امام ساموری توری

ربیع م

محفلین
امام ساموری توری


Almamy_Samory_Touré by Badr Fat, on Flickr
اہل افریقہ یورپین کی آمد سے قبل پس ماندہ ، اور غیرترقی یافتہ نہ تھے ، بلکہ وہاں بڑی باشعور اقوام بستی تھیں جنہوں نے تہذیبیں اور مملکتیں قائم کیں ، لیکن استعمار بڑی مہارت سے ان کی پردہ پوشی میں کامیاب ٹھہرا ، بلکہ انھوں نے ہمیشہ اسے پس ماندہ براعظم کے طور پر یاد کیا اور اپنی فلموں کتابوں کے ذریعے اذہان میں یہ بات راسخ کر دی کہ افریقہ غیرمہذب تاریکی میں ڈوبا براعظم تھا ، جہاں وحشی آدمخوروں کی ٹولیاں بستی تھیں جو صحراؤں اور جنگلوں میں گھومتی پھرتیں۔
حالانکہ کہ یورپی قابضین نے جب افریقہ پر اپنے قدم جمانے شروع کئے تو نہ ہی وہ تاریک براعظم تھا اور نہ ہی اس کا باشندے اس قدر پسماندہ کہ استعماری قوتوں کو مٹھی بھر اناج یا میٹھی چیزوں کیلئے خوش آمدید کہتی پھریں ،بلکہ وہ عظیم تہذیبوں کے مالک اور اعلی ٰ اقدار کے حامل تھے ، جنہیں یورپی استعمار نے اپنے اسلحہ کے زور پر اپنی غلامی پر مجبور کیا ۔
انھیں میں سے ایک مملکت "ماندنجو " ہے جس کے موسس اور قائد امام ساموری توری تھے ۔
یہ امام مجاہد ساموری توری افریقی مسلمانوں کے زعماء میں سے ایک ،جنہوں نے مغربی افریقہ میں استعمار کی آمد سے قبل اور بعد میں اہم کردار ادا کیا ،
ساموری " کنکان " کے جنوب مشرق میں ساندکورو ( حالیہ جمہوریہ گنی ) میں پیدا ہوئے ، تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے لیکن راجح یہی ہے کہ 1830 سے 1835 کے درمیان پیدا ہوئے ، ساموری نے بچپن میں اپنے والد" لافیا توری" سے دینی تعلیم حاصل کی ، اور مرابطین کے ہاتھوں اپنی تعلیم مکمل کی ، مرابط شیخ نے اس نوجوان کی سوچ اور نفسیات پر گہرا اثر مرتب کیا اور شاید تب ہی انھوں نے یہ طے کر لیا ہو کہ اگر حالات ان کا ساتھ دیں تو مرابطین کی طرز پر ایک مملکت قائم کریں گے ۔
جب ان کی عمر 18 سال ہو ئی تو والد نے اپنے دوست کے پاس ساحل عاج بھیجا تاکہ وہاں سے اسلحہ کی تجارت سیکھ سکے اس دوران ساموری نے اسلحہ کے حصول کی جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔اس دوران انھوں نے مغربی افریقہ کے مختلف علاقوں کی جانب سفر کیا اور وہاں کے قبائل اور معاشرتی نظام کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔
1852 ء میں بیساندوغو کے بت پرست بادشاہ "سیزی "نے ان کی والدہ کو گرفتار کرلیا ، یہ خبر سنتے ہی وہ اپنی والدہ کو قید سے چھڑوانے کا طریقہ سوچنے لگے ، والدہ کی رہائی کیلئے ان پر لازم تھا کہ وہ سات سال " سیزی " کے لشکر میں خدمات سرانجام دیں چنانچہ انھوں نے اسے قبول کیا ، اس مرحلے کے دوران انھوں نے سفارتکاری ، قیادت ، حملہ اور جنگی فنون پر تربیت حاصل کی ، چنانچہ وہ ماندنجو قبائل پر مشتمل اسلامی مملکت قائم کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ، جس کو اپنی سیادت میں متحد کرنے میں وہ کامیاب رہے ۔

مملکت کے قیام کی جانب سفر :
الحاج عمر بن سعید تال ان زعماء میں سے ہیں جن سے ساموری توری متاثر تھے ، آپ مغربی افریقہ کے نمایاں علماء اور مجاہدین میں سے ایک تھے ، جن کا اس خطے کی تاریخ میں نمایاں کردار تھا ، الحاج عمر نے بڑے پیمانے پر ایک اصلاح تحریک کھڑی کی تھی جس کا مقصد اسلام کی نشرواشاعت جہاد کی روح کو زندہ کرنا تھا انھوں نے دریائے سینگال اور نائجر کے درمیانی وسیع وعریض علاقوں میں اپنے کام کو پھیلایا تھا۔
الحاج عمر کا مملکت کے قیام کے بارے میں خواب مندرجہ محوروں پر قائم تھا :

  • مغربی افریقہ میں نصاریٰ کے استعماری کردار کو ختم کرنا ، کیونکہ یورپین اس علاقے کے لوگوں سے تجارت کرتے ، اپنا سیاسی اور اقتصادی نفوذ پھیلانے اور بعض اوقات نصرانیت ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ۔
  • غیرمسلم علاقوں میں اسلام کی نشرواشاعت ، مسلمانوں کے عقائد کی تصحیح اور اس میں موجود مغربی آلائشوں سے اس کی پاکی
  • الحاج عمر کےنزدیک ایک ایسی منظم مملکت ضروری تھی جو اس علاقے میں اسلامی مفادات کا دفاع کر سکے اور مسلمانوں کے مصالح کا تحفظ کر سکے ۔
اسلامی مملکت کے بارے میں اس وسیع سوچ کو لے کر ساموری نے ماندنجو قبائل پر مشتمل ایک مملکت کے قیام کا ارادہ کیا ، اس کے لئے ابتداء میں ساموری نے ایک چھوٹی سی جماعت بنائی جس کے وہ خود قائد تھے ،اپنے ساتھیوں کو فنون قتال پر تربیت دینے لگے انھیں مسلح کیا اور اپنے نفوذی علاقوں کو پھیلانا شروع کیا۔
1874 انھوں نے بتدریج اپنے مرکز کے اردگرد کی بستیوں پر اپنا اثرونفوذ پھیلانا شروع کیا ، " کانکان " شہر کے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا ، اس طرح سے قبائل کی بہت جماعتوں کو ہزیمت سے دوچا ر کیا ، ان کا تسلط تمام " فوتا جالون " پر قائم ہو گیا ، اپنے مقابل تمام قوتوں کو توڑنے میں کامیاب ہوئے اور اس اسلامی مملکت کے سب سے بڑے قائد بن کر ابھرے ۔
25 جولائی1884 ساموری توری نے اپنے اہل وعیال اور قبیلہ کو ایک مجلس میں مدعو کیا اور ان کے سامنے اعلان کیا کہ وہ اپنے لئے امام کا لقب اختیار کررہے ہیں اور اپنے قبیلے اور رعایا سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں ، اپنی مملکت میں شراب پینے اور خرید وفروخت پر پابندی عائد کردی ، بت پرست رواج وعادات پر پابندی عائد کردی اور شریعت اسلامی کا نفاذ کیا ۔

ساموری کی مملکت کو 3 مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے :
  • پہلا مرحلہ : جس میں ایک نئے معاشرے اور نئی مملکت کی تعمیر کی گئی یہ 1884 سے قبل کا مرحلہ ہے ۔
  • دوسرا مرحلہ :1885 -1888:اس مرحلے میں مملکت کو دینی رنگ میں رنگا گیا ، ساموری نے بت پرستوں کے درمیان اسلام پھیلانے کیلئے جہاد کا اعلان کیا ، تحفیظ القرآن کے بہت سے مدارس کھولے اور مساجد کی تعمیر کی۔
  • تیسرا اور آخری مرحلہ : یہ 1889 سے 1898 تک محیط ہے اس دوران عسکری رنگ نمایاں رہا۔
ساموری ان تینوں مراحل کے دوران فرانسیسیوں سے ٹکراتے رہے ، لیکن اس ٹکراؤ کی حدت ہر مرحلہ میں مختلف رہی ۔
ماندنجو سلطنت 162 صوبوں پر مشتمل تھی ، ہر صوبے میں 20 بستیاں تھیں ساموری توری نے ہر بستی کے سردار پر لازم کر رکھا تھا کہ وہ بھرتی کے لائق نوجوانوں کے مجموعے کو لے کر آئیں ۔ساموری کی فوج تین حصوں پر مشتمل تھی :

  • سب سے مضبوط حصہ فرانسیسیوں سے برسرپیکار رہتا تھا تاکہ انھیں اپنے علاقوں میں دخل اندازی سے روک سکیں ۔
  • دوسرا حصہ علاقوں میں امن وامان کی حفاظت کیلئے ۔
  • تیسرا حصہ بت پرستی کے خاتمہ اور اسلام کی نشرواشاعت اور نئی فتوحات اور توسیع کیلئے
فرانس کے خلاف جنگیں :
فرانس نے مغربی افریقہ میں اپنی توسیعی پالیسی جاری رکھی تاکہ روسیوں کے ہاتھوں اپنی ہزیمت کے بعد کھوئی ہوئی ہیبت بحال کرسکے ، اسی طرح برلن کانفرنس 1884ء کی قرار داد جس نے یورپی قابضوں کو براعظم افریقہ میں کھلی چھوٹ دے دی ، اس کیلئے ایک اور محرک تھی۔
فرانسیسی دریائے نائیجر کے اردگرد کے تمام علاقوں پر قبضہ کرنے کا عہد کرچکے تھے ،اللہ رب العزت نے ان کے مقابلے میں اس عظیم قائد ساموری توری کو کھڑا کیا جس نے انھیں ناقابل یقین حدتک نقصانات سے دوچار کیا ، یہاں تک کہ ایک فرانسیسی سالار Peroz نے انھیں سوڈان کے نپولین کا لقب دیا ، وہ اپنے معمولی اور سادہ اسلحہ کے ساتھ فرانس جیسی قوت کے سامنے 20 سال تک دیوار بنے رہے ۔
ساموری توری نے دریائے نائیجر کے دائیں کنارے کو اپنی عسکری سرگرمیوں کا مرکز بنایا ، ایسی بستیاں جو کہ گھوڑوں اور نمک سے مالا مال تھیں اور وہاں ایک چھوٹے شہر " بیساندوجو"
Bissandougou کو اپنی مملکت کا دارلحکومت بن کر جہاد فی سبیل اللہ پر مملکت کی بنیاد رکھی ۔
اور جیسا کہ یہ معمول ہے کہ ہماری ہزیمت کا سبب ہمیشہ اندرونی خیانت ہوتی ہے ، امام کو بھی خیانت کے باعث ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ، ایک مسلم دشمن تیبا Tieba جو کہ "کندوجو" kenedougou کا حاکم تھا ان کیلئے آزمائش بن گیا ، جس نے ساموری کے خلاف فرانسیسیوں کی دل کھول کر مدد کی ، فرانسیسی جب ان پر ایک جانب سے حملہ کرتے تیبا دوسری جانب سے حملہ آور ہوتا اور امام چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس جاتے ، یہاں تک کہ وہ فرانسیسیوں سے صلح پر مجبور ہوئے ، جس کے نتیجے میں ان کی سپاہ دریائے نائیجر کے بائیں کنارے سے نکل آئی اور اس پر فرانسیسی قبضہ تسلیم کرلیا ، اس کے مقابل فرانس نے دریا کے دائیں کنارے پر ان کی مملکت تسلیم کر لی ۔
اس معاہدہ کے بعد ساموری توری نے اپنے دشمن تیبا کی جانب توجہ دی اور چھ ماہ تک اس کے دارلحکومت "سیکاسو" میں اس کا محاصرہ کئے رکھا لیکن اس کی فتح میں ناکام رہے
اس علاقے میں فرانسیسی فوج کی قیادت اسلام اور مسلمانوں سے شدید عداوت رکھنے والے جنرل ارشنارڈ Louis Archinard نے سنبھال لی ، جس نے ساموری پر 1889 میں ایک اور معاہدہ مسلط کیا جس کے نتیجے میں ساموری کو اپنی کچھ اراضی سے ہاتھ دھونے پڑے اور انھوں نے فرانس کے زیرقبضہ علاقوں پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا ، ساموری توری نے اس معاہدے کو قبول کیا کیونکہ وہ اس وقت کمزور حالت میں تھے اور فرانسیسیوں سے ٹکراؤ نہیں چاہتے تھے۔

فرانسیسی سالار نے تیبا کو امام کے ساتھ اپنی جاری جنگ میں دوبار استعمال کرنے کی کوشش کی ، بالخصوص جب تبیا نے اسے خط لکھ کر کہا : مجھے پورا یقین ہے کہ اہل علاقہ تمہارا کشادہ دلی سے استقبال کریں گے ، وہ تم سے ہرگزخوفزدہ نہیں ہوں گے ، اور نہ ہی تمہارے حملوں سے ڈریں ، تمہارے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہو جائے گی اور جب وہ تمہیں اچھی طرح سمجھ لیں گے اور تمہارے مقاصد کا ادارک کرلیں گے تو ان کی ناپسندیدگی ختم ہو جائے گی ۔
ارشنارڈ نے مختلف وسائل استعمال کرکے ساموری توری کو اپنے دام میں لانے کی کوشش کی ، مختلف تجاویز پیش کیں ، پیشکشیں کیں ، لیکن امام انتہائی بیدار مغز تھے انھوں نے ان سب چالوں کو اسی حقارت سے رد کیا جس کی وہ مستحق تھیں ۔
ارشنارڈ ساموری توری کے دوشہروں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ، یہ کانکا ن اور بیساندوجو تھے لیکن جب وہ ان شہروں میں داخل ہوا تو انھیں راکھ کے ڈھیر پایا ، امام نے انھیں جلا کر راکھ کر دیا تھا تاکہ ان سے کوئی استفادہ نہ حاصل کرسکے ۔

فرانسیسی ساموری کی مملکت کو " متحرک سلطنت " کا نام دیتے تھے کیونکہ جب بھی وہ اپنی مملکت کا کوئی حصہ کھوتے اس کے بدلے ہمسایہ بت پرست ممالک کے حصے پر قبضہ کرلیتے گویا انھوں نے کچھ علاقہ بھی نہ کھویا ہو محض اپنی مملکت کی سرحدیں بدلی ہوں ، اس طرح سے یہ مجاہد امام فرانسیسیوں کے گلے کا کانٹا بن گئے ، انھیں ہولناک خسارے سے دوچار کیا ، اپنی ہزیمت کے باوجو د انھیں یہی شرف کافی ہے کہ انھوں نے ایک مملکت قائم کی ، اسلام پھیلایا ، بت پرستی کے خلاف جنگ کی ، اپنے وقت کی عظیم قوت اور مملکت کے خلاف کھڑے ہوئے ، اسے بارہا شکستوں سے دوچار کیا ، ماندیجو قوم کو جو کہ بکھرے ہوئے قبائل اور خاندانوں پر مشتمل تھی متحد کیا ۔
حکومت فرانس نے ارشینار کو تبدیل کر کے اس کی جگہ دوسرے جنرل بونییر Bonnerr کو بھیجا تاکہ وہ ساموری کی اس طویل عرصہ سے جاری مزاحمت کا خاتمہ کر سکے ، اس نئے حاکم نے مونٹیل کی قیادت میں ایک حملہ منظم کیا لیکن امام کی سپاہ کے سامنے اسے شرمناک ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ، فرانسیسی سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد گرفتار ہوئی ، فرانس نے ایک اور مہم کا آغاز کیا لیکن اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، مجبورا فرانس کو صلح کرنی پڑی ، اور سنگال کے حاکم کو بھیجا گیا تاکہ وہ امام کے ساتھ صلح کا معاہدہ قائم کرسکے جسے امام نے آرام ،تیاری اور بت پرستوں کے درمیان اسلام کی اشاعت کیلئے قبول کر لیا۔ لیکن فرانسیسیوں نے اس معاہدہ کے بعد حیلے بازی اور دھوکے کے ذریعے اس معاہدے کو توڑ دیا ، جولائی 1898 میں فرانسیسی سالار Lartigue نے امام کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا ، امام سے اس جنگ میں غلطی ہوئی اور انھوں نے مغر ب کی جانب پیش قدمی اور بارشوں کے موسم میں استوائی جنگلات اور پہاڑی سلسلے میں داخل ہوگئے ، جس کے نتیجے میں سپاہ کو قحط اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بکھر کر رہ گئے اور اس کے بعد جمع نہ ہوسکے ۔
ساموری نے " ساننکور " لوٹنا چاہا لیکن فرانسیسیوں نے شرط عائد کی کہ وہ اپنے بیٹوں کو گروی رکھیں اور اپنا اسلحہ ان کے حوالے کریں ، امام نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جنگ جاری رکھی یہاں تک کہ دھوکے سے انھیں گرفتا ر کر لیا گیا اور جزیرہ Ougoue یا کچھ کے نزدیک جابون کی جانب انھیں جلاوطن کر دیا گیا ، جہاں 1900 ء میں ان کی وفات ہوئی ۔ فرانس نے اس ناگہانی کامیابی کے بعد مغربی افریقہ میں اپنے قدم جما لئے ۔
امام کے بعد احمد سیکوتوری نے مزاحمت کی قیادت سنبھالے رکھی ، اور اس طرح وہ گینیا کی 1958 میں آزادی کے بعد پہلے صدر بنے ۔
جبکہ ان کے دشمن تیبا کے علاقے پر فرانس نے قبضہ کر لیا ہر خائن آلہ کار کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
اس مجاہد امام کی عظمت کے واقعات میں سے ایک یہ کہ فرانسیسیوں نے اس کے بیٹے کو اغوا کیا اور اس کے بدلے سودا بازی کرنے کی کوشش کی جسے انھوں نے قبول نہ کیا ، فرانسیسیوں نے اسے 6 سال اپنے پاس رکھا اس پر اثرانداز ہو کر اس کے افکار میں تبدیلی کر کے اپنے باپ کے منہج کے بالکل مخالف کر دیا اس کے بعد اسے اپنے باپ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں ترک جہاد پر قائل کرسکے ۔ امام ساموری نے جب دیکھا کہ ان کا بیٹا ان کی جہادی تحریک میں رکاوٹ بن رہا ہے تو اسے لوگوں کے سامنے قتل کرکے نشان عبرت بنایا۔
یہ سرزمین اس کے بیٹوں نے اتنی آسانی سے نہیں کھوئی اور نہ ہی اتنی آسانی سے اس کی واپسی ممکن ہوئی بلکہ دونوں حالتوں میں قیمت اس کے بیٹوں نے اپنے خون سے زمیں کو سیراب کرکے چکائی ، لیکن اس ساری قربانیوں اور خون بہانے کے بعد بھی محض نام کی آزادی تھی ، استعمار نے اس خبیث پروپیگنڈہ کو رائج کیا کہ اہل افریقہ آزاد زندگی گزار ہی نہیں سکتے ، غلامی افریقہ کی امتیازی حالت ہے جو سفید فاموں کے سیاہ فاموں کے براعظم پر آنے سے قبل سے ہی پائی جاتی تھی ، اور پانچ صدیوں سے انھیں غلام بنا کر جہازوں میں بھر کے لے جانے کا سلسلہ محض انھیں اس پسماندگی سے آزادی دلانے کیلئے تھا۔

اردو استفادہ از:
https://ar.wikipedia.org/wiki/ساموري_توري


الإمام المجاهد ساموري توري

الإمام البطل ساموري توري
 
مدیر کی آخری تدوین:
اور جیسا کہ یہ معمول ہے کہ ہماری ہزیمت کا سبب ہمیشہ اندرونی خیانت ہوتی ہے
امت کا فتنہ مال ہے۔
استعمار نے اس خبیث پروپیگنڈہ کو رائج کیا کہ اہل افریقہ آزاد زندگی گزار ہی نہیں سکتے ، غلامی افریقہ کی امتیازی حالت ہے
الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top