امریکہ اور پاکستان

خرم

محفلین
ہماری قومی عادت ہے کہ ہماری ہر خرابی کی جڑ امریکہ ہے اور ہمیں امریکہ سے اتنے ہی گلے ہیں‌جتنے روایتی عشاق کو اپنے محبوب سے ہوا کرتے تھے۔ اس لئے سوچا کہ کیوں نہ امریکہ اور پاکستانیوں کا ایک مکالمہ کروا دیا جائے۔ میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو امریکہ پر جو اعتراضات ہیں انہیں بیان کیجئے اور میں کوشش کروں گا کہ تاریخی حوالوں سے امریکہ کی طرف سے ان کا جواب دوں۔ اس بات سے قطعاً یہ مطلب نہیں کہ میں امریکہ کا حواری ہوں لیکن میرے خیال میں ہم پاکستانیوں کو اپنے مؤقف کی درستی کا صحیح ادراک ہونا چاہئے۔ وہ بھائی اور بہن جو امریکہ کی طرف سے جواب دینا چاہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خیالات مجھے ذپ کردیں تاکہ ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب دیا جائے۔
بہت شکریہ۔ اور اب پہلا سوال؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ خرم۔
میرے خیال میں ایک اور دھاگہ شروع کیا جانا چاہیے جہاں پاکستان پر امریکہ کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جا سکے۔ :)
 

دوست

محفلین
یہاں پر ایک صاحب آیا کرتے تھے بطور امریکی محکہ خارجہ کے ترجمان کے۔ وہ کافی عرصے سے نظر نہیں آئے۔ ورنہ سوال ان سے پوچھتے۔ بلکہ وہ زیادہ "آفیشل" جواب دیتے تھے۔;)
 

زیک

مسافر
دوست: فواد ابھی بھی آتا ہے اور پوسٹ بھی کرتا ہے۔

خرم مجھے بھی اپنے ساتھ شامل سمجھیں۔
 

خرم

محفلین
نبیل بھائی امید ہے کہ جب امریکہ جواب دےگا تو پاکستانیوں سے اس کی شکایات بھی سامنے آتی جائیں گی۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے۔:)
 

arifkarim

معطل
پہلا اعتراض: امریکہ نے جو 11 ستمبر 2001 کے بعد سے دہشت گردی کیخلاف علامی جنگ شروع کی ہوئی ہے، جسکا سب سے زیادہ نقصان دنیا بھر کے مسلمان طبقے کو ہوا ہے۔ اور دہشت گرد کی چھاپ ہمارے ساتھ لگا دی گئی ہے، کیا اس عالمی جنگ کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنے کیساتھ ساتھ انکے تیل پر قبضہ کرنا تھا؟ یا مزید اس جنگ کو بنیاد بنا کر تمام مسلمان ممالک پر آہستہ آہستہ مکمل کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا؟
 

گرو جی

محفلین
دوسرا سوال
کل تک امریکہ صرر کو ناگزیر کہتا تھا اور آج ان کی واپسی کا متمنی ہے
کیا یہ کھلا تضاد نہیں‌ ( یہ میں نے سہیل وڑائچ کا جملہ نقل کیا ہے ( برائے مہربانی ہنسنا منح ہے
 

ساجداقبال

محفلین
میرا سادہ سا سوال ہے کہ دنیا بھر کے اکثر ڈکٹیٹروں‌ کی رشتہ داری امریکہ سے کیوں نکل آتی ہے؟ متعلقہ عواموں‌ کی بیوقوف کہنے سے پہلے ذرا اس رشتہ داری کی وضاحت کر دیں۔
 

خرم

محفلین
پہلا اعتراض: امریکہ نے جو 11 ستمبر 2001 کے بعد سے دہشت گردی کیخلاف علامی جنگ شروع کی ہوئی ہے، جسکا سب سے زیادہ نقصان دنیا بھر کے مسلمان طبقے کو ہوا ہے۔ اور دہشت گرد کی چھاپ ہمارے ساتھ لگا دی گئی ہے، کیا اس عالمی جنگ کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنے کیساتھ ساتھ انکے تیل پر قبضہ کرنا تھا؟ یا مزید اس جنگ کو بنیاد بنا کر تمام مسلمان ممالک پر آہستہ آہستہ مکمل کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا؟

11 ستمبر کے واقعات کے بعد جو بات سب سے نمایاں سامنے آئی وہ یہ تھی کہ تمام افراد جو ان واقعات میں ملو‌ث تھے وہ تمام مسلمان تھے۔ اس کے بعد جب ان حملوں کا شک ایک اور مسلمان تنظیم پر کیا گیا تو اس کے سربراہ کو ایک اور مسلمان ملک کے حکمرانوں‌نے اپنے فہمِ مذہب کی بنا پر پوچھ گچھ کے لئے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ تعاون سے اس انکار کی بعض مسلم حلقوں نے انتہائی پذیرائی کی۔ اب حالات یہ تھے کہ ایک ملک میں‌حملہ کرکے تقریباً‌تین ہزار افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ حملہ آور تنظیم کے سرکردہ افراد کو مذہبی بنیادوں‌پر پوچھ گچھ کے لئے حوالے کرنے سے انکار کیا جا رہا تھا اور مذہبی بنیادوں پر اس انکار کی حمایت بھی کی جارہی تھی اور یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ ان تین ہزار افراد کی ہلاکت مذہباً‌جائز ہے۔ آپ کے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہوا کہ مذہب کو امریکہ نے نشانہ نہیں‌بنایا بلکہ امریکہ کو مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا اور اس کے شہریوں‌کے قتل کو ایک مذہبی فریضہ کہا گیا اور اس کی تعریف و تحسین کی گئی۔ اس کے باوجود امریکہ نے اسلام پر کوئی قدغن نہیں‌لگائی بلکہ اسلام 9/11 کے بعد بھی امریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ میں اسلام یا مسلمانوں‌پر کوئی پابندی نہیں۔ کیا آپ اپنے معاشرہ سے تحمل و برداشت کی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں مسلمان مسلمان کا مسلک کی اور اختلافِ رائے کی بنا پر گلا کاٹ رہا ہے اور مسلمانوں کو صرف اس لئے جلا کر مار دیا جاتا ہے کہ وہ ایک امریکی ریستوران میں کام کر رہے تھے؟

اب بات کی جاتی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی۔ جنگ کی شروعات اس لئے ہوئیں کہ ایک مسلمان ملک کے حکمرانوں‌نے اسلام کے نام پر نو گیارہ کے واقعات میں ملوث تنظیم کے سرکردہ افراد کو پوچھ گچھ کے لئے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ انکار کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس تنظیم نے ان واقعات میں اپنی شمولیت سے انکار کیا ہے۔ آج جب اس تنظیم کے قائدین کے ببانگ دُہل ان واقعات کی ذمہ داری کے اعتراف نے ان کا جھوٹ آشکار کر دیا ہے آپ پھر بھی اس جنگ کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کیجئے گا؟ کیا اسلام انصاف اور سچائی کا سبق نہیں دیتا؟ اور اگر دیتا ہے تو کیا انصاف اور سچائی کا یہی تقاضا ہے کہ آپ جھوٹے اور ظالم کی صرف اس لئے حمایت کریں کہ وہ بظاہر آپ کا ہم مذہب ہے؟ ہمیں تو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ سچی گواہی دو خواہ تمہارے اہل و عیال کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ غور سے تجزیہ کیجئے گا تو اس جنگ کی نوبت ہی نہ آتی اگر نو گیارہ کے ذمہ داروں کو پوچھ گچھ کے لئے ہمارے حوالے کر دیا جاتا اس لئے اس جنگ کا ذمہ ان جھوٹوں کے سر ہے جو نو گیارہ کے ذمہ دار ہیں‌اور ان لوگوں کے جو سچ اور جھوٹ‌میں فرق نہ کرسکے اور جھوٹ‌کے آلہ کار بنے۔ امریکہ کے اس جنگ میں شامل ہونے کے متعلق میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ اگر آپ یا آپ کا ملک ہماری جگہ ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ اپنے تین ہزار بے گناہ شہریوں کے قتل پر خاموش بیٹھے ان واقعات کے ذمہ داروں کو اپنا منہ چڑاتے دیکھتے رہتے؟

اب یہاں تک دو باتیں واضح ہو گئیں۔ اول یہ کہ نو گیارہ کے ذمہ داروں‌نے اس کام کو ایک مذہبی فریضہ کا روپ دیا اور مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ان کے اس پراپیگنڈہ کی حمایت کی۔ اب حقیقتاً اس بات کا تعین کرنے کا کوئی واضح طریقہ نہیں‌ہے کہ ‌مسلمانوں میں‌سے کون اپنے دل میں القاعدہ یا اس کے منشور کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور کون اس کا مخالف ہے؟ اب جب حفاظتِ خود اختیاری کے تحت اس بات کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے کہ 9/11 ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے تو لازمی طور پر اس کوشش کا سب سے پہلا اصول یہی ہے کہ ان لوگوں کو تلاش کیا جائے جو حملہ آوروں اور ان کے مقاصد کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لامحالہ مسلمان اس سارے عمل میں اور مذاہب کے لوگوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ صرف ان کے مذہب کو امریکہ پر حملے میں استعمال کیا گیا لیکن یہاں بھی ایک مسلمان کو تلاشی کے صرف انہی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن سے کسی بھی غیر مسلم کو اور اس معاملہ میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ یہاں میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جو لوگ اعلانیہ امریکہ کی بربادی کے متمنی ہیں اور اس سے جنگ کے اعلانات بھی کرتے ہیں ان کے بارے میں امریکہ تفتیش کیوں‌ نہ کرے؟ کیا آپ یا آپ کا ملک ایسے کسی فرد یا حکومت کے معاملے میں نرمی اختیار کریں‌گے؟ اور امریکہ میں تو اس سب کے باوجود بھی مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے کیا آپ اپنے معاشرہ کے اقلیتوں سے سلوک کی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں‌بابری مسجد کی شہادت کے بعد پیغمبر اسلام کے واضح فرامین کے باوجود دسیوں مندروں‌کو زمین بوس کردیا گیا صرف آتشِ انتقام بجھانے کے لئے؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیا اس عالمی جنگ کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنے کیساتھ ساتھ انکے تیل پر قبضہ کرنا تھا؟


محترم،

آپ کی بات ميں وزن ہوتا اگر تيل کا بحران محض ترقی پذير ممالک تک محدود ہوتا اور امريکہ ميں لوگ بقول آپکے عراق اور افغانستان سے چرائے ہوئے تيل کے عوض سستے تيل کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ تيل کے عالمی بحران کا اثر امريکہ ميں بھی اتنا ہی پڑا ہے جتنا کہ باقی دنيا ميں۔ اس کے ثبوت کے ليے مجھے آپکو اعداد وشمار اور مختلف رپورٹس کے حوالے دينے کی ضرورت نہيں ہے۔ آپ امريکہ کے کسی بھی نشرياتی ادارے کی گزشتہ چند ہفتوں کی سرخياں ديکھ ليں، آپ کو اس حقيقت کا علم ہو جائے گا کہ تيل کے بحران کے سبب امريکہ کا غريب طبقہ ہی نہيں بلکہ متوسط طبقہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ويسے افغانستان ميں تو تيل نہ ہونے کے برابر ہے اور جہاں تک عراق کا سوال ہے تو يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ عراق حکومت اپنے قومی بجٹ کا بڑا حصہ تيل کی پيداوار سے پورا کرتی ہے۔ سال 2007 ميں عراقی حکومت نے تيل کی پيداوار سے 38 بلين ڈالرزحاصل کيے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 
11 ستمبر کے واقعات کے بعد جو بات سب سے نمایاں سامنے آئی وہ یہ تھی کہ تمام افراد جو ان واقعات میں ملو‌ث تھے وہ تمام مسلمان تھے۔ اس کے بعد جب ان حملوں کا شک ایک اور مسلمان تنظیم پر کیا گیا تو اس کے سربراہ کو ایک اور مسلمان ملک کے حکمرانوں‌نے اپنے فہمِ مذہب کی بنا پر پوچھ گچھ کے لئے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ تعاون سے اس انکار کی بعض مسلم حلقوں نے انتہائی پذیرائی کی۔ اب حالات یہ تھے کہ ایک ملک میں‌حملہ کرکے تقریباً‌تین ہزار افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ حملہ آور تنظیم کے سرکردہ افراد کو مذہبی بنیادوں‌پر پوچھ گچھ کے لئے حوالے کرنے سے انکار کیا جا رہا تھا اور مذہبی بنیادوں پر اس انکار کی حمایت بھی کی جارہی تھی اور یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ ان تین ہزار افراد کی ہلاکت مذہباً‌جائز ہے۔ آپ کے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہوا کہ مذہب کو امریکہ نے نشانہ نہیں‌بنایا بلکہ امریکہ کو مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا اور اس کے شہریوں‌کے قتل کو ایک مذہبی فریضہ کہا گیا اور اس کی تعریف و تحسین کی گئی۔ اس کے باوجود امریکہ نے اسلام پر کوئی قدغن نہیں‌لگائی بلکہ اسلام 9/11 کے بعد بھی امریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ میں اسلام یا مسلمانوں‌پر کوئی پابندی نہیں۔ کیا آپ اپنے معاشرہ سے تحمل و برداشت کی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں مسلمان مسلمان کا مسلک کی اور اختلافِ رائے کی بنا پر گلا کاٹ رہا ہے اور مسلمانوں کو صرف اس لئے جلا کر مار دیا جاتا ہے کہ وہ ایک امریکی ریستوران میں کام کر رہے تھے؟

اب بات کی جاتی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی۔ جنگ کی شروعات اس لئے ہوئیں کہ ایک مسلمان ملک کے حکمرانوں‌نے اسلام کے نام پر نو گیارہ کے واقعات میں ملوث تنظیم کے سرکردہ افراد کو پوچھ گچھ کے لئے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ انکار کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس تنظیم نے ان واقعات میں اپنی شمولیت سے انکار کیا ہے۔ آج جب اس تنظیم کے قائدین کے ببانگ دُہل ان واقعات کی ذمہ داری کے اعتراف نے ان کا جھوٹ آشکار کر دیا ہے آپ پھر بھی اس جنگ کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کیجئے گا؟ کیا اسلام انصاف اور سچائی کا سبق نہیں دیتا؟ اور اگر دیتا ہے تو کیا انصاف اور سچائی کا یہی تقاضا ہے کہ آپ جھوٹے اور ظالم کی صرف اس لئے حمایت کریں کہ وہ بظاہر آپ کا ہم مذہب ہے؟ ہمیں تو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ سچی گواہی دو خواہ تمہارے اہل و عیال کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ غور سے تجزیہ کیجئے گا تو اس جنگ کی نوبت ہی نہ آتی اگر نو گیارہ کے ذمہ داروں کو پوچھ گچھ کے لئے ہمارے حوالے کر دیا جاتا اس لئے اس جنگ کا ذمہ ان جھوٹوں کے سر ہے جو نو گیارہ کے ذمہ دار ہیں‌اور ان لوگوں کے جو سچ اور جھوٹ‌میں فرق نہ کرسکے اور جھوٹ‌کے آلہ کار بنے۔ امریکہ کے اس جنگ میں شامل ہونے کے متعلق میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ اگر آپ یا آپ کا ملک ہماری جگہ ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ اپنے تین ہزار بے گناہ شہریوں کے قتل پر خاموش بیٹھے ان واقعات کے ذمہ داروں کو اپنا منہ چڑاتے دیکھتے رہتے؟

اب یہاں تک دو باتیں واضح ہو گئیں۔ اول یہ کہ نو گیارہ کے ذمہ داروں‌نے اس کام کو ایک مذہبی فریضہ کا روپ دیا اور مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ان کے اس پراپیگنڈہ کی حمایت کی۔ اب حقیقتاً اس بات کا تعین کرنے کا کوئی واضح طریقہ نہیں‌ہے کہ ‌مسلمانوں میں‌سے کون اپنے دل میں القاعدہ یا اس کے منشور کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور کون اس کا مخالف ہے؟ اب جب حفاظتِ خود اختیاری کے تحت اس بات کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے کہ 9/11 ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے تو لازمی طور پر اس کوشش کا سب سے پہلا اصول یہی ہے کہ ان لوگوں کو تلاش کیا جائے جو حملہ آوروں اور ان کے مقاصد کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لامحالہ مسلمان اس سارے عمل میں اور مذاہب کے لوگوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ صرف ان کے مذہب کو امریکہ پر حملے میں استعمال کیا گیا لیکن یہاں بھی ایک مسلمان کو تلاشی کے صرف انہی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن سے کسی بھی غیر مسلم کو اور اس معاملہ میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ یہاں میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جو لوگ اعلانیہ امریکہ کی بربادی کے متمنی ہیں اور اس سے جنگ کے اعلانات بھی کرتے ہیں ان کے بارے میں امریکہ تفتیش کیوں‌ نہ کرے؟ کیا آپ یا آپ کا ملک ایسے کسی فرد یا حکومت کے معاملے میں نرمی اختیار کریں‌گے؟ اور امریکہ میں تو اس سب کے باوجود بھی مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے کیا آپ اپنے معاشرہ کے اقلیتوں سے سلوک کی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں‌بابری مسجد کی شہادت کے بعد پیغمبر اسلام کے واضح فرامین کے باوجود دسیوں مندروں‌کو زمین بوس کردیا گیا صرف آتشِ انتقام بجھانے کے لئے؟

محترم صرف ایک بات کیا طالبان نے امریکہ سے اسامہ کے خلاف ثبوت نہ مانگا تھا، اور ثبوت کی فراہمی پر خود کاروائی کا عندیہ بھی ظاہر کیا تھا۔ تو کیا وجہ ہے امریکہ نے ثبوت دینے کی بجائے ان لوگوں پر فوج کشی کر دی۔ کلسٹر بم جیسے ممنوعہ ہتھیار استعمال کئے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ افراد بھی اسکی بھینٹ چڑھے۔
 

خرم

محفلین
بھائی طالبان کو کہا گیا تھا کہ ان لوگوں سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔ ثبوت تب سامنے لائے جاتے ہیں جب تفتیش مکمل ہو جاتی ہے۔ اور جب اسامہ کی تنظیم USS Cole پر حملے میں ملوث تھی، اور پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو گرانے میں ناکام ہو چکی تھی تو ان سے تفتیش کیوں نہ کی جاتی؟ طالبان کی پیشکش صرف معاملے کو طول دینے کے لئے تھی وگرنہ اگر ان کے مہمان بے گناہ تھے تو انہیں پوچھ گچھ کے لئے پیش کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ اگر آپ کو تھانے پوچھ گچھ کے لئے بلایا جائے تو کیا آپ انکار کر دیں گے؟ اور ایسے انکار کی آپ کے ملک میں کیا سزا ہے؟ اب جب طالبان نے کہا کہ وہ ان بندوں کو تفتیش کے لئے پیش نہیں کرسکتے اور کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کیا تو پھر لشکر کشی کے سوا کیا چارہ تھا؟ آپ اپنے آپ کو امریکہ کی جگہ رکھئے۔ ابھی آپ کے کچھ لوگ غلطی سے فائر میں مارے جاتے ہیں تو آپ لوگ امریکہ کی کسی بھی لحاظ سے ٹکر کے نہ ہونے کے باوجود مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ اور جب امریکہ کے شہریوں کو جان بوجھ کر ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو امریکہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کی انتہائی کمزور اور غیر مقبول حکومت کے سامنے بھیگی بلی بنا بیٹھا رہے؟ اگر آج ہندوستان پاکستان پر حملہ کرکے کسی شہر میں ہزاروں لوگوں کو مار دے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا آپ ہندوستان کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے رہیں گے؟ اور اگر نہیں تو کیا آپ کی امریکہ سے ایسی توقعات دوغلا پن نہیں؟
جہاں‌تک بات بے گناہوں کے قتل کی ہے تو امریکہ تو پوری کوشش کرتا ہے کہ ایسی کاروائی نہ ہو جس میں بے گناہ جانو‌ں کا نقصان ہو لیکن اگر مجرم عام لوگوں میں‌ارادتاً چھپ جاتے ہیں یا لوگ ذاتی رنجش کی بنا پر غلط معلومات فراہم کرتے ہیں تو خواہش کے باوجود کوئی بھی فوج اس طرح کے حادثات سے نہیں بچ سکتی۔
 
کل ہو سکتا ہے آپ کا کوئی مہمان آپ کے گھر آئے اور میں ایک الزام اس پر لگا کر آپ کا گھر مسمار کر دوں تو ۔۔۔

معذرت اگر بات بری لگی ہو تو یہ صرف ایک مثال کے لئے تھا
 

خرم

محفلین
دیکھئے بھیا اگر آپ کے گھر کوئی مہمان آیا ہے جس نے کسی خاندان کے دس بندے مارے ہیں اور آپ کو اس کا علم بھی ہے۔ اب اس خاندان کے پچاس بے گناہ بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے اور مار دئے جاتے ہیں اور وہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں کہ اس بندے سے ہماری دشمنی ہے اور ہمیں اس پر شک ہے اسے پوچھ گچھ کے لئے ہمارے حوالے کیجئے۔ تو آپ کیا کیجئے گا؟
 
محترم علم ہو تو دوسری بات ہے ، لیکن جب آپ کو پتہ ہی نہیں میرا مہمان ملزم بھی ہے یا نہیں۔ کیا یہ کوئی سازش تو نہیں میرے مہمان کے ساتھ ۔ اس صورت میں آپ کیا کریں گے۔


یادرہے اسامہ کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا اعترافی بیان امریکی فوج کشی کے بعد آیا تھا نہ کے پہلے
 

خرم

محفلین
بھائی یہی تو عرض کیا کہ نو گیارہ کا علم نہیں تھا، یو ایس ایس کول کا تو علم تھا؟ امریکی سفارت خانے پر حملے کا تو علم تھا؟ پھر چونکہ چنانچہ کا کیا جواز تھا؟ اسی لئے تو عرض کی تھی کہ اگر اس آدمی نے پہلے بھی اسی خاندان کے بندے قتل کئے ہوں تو کیا کہئے گا؟
 

مہوش علی

لائبریرین
طالبان اور القاعدہ مستقل اسلام کے نام پر جھوٹ بول رہے تھے۔

۔ جرمنی کی ہمبرگ[ہاربرگ] کی ٹیکنیکل یونورسٹی کے جن سٹوڈنٹز نے گیارہ ستمبر کوحملہ کیا تھا، اس گروپ کے تقریبا تمام رکن پڑھائی کے دوران سمسٹر چھوڑ کر پاکستان کے ویزے پر پاکستان پہنچے اور پھر وہاں سے سمگل ہو کر افغانستان میں موجود طالبان/ القاعدہ کے دہشت گردی کے ٹریننگ سنٹرز میں پہنچ گئے۔ کئی ماہ تک وہاں سے ٹریننگ لیکر واپس پاکستان سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے۔ ( ان سب کا ریکارڈ پر پاکستان آنا ثابت ہو چکا ہے اور القاعدہ کے ٹریننگ سنٹرز میں دہشت گردی کی ٹریننگ لینا بھی ثابت ہے۔

۔ انکا ایک ہمبرگ یونورسٹی کا ایک ساتھی مروان الشئی گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان میں فورسز کے ہاتھوں پکڑا گیا اور اسکی حفاظت پر مامور طالبان محافظ پاک فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔

۔ انکا ایک اور ساتھی منیر المتصدق جرمنی میں گرفتار ہوا اور یہ بھی اپنا ایک سمسٹر مس کر کے پاکستان کا ویزہ لیکر افغانستان میں طالبان کے ٹریننگ سنٹر میں سمگل ہوا اور کئی ماہ کی ٹریننگ کے بعد واپس جرمنی پہنچ گیا۔

۔ ان سٹوڈنٹز کا یہ گروہ امریکا پہنچا اور انہوں نے ایک پرائیویٹ فلائنگ سکول میں داخلہ لیا۔
گیارہ ستمبر کے بعد ان کی فلائنگ لیڈی ٹیچر کا انٹرویو لیا گیا جو باقاعدہ تقریبا رو پڑی جب وہ یہ بیان کر رہی تھی کہ فلائنگ کورس میں سب سے اہم چیز ہوتی ہے Take Off اور لینڈنگ۔ مگر یہ عرب سٹوڈنٹز کا گروہ کہتا تھا کہ ٹیک آف اور لینڈنگ کو چھوڑو اور ہمیں یہ بتاو کہ اڑتے ہوئے جہاز کو دائیں بائیں اور اوپر نیچے کیسے کیا جاتا ہے۔

۔ اسی ہمبرگ سٹوڈنٹز کے گروہ کی تصاویر ان تمام جہازوں کے مسافروں کے طور پر محفوظ کی گئیں جو کہ گیارہ ستمبر میں ملوث تھے۔

//////////////////////////////////////////////

چلیں اب ان لوگوں کے دلائل دیکھتے ہیں جن کی نظر میں القاعدہ اور طالبان چاہے کچھ کر لیں ہمیشہ معصوم ہیں، جبکہ امریکا جو بھی کرے وہ ہمیشہ گنہگار ہے۔ القاعدہ و طالبان کو معصوم ثابت کرنے کے لیے یہ لوگ ایک اتفاقات کی تھیوری پیش کرتے ہیں۔ یہ اتفاقات نامی تھیوری اب آپکے پیش خدمت ہے۔

۱۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اتفاق تھا کہ جرمنی کے کچھ سٹوڈنٹز پاکستان کا ویزہ لیکر غیر قانونی طور پر القاعدہ کے ٹریننگ سنٹر میں پہنچے۔

۲۔ پھر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اتفاق ہے کہ ان تمام سٹوڈنٹز کا تعلق جرمنی میں ہمبرگ یونورسٹی اور اپلائیڈ سائنسز یونورسٹی سے تھا۔

۳۔ پھر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اتفاق تھا کہ یہ ٹرینڈ شدہ ہمبرگ یونورسٹی کے سٹوڈنٹز ویزہ لیکر امریکہ پہنچتے ہیں۔

۴۔ پھران لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اتفاق تھا کہ یہ امریکہ جا کر فلائنگ سکول میں داخلہ لیتے ہیں۔

۵۔ پھر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اتفاق تھا کہ یہ سٹوڈنٹز گیارہ ستمبر کو ائیر پورٹز پر دیکھے گئے۔

۶۔ پھر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اتفاق تھا کہ ہمبرگ یونیورسٹی کی یہ سٹوڈنٹ اتفاق سے انہیں جہازوں میں سوار ہوئے کہ جنہیں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا۔


اب ہر کوئی انکے اس اتفاقات کی بنیاد پر بنائے گئے دلائل کو پڑھ کر ہنس سکتا یا پھر انکی عقل پر رو سکتا ہے۔

/////////////////////////////////

ادھر پاکستان کے گیارہ فوجی غلطی سے شہید ہو گئے تو پاکستانی عوام امریکا کو کھا جانا چاہتی ہے۔

تو خود سوچئیے جب امریکا کے تین ہزار سے زائد لوگ مر رہے تھے اور دنیا دیکھ رہی تھی کہ کیسے بے گناہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے چھلانگیں لگا کر نیچے گر رہے ہیں، تو پھر انکے غضب و غصے کا کیا حال ہو گا۔

پھر بات وہی ہے کہ طالبان اور انکے ہمدرد شاید اپنے سوا باقی پوری دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ نہ انہیں اس بات کی سمجھ لگتی ہے کہ جب طالبان ناٹو پر حملہ کر کے پاکستان میں پناہ لینے کے لیے چھپ رہے ہوتے ہیں تو ناٹو جوابی کاروائی کرتے ہوئے کیوں پاکستان کے علاقوں تک جنگ لے جاتا ہے، اور نہ ہی انہیں یہ سمجھ لگی کہ جب وہ اتنا اچھا جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر انہوں نے حملہ نہیں کیا تو پھر باقی دنیا انکی یہ بات مان لینے کو کیوں تیار نہیں، اور انکی "اتفاقات" کی تھیوری تو اتنی شاندار ہے کہ ہر کسی کو آنکھیں بند کر کے اسے قبول کر لینا چاہیے تھا۔

لاحول اللہ ولا قوۃ
 
Top