امجد اسلام امجد امجد اسلام امجد

فرحت کیانی

لائبریرین
ہم لوگ
دائروں میں چلتے ہیں۔
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے۔

آزوئیں چلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں۔
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا رہتا ہے
راستے نہیں گھٹتے۔

صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آًمد کا پیش باب کہتے ہیں۔
اک کرن جو ملتی ہے، آفتاب کہتے ہیں۔
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں۔
 

تیشہ

محفلین
فرحت میری طرف سے بھی اک میری پسند ۔ ۔ امجد اسلا م امجد ،

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے

فصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے

دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے

میں نے امجد اسےُ بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے ۔

:chalo:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت خوب۔۔
مجھے اس غزل کا یہ شعر آتا تھا


دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے


آپ کی بدولت پوری غزل پڑھ لی۔۔ساری کی ساری بہت خوب ہے۔۔
بہت شکریہ:)
 
Top