امریکہ مسلمانوں کا دشمن کیوں ہے ؟

سیفی

محفلین
درج ذیل کالم ڈاکٹر اسرار احمد کا ہے جو روزنامہ جنگ میں آج 22 مارچ 2007 کو شائع ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔



امریکا مسلمانوں کا دشمن کیوں؟,,,,,ڈاکٹر اسرار احمد… بانی تنظیم اسلامی پاکستان

3/22/2007
عالمی سطح پر موجودہ حالات میں دنیا کی سب سے بڑی قوت امریکا اور اس کے حواری اس بات پر تل گئے ہیں کہ دنیا میں کہیں پر اسلامی نظام یا انقلاب محمدی ﷺ کا دوبارہ ظہور نہ ہو۔ یہ وہی بات ہے جو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی مشہور نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں ابلیس کی زبان سے کہلوائی تھی۔
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار شرع پیغمبر کہیں!
آج امریکا اور پوری مغربی دنیا پر بالفعل یہ خوف طاری ہوگیا ہے کہیں دنیا کے کسی کونے میں شرع پیغمبرﷺ کا عملی ظہور نہ ہوجائے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی کائناتﷺ نے دنیا میں جو انقلاب برپا کیا وہ دنیا کا انوکھا اور اچھوتا انقلاب تھا جس کے نتیجے میں معاشرے کی ہر شے بدل گئی، مذہب بدل گیا، عقائد بدل گئے، رسومات بدل گئیں، سیاسی نظام بدل گیا، معاشی نظام بدل گیا، معاشرت بدل گئی حتیٰ کہ کوئی بھی شے اپنی سابق حالت پر قائم نہیں رہی۔
عرب کے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے مگر محبوب کائناتﷺ نے اس قوم کو علم کے میدان میں دنیا کا امام بنادیا۔ جنہوں نے دنیا میں بہت سے نئے علوم متعارف کروائے۔ انقلاب محمدی کے نتیجے میں پہلی مرتبہ انسانی افراط و تفریط پر مبنی معاشرے کا خاتمہ ہوا اور انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے اصولوں پر مبنی معاشرے کی داغ بیل پڑی۔ انقلاب نبوی کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ دنیا میں بعد میں رونما ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو وہ انقلاب محمدی ﷺ کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ انقلاب فرانس کے نتیجے میں محض سیاسی نظام بدلا، اخلاق و کردار وہی رہے۔ انقلاب روس کے نتیجے میں صرف معاشی نظام بدلا، رسومات، عقائد اور معاشرہ سابق روش پر رہا۔ عالم کفر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اس انقلاب کا دنیا میں دوبارہ ظہور نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے دماغ میں جو ”خیال“ پیدا ہوگیا کہ ہمارا ایک نظام ہے جس کو ہم قائم کریں گے اس خیال کو واش آؤٹ کردینا چاہئے۔ سارے پس منظر میں اب ایک بات سوچنے کے قابل ہے جو بہت اہم بات ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکی مفکرین کہتے ہیں کہ ”We are not against Islam, We are not gonig to war against Islam, We want a war within Islam.“
اس کا کیا مطلب ہے؟ درحقیقت اسلام کے دو تصور ہیں۔ اسلام کا ایک مذہبی تصور ہے کہ مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں، اس کی نماز پڑھتے ہیں، اس کے حکم کے مطابق روزے رکھتے ہیں۔ اسی کے حکم کے مطابق حسب استطاعت حج و عمرہ کرتے ہیں، عیدیں ہیں، پھر ان کے کچھ سماجی رسوم و رواج ہیں، بچہ پیدا ہوتا ہے تو عقیقہ ہوتا ہے۔ شادی کرنی ہو تو نکاح ہوتا ہے اور کوئی مر جائے تو اس کی تدفین کی جاتی ہے۔ شراب اور سور وغیرہ حرام ہے یہ مذہب ہے جبکہ اسلام کے دوسرے تصور میں اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ اس کا سیاسی معاشی اور سماجی نظام ہے امریکا اور اس کے مفکرین کا موقف ہے کہ ہماری جنگ اسلام بطور مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ ہماری جنگ اسلام بطور دین کے خلاف ہے کیونکہ ہم کسی دین، کسی نظام اور کسی تہذیب کے غلبے کو برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ We are sovereign یعنی ہمیں غلبے کا حق ہے۔ ہماری تہذیب غالب ہو چکی ہے لہٰذا ہمارا نظام چلے گا۔ اسلام بطور مذہب کی حمایت کے لیے تو وہ گواہیاں دیتے ہیں کہ دیکھو تم ہمارے ممالک میں آتے ہو اور کالوں اور گوروں کو اپنی تبلیغ سے مسلمان بنالیتے ہو مگر ہم نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تم یہاں آکر ہمارے چرچ خرید کر مسجدیں بنالیتے ہو مگر ہم نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ تم نمازیں پڑھتے ہو ہم نے کبھی ان پر پابندی نہیں لگائی۔ روزے رکھتے ہو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم تو وائٹ ہاؤس اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں افطاریاں بھی دیتے ہیں بلکہ یہی نہیں عید کے موقع پر یادگاری ٹکٹوں کا بھی اجراء کرتے ہیں۔ اس اسلام سے ہماری کوئی جنگ نہیں بلکہ صدر بش تو یہاں تک بھی کہتے ہیں We are ready to embrace Islam ان کے لیے قابل قبول اسلام وہ ہے جو مذہب تک محدود ہے۔ انہیں اسلام Politico Socio Economic System کی حیثیت سے قطعاً گوارا نہیں اسلام کے اسی تصور کو وہ بنیاد پرستی کا نام دیتے ہیں اور اس وقت وہ ان لوگوں کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں جو اسلام کے بطور دین غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے فنڈامینٹلزم کو گالی اور دہشت گردی بناکر رکھ دیا ہے چنانچہ امریکا اور اس کے حلیف ممالک کبھی دہشت گردی اور کبھی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
حقیقت میں یہ جنگ اسلام کے نظام حیات کے خلاف ہے یہ جنگ اسلام کے عقائد، عبادات اور رسومات کے خلاف نہیں ہے اس لیے کہ امریکا اور مغرب میں نافذ سیکولر ازم کا اصول ہی یہ ہے کہ ایک سیکولر ملک میں تمام مذاہب رہ سکتے ہیں۔ سب کو عبادات، رسومات اور عقائد میں کھلی آزادی ہے مگر اجتماعی نظام میں کسی مذہب، کسی مذہبی کتاب یا کسی خدا اور اس کے قانون کو کوئی دخل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ سیکولرازم مذہبیت نہیں بلکہ ہمہ مذہبی لادینیت ہے اور اب اس نظام کے علمبردار اسلام کے مذہبی تصور کے حامل مسلمانوں کو اسلام کو بحیثیت دین ماننے والے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرا دینا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے علماء کی اکثریت بھی اسلام کو ایک مذہب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اس پس منظر میں مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل بہت تاریک ہے مگر راقم اس مایوسی اور اندھیاروں میں قرآن حکیم کی تعلیمات کے منطقی نتائج اور احادیث نبوی ﷺ میں بیان کردہ خبروں کی بنیاد پر پوری طرح پرامید ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے منصوبے خاک میں ملیں گے اور اسلام بحیثیت دین پوری دنیا پر غالب و نافذ ہوگا بقول علامہ اقبال
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

ماخذ
 
امریکہ و مغرب کی تشویشات

بہت اچھا مضمون ہے، انتہائی سادہ انداز سے امریکہ و مغرب کی تشویشات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے بالکل درست لکھا ہے کہ مسئلہ نماز روزہ کا نہیں، بلکہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، مسئلہ وہاں سے کھڑا ہوتا ہے، اس ہی کو radical islam یا انقلابی اسلام کہا جا رہا ہے۔
 
Top