امتحان ہال میں لکھی گئی ڈائری ۔۔۔ محمد علم اللہ

من و عن
امتحان ہال میں لکھی گئی ڈائری
محمد علم اللہ
۲۲ جنوری ۲۰۱۷
صبح جلدی اٹھنے کی بات ہی الگ ہے ۔آج کا دن بڑا پر لطف گذرا ۔ رات نیند بھی تو نہیں آئی تھی ۔دیر گئے رات تک زبردستی جاگتے رہے ۔رات کے کس پہر آنکھ لگی معلوم نہیں ۔ بیدار ہوا تو صبح کے چھہ بج رہے تھے ۔سینٹر کی دوری کا خیال آتے ہی فورا رضائی پھینکا اور جلدی جلدی نہا دھو کر فارغ ہوا ۔ نماز فجر کے بعد احباب کو فون کر کے جگانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ابھی وقت کافی تھااس لئے رہائش گاہ سے بس اسٹاپ کے لئے پیدل ہی نکلنے کا ارادہ کیا ۔ ابھی کمرے سے باہر قدم ہی نکالا تھا کہ ابصار احمد جو کہ میرے عزیز دوست اور بھائی کی طرح ہیں نے لنچ باکس بیگ میں ڈالتے ہوئے کہنے لگا یہ رکھ لو وہاں کھانا نہیں ملے گا ۔ اتنی صبح اٹھنا ، کھانا بنانا وہ بھی ہم جیسے کنواروں کے لئے کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ ابصار کے اس خلوص کے بارے ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے صاف پانی کا ایک باٹل بھی میرے بیگ میں کہتے ہوئے ڈالنے لگا کہ پتہ نہیں وہاں پانی ملے یا نہیں اس لئے یہ رکھ لو ۔ اس خلوص کی انتہا کہاں ہوگی مجھے معلوم نہیں تھا ابھی دہلیز سے چند قدم ہی باہر نکالاتھا کہ اس نے پھر آواز دیا یہ کومبی فلام کی گولیاں ہیں اسے بھی رکھ لو کیا پتہ سر وغیرہ میں درد ہو تو کھا لینا ۔میں اپنے دوست کے احسان اور خلوص تلے دبتا جا رہا تھا کہ اس نے سیاہ رنگ کا ایک قلم بھی مجھے دیا یہ تمہارے لئے منگوایا تھا رکھ لو ،میں لاکھ کہتا رہا میرے پاس ہے مگر جناب کہاں ماننے والے تھے زبردستی میرے جیب میں ٹھونس دیا ۔میں اپنے دوست کا میرے لئے اس قدر اہتمام اور خلوص سے اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کر سکا ، اور ٹپ ٹپ میرے آنکھوں سے آنکھوں بہنے لگے ۔ دل ہی دل میں خدا سے دعا کیا ’’خدایا اس محبت کو برقرار رکھیو اور کبھی میری جانب سے ایسی دوستی کا امتحان ہو تو اس میں مجھے کامیاب رکھیو ۔
************
برادرم نیر اعظم ، ذیشان حیدر نقوی اور ریسرچ اسکالر اسماء حیات سے رات ہی بات ہو چکی تھی ،ہم چاروں کا سینٹر ایک ہی جگہ پڑا تھا اس لئے بس اسٹاپ پر ہی ساڑھے چھہ بجے تک پہنچ جانے کا منصوبہ بنا لیا گیا تھا ۔ مگر میں جب بس اسٹاپ پر پہنچا توتینوں میں سے کوئی بھی جائے متعینہ پر نظر نہیں آیا ۔ فون کیا تو کسی نے کہا ’’ میں بس نکلنے والا ہوں ‘‘تو کسی نے ’’ مزید انتظار کی دہائی دی ‘‘تو ایک نے فون ہی ریسیو نہ کیا ۔دل میں یہ کھٹکا لگا رہا کہ وہ کہیں سو نہ گیا مگر جلد ہی اس کا بھی فون آیا اور اس نے تھوڑی تاخیر ہوجانے کے اندیشے کا اظہار کیا ۔ میرا غصہ بڑھتا جا رہا تھا ، مگر میں اس کا اثر امتحان پر نہ پڑے اس لئے خود کے اوپر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور قریب ہی آٹو ڈرائیوروں کے ذریعے تیار کئے گئے آگ کے الاو کے پاس بیٹھ گیا ۔ ٹھنڈ میں الاو تاپنے کا بھی اپنا الگ ہی مزا ہے ۔ اس الاو کے سامنے کھڑے ہو کر گاوں کی یاد تازہ ہوگئی ،جہاں ہم پورے گھر والے ایک الاو کے ارد گرد بیٹھ جاتے ،ابو وہیں ہم بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ،وہیں خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت ، گھر یلو مسائل اور دنیا جہان کی پریشانیوں کا حل تلاش کیا جاتا ۔ابھی میں ان سوچوں میں گم ہی تھا کہ ذیشان کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔اس کے لہجے میں بڑی لجاجت تھی ، شاید اس نے میرے غصیلے طبیعت کا اندازہ لگا لیا تھا اس لئے آتے ہی کہنے لگا بھائی گالی مت دینا پیدل آ رہا ہوں۔ اسکی آواز میں کچھ ایسی لجاجت تھی کہ میں چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں کہ سکا ۔ابھی ہماری گفتگو کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ اسماء حیات بھی آ گئی ۔تھوڑی دیر کے صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ آٹو سے چلیں گے ۔ آٹو والے نے بھی آج کوئی چک چک نہ کی اور فورا میٹر سے چلنے کے لئے راضی ہو گیا ۔ ہم تینوں حیرت سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے ہوئے آٹو میں سوار ہو گئے ۔ بحث مباحثہ ،نصاب کے اعادہ اور خوش گپیوں کے درمیان ایک گھنٹے کی مسافت طئے کر کے ہم امتحان سینٹر پہنچ چکے تھے ۔ یہاں پہلے سے ہی طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ہم خود وقت سے ایک گھنٹہ قبل یہاں پہنچے تھے ۔ کسی اجنبی جگہ پر خالی وقت گذارنا کس قدر مشکل ترین ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن خدا کا شکر ہے ، یہاں پر اس کا احساس بھی نہ ہوا اور ہنسی ، مذاق لطیفوں اور شگوفوں کے درمیان وقت کب گذر گیا اندازہ ہی نہ ہوا ۔
************
ٹن ٹن ٹن ۔۔۔گھنٹی کی آواز بجی اور سب قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ سیکیوریٹی گارڈ نے سامان چیک کیا ۔سبھی نے اپنی اپنی جگہ اور رول نمبر دیکھا اور امتحان ہال میں بغیر کسی پریشانی اور دقت کے داخل ہو گئے ۔ جس اسکول میں ہمارا سینٹر پڑا ہے اس کا نام این کے بر گوڈیا پبلک اسکول ہے ۔ اسکول کافی لمبے چوڑے قطعہ آراضی پر مشتمل ہے ۔ اسکول کا انتظام و انصرام بھی کافی عمدہ ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں عموما اتنے اچھے انتظامات نہیں ہوتے ۔لیکن اس اسکول کی حالت اچھی نظر آئی ۔ صاف صفائی کے علاوہ انویجی لیٹر اور دیگر عملہ بھی کافی مددگار اور ملنسار نظر آئے جس نے مجھے کافی متاثر کیا ۔
************
پہلا پیپر آسان تھا مگر وقت کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ منطق ، ریاضیات اور فلسفہ نے کافی پریشان کیا ۔ امتحان سے قبل دسیوں پیپر حل کرنے کی پریکٹس اور ایک ایک منٹ گن گن کر کے استعمال کرنے کے باوجود کچھ سوالات چھوٹ ہی گئے ۔
************
دوسرا پیپر آسان تھا ۔ ابھی پیپر شروع کیا ہی تھا کہ کھڑکی سے باہر انتہائی اداس بانسری کی آواز سنائی دینے لگی ۔بانسری کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہوتی جاتی ہے ۔ میرا جی چاہ رہا ہے پرچہ بند کروں اور دیوانہ وار بانسری والے کے پاس پہنچ جاوں ،اور کہوں ظالم یہ تم نے کون سے لئے چھیڑ دی ہے ۔ اسے چیخ چیخ کر داد دینے کو جی چاہ رہا ہے ۔مگر میں مجبور ہوں وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری
پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں
ذہن بار بار اسی جانب منتقل ہوا جاتا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں ۔ تھوڑی دیر کے لئے قلم روک دیتاہوں ۔ سوچ رہا ہوں کیا کیا جائے ۔ مگر اب دھیرے دھیرے بانسری کی آواز کم ہونے لگی ہے ۔ دل تھوڑا ہلکا ہوا تو پیپر حل کرنے بیٹھ گیا ہوں ۔ پیپر بہت آسان ہے ، آدھا گھنٹہ پہلے ہی مکمل ہو گیا ہے ۔ لیکن پرچہ جمع کر کے باہر نہیں جا سکتے ۔ تھوڑی دیر کاغذ ، قلم ، دستانوں سے کھیلتا رہا ، پھر اچانک ایک طریقہ سوجھا ۔ بازو کا تکیہ بنایا سر ڈیسک میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ آدھے گھنٹے کی نیند بڑی خوشگوار رہی ۔
************
دوسرے پیپر کے بعدوقفہ کافی طویل تھا ۔اس وقفے میں کئی پرانے ساتھیو سے ملاقات ہوئی ۔ کوئی ممبئی سے امتحان دینے آیا تھا تو کوئی چنئی اور بنگال سے ۔ یہیں سہیل اختر قاسمی ، محمد اسد ، آکترتی سومن سے ملاقات ہوئی ۔ سہیل اخترقاسمی روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہیں ، محمد اسد ٹائمس آف انڈیا انگریزی سے ، تو آکرتی سومن ایم ٹی وی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ اسد اور آکرتی نے ملتے ہی پرانا قصہ چھیڑ دیا ۔ پرانی یاد یں ، پڑھائی ، لڑائی ،آنکھ مچولی ، ہنسی مذاق دیر تک کئی واقعات کو یاد کر کے ہنستے اور محظوظ ہوتے رہے ۔مل جل کر سب نے کھانا کھایا، چائے پی اور پھر تیسرے پیپر کے لئے اپنے اپنے ہال کی راہ لی ۔
************
تیسرا پیپر بھی کافی آسان ہے ، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی پیپر حل ہو چکا ہے ۔ انویجیلیٹر وقت مکمل ہونے کے بعد ہی کاپی جمع کرنے کا کہہ رہی ہے ۔ اتنا طویل وقت گذارنا میرے لئے بہت مشکل ہے ۔ بلیک بورڈ ، ٹیبل ، کرسی ، میز اور پنکھوں سے یونہی سرگوشی کرتے کرتے آدھا گھنٹہ کسی طرح گذار چکا ہوں ۔ اب بھی ایک گھنٹہ باقی بچا ہوا ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی نے گھڑی کی سوئیوں کو تھام لیا ہے یا پھر گھڑی گھنٹوں چلتے چلتے ٹُک دم لینے کو ٹھہر گئی ہے ۔ اچانک خیال آیا ، ڈائری لکھنی چاہئے ۔ مگر کاغذ کہاں سے لایا جائے ۔ آخر اس کا بھی انتظام ہو گیا ،سوال میں رف ورک کے لئے دئے گئے کاغذ میں لکھنا شروع کر دیا ۔ اب وقت ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اور میں اب بھی وقت کاٹنے کے لئے یونہی قلم گھسیٹ رہا ہوں ۔
شام چار بجکر پچیس منٹ
این کے بگروڈیا پبلک اسکول ، اہنسا مارگ ، روہنی نئی دہلی
 
کھڑکی سے باہر انتہائی اداس بانسری کی آواز سنائی دینے لگی ۔بانسری کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہوتی جاتی ہے
بہت خوب جناب ۔۔ زبردست تحریر ہے ۔۔ کمرہ امتحان میں پیپر دیتے ہوئے بانسری کی آواز امیزنگ ۔۔ مجموعی طور پہ بہت اچھی تحریر ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
من و عن
امتحان ہال میں لکھی گئی ڈائری
محمد علم اللہ
۲۲ جنوری ۲۰۱۷
صبح جلدی اٹھنے کی بات ہی الگ ہے ۔آج کا دن بڑا پر لطف گذرا ۔ رات نیند بھی تو نہیں آئی تھی ۔دیر گئے رات تک زبردستی جاگتے رہے ۔رات کے کس پہر آنکھ لگی معلوم نہیں ۔ بیدار ہوا تو صبح کے چھہ بج رہے تھے ۔سینٹر کی دوری کا خیال آتے ہی فورا رضائی پھینکا اور جلدی جلدی نہا دھو کر فارغ ہوا ۔ نماز فجر کے بعد احباب کو فون کر کے جگانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ابھی وقت کافی تھااس لئے رہائش گاہ سے بس اسٹاپ کے لئے پیدل ہی نکلنے کا ارادہ کیا ۔ ابھی کمرے سے باہر قدم ہی نکالا تھا کہ ابصار احمد جو کہ میرے عزیز دوست اور بھائی کی طرح ہیں نے لنچ باکس بیگ میں ڈالتے ہوئے کہنے لگا یہ رکھ لو وہاں کھانا نہیں ملے گا ۔ اتنی صبح اٹھنا ، کھانا بنانا وہ بھی ہم جیسے کنواروں کے لئے کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ ابصار کے اس خلوص کے بارے ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے صاف پانی کا ایک باٹل بھی میرے بیگ میں کہتے ہوئے ڈالنے لگا کہ پتہ نہیں وہاں پانی ملے یا نہیں اس لئے یہ رکھ لو ۔ اس خلوص کی انتہا کہاں ہوگی مجھے معلوم نہیں تھا ابھی دہلیز سے چند قدم ہی باہر نکالاتھا کہ اس نے پھر آواز دیا یہ کومبی فلام کی گولیاں ہیں اسے بھی رکھ لو کیا پتہ سر وغیرہ میں درد ہو تو کھا لینا ۔میں اپنے دوست کے احسان اور خلوص تلے دبتا جا رہا تھا کہ اس نے سیاہ رنگ کا ایک قلم بھی مجھے دیا یہ تمہارے لئے منگوایا تھا رکھ لو ،میں لاکھ کہتا رہا میرے پاس ہے مگر جناب کہاں ماننے والے تھے زبردستی میرے جیب میں ٹھونس دیا ۔میں اپنے دوست کا میرے لئے اس قدر اہتمام اور خلوص سے اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کر سکا ، اور ٹپ ٹپ میرے آنکھوں سے آنکھوں بہنے لگے ۔ دل ہی دل میں خدا سے دعا کیا ’’خدایا اس محبت کو برقرار رکھیو اور کبھی میری جانب سے ایسی دوستی کا امتحان ہو تو اس میں مجھے کامیاب رکھیو ۔
************
برادرم نیر اعظم ، ذیشان حیدر نقوی اور ریسرچ اسکالر اسماء حیات سے رات ہی بات ہو چکی تھی ،ہم چاروں کا سینٹر ایک ہی جگہ پڑا تھا اس لئے بس اسٹاپ پر ہی ساڑھے چھہ بجے تک پہنچ جانے کا منصوبہ بنا لیا گیا تھا ۔ مگر میں جب بس اسٹاپ پر پہنچا توتینوں میں سے کوئی بھی جائے متعینہ پر نظر نہیں آیا ۔ فون کیا تو کسی نے کہا ’’ میں بس نکلنے والا ہوں ‘‘تو کسی نے ’’ مزید انتظار کی دہائی دی ‘‘تو ایک نے فون ہی ریسیو نہ کیا ۔دل میں یہ کھٹکا لگا رہا کہ وہ کہیں سو نہ گیا مگر جلد ہی اس کا بھی فون آیا اور اس نے تھوڑی تاخیر ہوجانے کے اندیشے کا اظہار کیا ۔ میرا غصہ بڑھتا جا رہا تھا ، مگر میں اس کا اثر امتحان پر نہ پڑے اس لئے خود کے اوپر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور قریب ہی آٹو ڈرائیوروں کے ذریعے تیار کئے گئے آگ کے الاو کے پاس بیٹھ گیا ۔ ٹھنڈ میں الاو تاپنے کا بھی اپنا الگ ہی مزا ہے ۔ اس الاو کے سامنے کھڑے ہو کر گاوں کی یاد تازہ ہوگئی ،جہاں ہم پورے گھر والے ایک الاو کے ارد گرد بیٹھ جاتے ،ابو وہیں ہم بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ،وہیں خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت ، گھر یلو مسائل اور دنیا جہان کی پریشانیوں کا حل تلاش کیا جاتا ۔ابھی میں ان سوچوں میں گم ہی تھا کہ ذیشان کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔اس کے لہجے میں بڑی لجاجت تھی ، شاید اس نے میرے غصیلے طبیعت کا اندازہ لگا لیا تھا اس لئے آتے ہی کہنے لگا بھائی گالی مت دینا پیدل آ رہا ہوں۔ اسکی آواز میں کچھ ایسی لجاجت تھی کہ میں چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں کہ سکا ۔ابھی ہماری گفتگو کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ اسماء حیات بھی آ گئی ۔تھوڑی دیر کے صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ آٹو سے چلیں گے ۔ آٹو والے نے بھی آج کوئی چک چک نہ کی اور فورا میٹر سے چلنے کے لئے راضی ہو گیا ۔ ہم تینوں حیرت سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے ہوئے آٹو میں سوار ہو گئے ۔ بحث مباحثہ ،نصاب کے اعادہ اور خوش گپیوں کے درمیان ایک گھنٹے کی مسافت طئے کر کے ہم امتحان سینٹر پہنچ چکے تھے ۔ یہاں پہلے سے ہی طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ہم خود وقت سے ایک گھنٹہ قبل یہاں پہنچے تھے ۔ کسی اجنبی جگہ پر خالی وقت گذارنا کس قدر مشکل ترین ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن خدا کا شکر ہے ، یہاں پر اس کا احساس بھی نہ ہوا اور ہنسی ، مذاق لطیفوں اور شگوفوں کے درمیان وقت کب گذر گیا اندازہ ہی نہ ہوا ۔
************
ٹن ٹن ٹن ۔۔۔گھنٹی کی آواز بجی اور سب قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ سیکیوریٹی گارڈ نے سامان چیک کیا ۔سبھی نے اپنی اپنی جگہ اور رول نمبر دیکھا اور امتحان ہال میں بغیر کسی پریشانی اور دقت کے داخل ہو گئے ۔ جس اسکول میں ہمارا سینٹر پڑا ہے اس کا نام این کے بر گوڈیا پبلک اسکول ہے ۔ اسکول کافی لمبے چوڑے قطعہ آراضی پر مشتمل ہے ۔ اسکول کا انتظام و انصرام بھی کافی عمدہ ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں عموما اتنے اچھے انتظامات نہیں ہوتے ۔لیکن اس اسکول کی حالت اچھی نظر آئی ۔ صاف صفائی کے علاوہ انویجی لیٹر اور دیگر عملہ بھی کافی مددگار اور ملنسار نظر آئے جس نے مجھے کافی متاثر کیا ۔
************
پہلا پیپر آسان تھا مگر وقت کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ منطق ، ریاضیات اور فلسفہ نے کافی پریشان کیا ۔ امتحان سے قبل دسیوں پیپر حل کرنے کی پریکٹس اور ایک ایک منٹ گن گن کر کے استعمال کرنے کے باوجود کچھ سوالات چھوٹ ہی گئے ۔
************
دوسرا پیپر آسان تھا ۔ ابھی پیپر شروع کیا ہی تھا کہ کھڑکی سے باہر انتہائی اداس بانسری کی آواز سنائی دینے لگی ۔بانسری کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہوتی جاتی ہے ۔ میرا جی چاہ رہا ہے پرچہ بند کروں اور دیوانہ وار بانسری والے کے پاس پہنچ جاوں ،اور کہوں ظالم یہ تم نے کون سے لئے چھیڑ دی ہے ۔ اسے چیخ چیخ کر داد دینے کو جی چاہ رہا ہے ۔مگر میں مجبور ہوں وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری
پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں
ذہن بار بار اسی جانب منتقل ہوا جاتا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں ۔ تھوڑی دیر کے لئے قلم روک دیتاہوں ۔ سوچ رہا ہوں کیا کیا جائے ۔ مگر اب دھیرے دھیرے بانسری کی آواز کم ہونے لگی ہے ۔ دل تھوڑا ہلکا ہوا تو پیپر حل کرنے بیٹھ گیا ہوں ۔ پیپر بہت آسان ہے ، آدھا گھنٹہ پہلے ہی مکمل ہو گیا ہے ۔ لیکن پرچہ جمع کر کے باہر نہیں جا سکتے ۔ تھوڑی دیر کاغذ ، قلم ، دستانوں سے کھیلتا رہا ، پھر اچانک ایک طریقہ سوجھا ۔ بازو کا تکیہ بنایا سر ڈیسک میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ آدھے گھنٹے کی نیند بڑی خوشگوار رہی ۔
************
دوسرے پیپر کے بعدوقفہ کافی طویل تھا ۔اس وقفے میں کئی پرانے ساتھیو سے ملاقات ہوئی ۔ کوئی ممبئی سے امتحان دینے آیا تھا تو کوئی چنئی اور بنگال سے ۔ یہیں سہیل اختر قاسمی ، محمد اسد ، آکترتی سومن سے ملاقات ہوئی ۔ سہیل اخترقاسمی روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہیں ، محمد اسد ٹائمس آف انڈیا انگریزی سے ، تو آکرتی سومن ایم ٹی وی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ اسد اور آکرتی نے ملتے ہی پرانا قصہ چھیڑ دیا ۔ پرانی یاد یں ، پڑھائی ، لڑائی ،آنکھ مچولی ، ہنسی مذاق دیر تک کئی واقعات کو یاد کر کے ہنستے اور محظوظ ہوتے رہے ۔مل جل کر سب نے کھانا کھایا، چائے پی اور پھر تیسرے پیپر کے لئے اپنے اپنے ہال کی راہ لی ۔
************
تیسرا پیپر بھی کافی آسان ہے ، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی پیپر حل ہو چکا ہے ۔ انویجیلیٹر وقت مکمل ہونے کے بعد ہی کاپی جمع کرنے کا کہہ رہی ہے ۔ اتنا طویل وقت گذارنا میرے لئے بہت مشکل ہے ۔ بلیک بورڈ ، ٹیبل ، کرسی ، میز اور پنکھوں سے یونہی سرگوشی کرتے کرتے آدھا گھنٹہ کسی طرح گذار چکا ہوں ۔ اب بھی ایک گھنٹہ باقی بچا ہوا ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی نے گھڑی کی سوئیوں کو تھام لیا ہے یا پھر گھڑی گھنٹوں چلتے چلتے ٹُک دم لینے کو ٹھہر گئی ہے ۔ اچانک خیال آیا ، ڈائری لکھنی چاہئے ۔ مگر کاغذ کہاں سے لایا جائے ۔ آخر اس کا بھی انتظام ہو گیا ،سوال میں رف ورک کے لئے دئے گئے کاغذ میں لکھنا شروع کر دیا ۔ اب وقت ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اور میں اب بھی وقت کاٹنے کے لئے یونہی قلم گھسیٹ رہا ہوں ۔
شام چار بجکر پچیس منٹ
این کے بگروڈیا پبلک اسکول ، اہنسا مارگ ، روہنی نئی دہلی
 
من و عن
امتحان ہال میں لکھی گئی ڈائری
محمد علم اللہ
۲۲ جنوری ۲۰۱۷
صبح جلدی اٹھنے کی بات ہی الگ ہے ۔آج کا دن بڑا پر لطف گذرا ۔ رات نیند بھی تو نہیں آئی تھی ۔دیر گئے رات تک زبردستی جاگتے رہے ۔رات کے کس پہر آنکھ لگی معلوم نہیں ۔ بیدار ہوا تو صبح کے چھہ بج رہے تھے ۔سینٹر کی دوری کا خیال آتے ہی فورا رضائی پھینکا اور جلدی جلدی نہا دھو کر فارغ ہوا ۔ نماز فجر کے بعد احباب کو فون کر کے جگانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ابھی وقت کافی تھااس لئے رہائش گاہ سے بس اسٹاپ کے لئے پیدل ہی نکلنے کا ارادہ کیا ۔ ابھی کمرے سے باہر قدم ہی نکالا تھا کہ ابصار احمد جو کہ میرے عزیز دوست اور بھائی کی طرح ہیں نے لنچ باکس بیگ میں ڈالتے ہوئے کہنے لگا یہ رکھ لو وہاں کھانا نہیں ملے گا ۔ اتنی صبح اٹھنا ، کھانا بنانا وہ بھی ہم جیسے کنواروں کے لئے کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ ابصار کے اس خلوص کے بارے ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے صاف پانی کا ایک باٹل بھی میرے بیگ میں کہتے ہوئے ڈالنے لگا کہ پتہ نہیں وہاں پانی ملے یا نہیں اس لئے یہ رکھ لو ۔ اس خلوص کی انتہا کہاں ہوگی مجھے معلوم نہیں تھا ابھی دہلیز سے چند قدم ہی باہر نکالاتھا کہ اس نے پھر آواز دیا یہ کومبی فلام کی گولیاں ہیں اسے بھی رکھ لو کیا پتہ سر وغیرہ میں درد ہو تو کھا لینا ۔میں اپنے دوست کے احسان اور خلوص تلے دبتا جا رہا تھا کہ اس نے سیاہ رنگ کا ایک قلم بھی مجھے دیا یہ تمہارے لئے منگوایا تھا رکھ لو ،میں لاکھ کہتا رہا میرے پاس ہے مگر جناب کہاں ماننے والے تھے زبردستی میرے جیب میں ٹھونس دیا ۔میں اپنے دوست کا میرے لئے اس قدر اہتمام اور خلوص سے اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کر سکا ، اور ٹپ ٹپ میرے آنکھوں سے آنکھوں بہنے لگے ۔ دل ہی دل میں خدا سے دعا کیا ’’خدایا اس محبت کو برقرار رکھیو اور کبھی میری جانب سے ایسی دوستی کا امتحان ہو تو اس میں مجھے کامیاب رکھیو ۔
************
برادرم نیر اعظم ، ذیشان حیدر نقوی اور ریسرچ اسکالر اسماء حیات سے رات ہی بات ہو چکی تھی ،ہم چاروں کا سینٹر ایک ہی جگہ پڑا تھا اس لئے بس اسٹاپ پر ہی ساڑھے چھہ بجے تک پہنچ جانے کا منصوبہ بنا لیا گیا تھا ۔ مگر میں جب بس اسٹاپ پر پہنچا توتینوں میں سے کوئی بھی جائے متعینہ پر نظر نہیں آیا ۔ فون کیا تو کسی نے کہا ’’ میں بس نکلنے والا ہوں ‘‘تو کسی نے ’’ مزید انتظار کی دہائی دی ‘‘تو ایک نے فون ہی ریسیو نہ کیا ۔دل میں یہ کھٹکا لگا رہا کہ وہ کہیں سو نہ گیا مگر جلد ہی اس کا بھی فون آیا اور اس نے تھوڑی تاخیر ہوجانے کے اندیشے کا اظہار کیا ۔ میرا غصہ بڑھتا جا رہا تھا ، مگر میں اس کا اثر امتحان پر نہ پڑے اس لئے خود کے اوپر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور قریب ہی آٹو ڈرائیوروں کے ذریعے تیار کئے گئے آگ کے الاو کے پاس بیٹھ گیا ۔ ٹھنڈ میں الاو تاپنے کا بھی اپنا الگ ہی مزا ہے ۔ اس الاو کے سامنے کھڑے ہو کر گاوں کی یاد تازہ ہوگئی ،جہاں ہم پورے گھر والے ایک الاو کے ارد گرد بیٹھ جاتے ،ابو وہیں ہم بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ،وہیں خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت ، گھر یلو مسائل اور دنیا جہان کی پریشانیوں کا حل تلاش کیا جاتا ۔ابھی میں ان سوچوں میں گم ہی تھا کہ ذیشان کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔اس کے لہجے میں بڑی لجاجت تھی ، شاید اس نے میرے غصیلے طبیعت کا اندازہ لگا لیا تھا اس لئے آتے ہی کہنے لگا بھائی گالی مت دینا پیدل آ رہا ہوں۔ اسکی آواز میں کچھ ایسی لجاجت تھی کہ میں چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں کہ سکا ۔ابھی ہماری گفتگو کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ اسماء حیات بھی آ گئی ۔تھوڑی دیر کے صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ آٹو سے چلیں گے ۔ آٹو والے نے بھی آج کوئی چک چک نہ کی اور فورا میٹر سے چلنے کے لئے راضی ہو گیا ۔ ہم تینوں حیرت سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے ہوئے آٹو میں سوار ہو گئے ۔ بحث مباحثہ ،نصاب کے اعادہ اور خوش گپیوں کے درمیان ایک گھنٹے کی مسافت طئے کر کے ہم امتحان سینٹر پہنچ چکے تھے ۔ یہاں پہلے سے ہی طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ہم خود وقت سے ایک گھنٹہ قبل یہاں پہنچے تھے ۔ کسی اجنبی جگہ پر خالی وقت گذارنا کس قدر مشکل ترین ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن خدا کا شکر ہے ، یہاں پر اس کا احساس بھی نہ ہوا اور ہنسی ، مذاق لطیفوں اور شگوفوں کے درمیان وقت کب گذر گیا اندازہ ہی نہ ہوا ۔
************
ٹن ٹن ٹن ۔۔۔گھنٹی کی آواز بجی اور سب قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ سیکیوریٹی گارڈ نے سامان چیک کیا ۔سبھی نے اپنی اپنی جگہ اور رول نمبر دیکھا اور امتحان ہال میں بغیر کسی پریشانی اور دقت کے داخل ہو گئے ۔ جس اسکول میں ہمارا سینٹر پڑا ہے اس کا نام این کے بر گوڈیا پبلک اسکول ہے ۔ اسکول کافی لمبے چوڑے قطعہ آراضی پر مشتمل ہے ۔ اسکول کا انتظام و انصرام بھی کافی عمدہ ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں عموما اتنے اچھے انتظامات نہیں ہوتے ۔لیکن اس اسکول کی حالت اچھی نظر آئی ۔ صاف صفائی کے علاوہ انویجی لیٹر اور دیگر عملہ بھی کافی مددگار اور ملنسار نظر آئے جس نے مجھے کافی متاثر کیا ۔
************
پہلا پیپر آسان تھا مگر وقت کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ منطق ، ریاضیات اور فلسفہ نے کافی پریشان کیا ۔ امتحان سے قبل دسیوں پیپر حل کرنے کی پریکٹس اور ایک ایک منٹ گن گن کر کے استعمال کرنے کے باوجود کچھ سوالات چھوٹ ہی گئے ۔
************
دوسرا پیپر آسان تھا ۔ ابھی پیپر شروع کیا ہی تھا کہ کھڑکی سے باہر انتہائی اداس بانسری کی آواز سنائی دینے لگی ۔بانسری کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہوتی جاتی ہے ۔ میرا جی چاہ رہا ہے پرچہ بند کروں اور دیوانہ وار بانسری والے کے پاس پہنچ جاوں ،اور کہوں ظالم یہ تم نے کون سے لئے چھیڑ دی ہے ۔ اسے چیخ چیخ کر داد دینے کو جی چاہ رہا ہے ۔مگر میں مجبور ہوں وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری
پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں
ذہن بار بار اسی جانب منتقل ہوا جاتا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں ۔ تھوڑی دیر کے لئے قلم روک دیتاہوں ۔ سوچ رہا ہوں کیا کیا جائے ۔ مگر اب دھیرے دھیرے بانسری کی آواز کم ہونے لگی ہے ۔ دل تھوڑا ہلکا ہوا تو پیپر حل کرنے بیٹھ گیا ہوں ۔ پیپر بہت آسان ہے ، آدھا گھنٹہ پہلے ہی مکمل ہو گیا ہے ۔ لیکن پرچہ جمع کر کے باہر نہیں جا سکتے ۔ تھوڑی دیر کاغذ ، قلم ، دستانوں سے کھیلتا رہا ، پھر اچانک ایک طریقہ سوجھا ۔ بازو کا تکیہ بنایا سر ڈیسک میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ آدھے گھنٹے کی نیند بڑی خوشگوار رہی ۔
************
دوسرے پیپر کے بعدوقفہ کافی طویل تھا ۔اس وقفے میں کئی پرانے ساتھیو سے ملاقات ہوئی ۔ کوئی ممبئی سے امتحان دینے آیا تھا تو کوئی چنئی اور بنگال سے ۔ یہیں سہیل اختر قاسمی ، محمد اسد ، آکترتی سومن سے ملاقات ہوئی ۔ سہیل اخترقاسمی روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہیں ، محمد اسد ٹائمس آف انڈیا انگریزی سے ، تو آکرتی سومن ایم ٹی وی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ اسد اور آکرتی نے ملتے ہی پرانا قصہ چھیڑ دیا ۔ پرانی یاد یں ، پڑھائی ، لڑائی ،آنکھ مچولی ، ہنسی مذاق دیر تک کئی واقعات کو یاد کر کے ہنستے اور محظوظ ہوتے رہے ۔مل جل کر سب نے کھانا کھایا، چائے پی اور پھر تیسرے پیپر کے لئے اپنے اپنے ہال کی راہ لی ۔
************
تیسرا پیپر بھی کافی آسان ہے ، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی پیپر حل ہو چکا ہے ۔ انویجیلیٹر وقت مکمل ہونے کے بعد ہی کاپی جمع کرنے کا کہہ رہی ہے ۔ اتنا طویل وقت گذارنا میرے لئے بہت مشکل ہے ۔ بلیک بورڈ ، ٹیبل ، کرسی ، میز اور پنکھوں سے یونہی سرگوشی کرتے کرتے آدھا گھنٹہ کسی طرح گذار چکا ہوں ۔ اب بھی ایک گھنٹہ باقی بچا ہوا ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی نے گھڑی کی سوئیوں کو تھام لیا ہے یا پھر گھڑی گھنٹوں چلتے چلتے ٹُک دم لینے کو ٹھہر گئی ہے ۔ اچانک خیال آیا ، ڈائری لکھنی چاہئے ۔ مگر کاغذ کہاں سے لایا جائے ۔ آخر اس کا بھی انتظام ہو گیا ،سوال میں رف ورک کے لئے دئے گئے کاغذ میں لکھنا شروع کر دیا ۔ اب وقت ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اور میں اب بھی وقت کاٹنے کے لئے یونہی قلم گھسیٹ رہا ہوں ۔
شام چار بجکر پچیس منٹ
این کے بگروڈیا پبلک اسکول ، اہنسا مارگ ، روہنی نئی دہلی
شکریہ سعدیہ جی
 
Top