تحفظ کے لیے جو بھی کارروائی ضروری ہوئی کریں گے۔‘
سرحدی علاقوں میں بنیادی دلچسپی
وہاں سرحدی علاقوں میں ہماری بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ ہم سرحد پار سے اپنے فوجیوں پر ہونے والے حملوں کو روکیں۔ ان میں سے کچھ لوگ سرحد کے پار آ رہے ہیں۔ امریکیوں کو قتل کر رہے ہیں، دیگر فوجیوں کو مار رہے ہیں، ہماری اتحادی افواج کو مار ر ہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہمیں اس سے مشکل ہو رہی ہے۔

رابرٹ گیٹس
ان کا کہنا تھا کہ’وہاں سرحدی علاقوں میں ہماری بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ ہم سرحد پار سے اپنے فوجیوں پر ہونے والے حملوں کو روکیں۔ ان میں سے کچھ لوگ سرحد کے پار آ رہے ہیں۔ امریکیوں کو قتل کر رہے ہیں، دیگر فوجیوں کو مار رہے ہیں، ہماری اتحادی افواج کو مار ر ہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہمیں اس سے مشکل ہو رہی ہے۔‘

پاکستان میں حالیہ امریکی کارروائیوں پر ردعمل کے بارے میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا رِچرڈ باؤچر کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی عزم میں ’کمی بیشی‘ ہوتی رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مزاحمت کاروں کے خلاف اہم کارروائیاں پاکستان کی جانب سے ہوئی ہیں۔

رِچرڈ باؤچر نے کہا: ’حقیقت میں ان معاملات کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوشش حکومتِ پاکستان کی جانب سے زیادہ ہوتی ہے۔ صدر زرداری کے حالیہ بیانات یا وزیر اعظم گیلانی کے واشنگٹن کے دورے پر، ۔۔۔انہوں نے ہی یہ واضح کیا تھا کہ یہ ان کی جنگ ہے، وہ ان دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رِچرڈ باؤچر نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی ایک کوشش کے طور پر صرف اس بات پر ہی زور نہیں دیا کہ قبائلی علاقوں میں کیا خطرات ہیں بلکہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے لیے امریکی احترام کی بھی بات کی۔

وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی کچھ ایسا ہی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند پاکستان، افغانستان، اور امریکی اور ان کے اتحادی فوجیوں کے ’مشترکہ‘ دشمن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’ہمارا مقصد پاکستان کو اس کی سرحدوں پر درپیش خطرے سے نمٹنے کے قابل بنانا اور اس کا ساتھ دینا ہے۔‘

انہوں نے پاکستان کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’میرا خیال ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے حالیہ ہفتوں میں دیکھا ہے یہ پاکستانی حکومت کی جانب سے خود خطرے کوتسلیم کیا جانا ہے۔ اور سرحدی علاقوں میں پاکستان کی فوج کا جارحانہ انداز ہی وہ طریقہ ہے جس طرح سے اس معاملے سے نمٹا جانا چاہیے اور یہی طریقہ ہماری ترجیح ہوگا۔‘


پاکستان کا استحکام اہم
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا رِچرڈ باؤچر نے کہا ہے کہ پاکستان کا استحکام امریکہ کے لیے اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس علاقے کو مستحکم بنانے کا کام پاکستانیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔‘

رِچرڈ باؤچر
سینیئر امریکی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستانی قیادت انتہاپسندوں کے خلاف کارروائیوں کے حق میں ہے بشرطیکہ یہ کارروائیاں کامیاب ہوں اور ان کی تشہیر نہ ہو۔ اپنے انٹرویو میں رابرٹ گیٹس نے کہا کہ امریکہ کو کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کم سے کم کرنی ہوگی۔

اس سے قبل جمعرات کو ہی صحافیوں سے بات چیت کے دوران امریکی وزیرِ دفاع نے کہا تھا کہ افغانستان میں حکمتِ عملی کو بدلتے حالات کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ہم ایسا عراق میں کر چکے ہیں۔ ہم نے عراق میں اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی اور ہم افغانستان میں بھی صورتحال کا جائزہ لیتے رہیں گے۔‘

یاد رہے کہ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے یہ بات ایسے موقع پر کہی ہے جب امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن کی جانب سے ان کے دورۂ پاکستان کے دوران پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرنے کا یقین دلائے جانے کے باوجود مبینہ امریکی جاسوس طیاروں کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس بارے میں پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اسے جنوبی وزیرستان میں بدھ کو کیے جانے والے مبینہ میزائل حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی تھی اور اس طرح کے یکطرفہ حملوں سے حالات کی بہتری میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

وزارت خارجہ میں جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نےکہا کہ امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیکل مولن کی یقین دہانی کے چند گھنٹوں بعد ہی اس تازہ حملے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی اداروں میں رابطوں کی کمی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 
Top