امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات
بے چین دلوں کے چین، رحمتِ دارَین، تاجدارِ دارَین، سروَرِ کونَین، نانائے حسنین ﷺ و رضی اللہ عنہما کا فرمانِ رحمت نشان ہے: جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیجتا ہے جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتےہیں وہ لکھتے ہیں کہ کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ (کنز العمال ج۱ حدیث۲۱۷۴)
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علیٰ محمد
ولادتِ با کرامت:
راکبِ دوشِ مصطفیٰ ﷺ، جگر گوشہ مرتضیٰ، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سید الشھداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتی کہ آپ کی ولاد با سعادت بھی با کرامت ہے۔ حضرت سیدی عارف باللہ نورُ الدّین جامی قدس سرہ السامی "شواہد النبوۃ" میں فرماتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت چار شعبان المعظم ۴؁ ھ کو مدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں منگل کے دن ہوئی۔ منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھے ماہ ہے۔ حضرت سیدنا یحیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھے ماہ ہوئی ہو۔
و اللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
(شواہد النبوۃ، ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)​
مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں سیدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں
واہ قسمت کہ چراغِ حرَمین آئے ہیں اے مسلمانو! مبارک کہ حسین آئے ہیں
رُخسار سے انوار کا اظہار
حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو اآپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے۔ (ایضا ص ۲۲۸)
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
 

مغزل

محفلین
جزاک اللہ شکیل صاحب۔
مالک ومولیٰ دینوی دنیاوی اور اخروی فلاح سے ہمکنار فرمائے ۔ آمین
 
کنویں کا پانی اُبل پڑا!
حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حُسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ (زادھما اللہ شرفا و تعظیما) کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابنِ مُطیع علیہ رحمۃ اللہ البدیع سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے عرض کی میرے کنویں میں پانی بہت ہی کم ہے، برائے کرم! دُعائے بَرَکت سے نواز دیجئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُس کنویں کا پانی طلب فرمایا۔ جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اُس میں سے پانی نوش کیا اور کُلّی کی۔ پھر ڈول کو واپَس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔ (الطبقات الکبریٰ ج۵ ص۱۱۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)


باغ جنت کے ہیں بَہر مَدْح خوانِ اہلبیت (رضی اللہ عنہم)
تم کو مژ دہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت
 
گھوڑے نے بد لگام کو آگ میں ڈال دیا
امامِ عالی مقام، امامِ عرش مقام، امامِ ہُمام ، امامِ تِشنہ کام، حضرتِ سیدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یومِ عاشُورا یعنی بروز جُمُعَۃُ المبارَک ۱۰ مُحَرَّمُ الحرام ۶۱؁ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت کرنے کیلئے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے مظلوم قافلے کے خیموں کی حفاظت کے لئے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زبان یزیدی (مالک بن عُروہ) اِس طرح بکواس کرنے لگا، ’’ اے حسین! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!‘‘ حضرت سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کَذَبتَ یا عَدُوَّ اللہ یعنی اے دشمنِ خدا! تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ معاذ اللہ عزوجل میں دوزخ میں جاؤں گا!‘‘ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قافلے کے ایک جاں نثار جوان حضرت سیدنا مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے اُس منہ پھٹ بدلگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت امام علی مقام رضی اللہ عنہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حملے کا آغاز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر امامِ تِشنہ کام رضی اللہ عنہ نے دستِ دُعا بلند کر کے عرض کی: اے ربِ قہار! عزوجل اس نابَکار کو عذابِ نار سے قبل بھی اس دنیائے ناپائیدار میں آگے کے عذاب میں مبتلا فرما۔‘‘ فوراً دعا مستجاب (قبول) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤۢں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا، اُس کا پاؤۢں رَکاب میں اُلجھا، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ اور بد نصیب آگ میں جل کر بھسم ہو گیا۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے سجدہ شکر ادا کیا، حمد الٰہی بجا لائے اور عرض کی: یا اللہ عزوجل تیرا شکر ہے کہ تُو نے آلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی۔‘‘ (سوانحِ کربلا ص۸۸)
اہلبیتِ پاک سے بے باکیاں گستاخیاں
لَعنَۃُ اللہِ علیکم دشمنانِ اہلبیت
 
سیاہ بچھو نے ڈنک مارا
گستاخ و بدلگام یزیدی کا ہاتھوں ہاتھ بھیانک انجام دیکھ کر بھی بجائے عبرت حاصل کرنے کے اِس کو ایک اتفاقی امر سمجھتے ہوئے ایک بے باک یزیدی نے بکا: آپ کو اللہ کے رسول ﷺ سے کیا نسبت؟ یہ سن کر قلبِ امام کو سخت ایذا پہنچی اور تڑپ کر دُعاء مانگی: "اے ربِ جبار عزوجل اِس بدگفتار کو اپنے عذاب میں گرفتار فرما۔" دعا کا اثر ہاتھوں ہاتھ ظاہر ہوا اُس بکواسی کو ایک دم قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی فوراً گھوڑےس اُتر کو ایک طرف کو بھاگا اور برہنہ ہو کر بیٹھا، ناگاہ ایک سیاہ بچھو نے ڈنک مارا نجاست آلودہ تڑپتا پھرتا تھا، نہایت ہی ذلت کے ساتھ اپنے لشکریوں کے سامنے اِس بدزبان کی جان نکلی۔ مگر ان سنگ دلوں اور بے شرموں کو عبرت نہ ہوئی اِس واقِعہ کو بھی ان لوگوںنے اتفاقی امر سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ (سوانحِ کربلا ص۸۹)

؎علی کے پیارے خاتونِ قیامت کے جگر پارے
زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی
 
5۔گستاخِ حُسین پیاسا مرا
یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یوں بکنے لگا: " دیکھو تو سہی دریائے فُرات کیسا موجیں مار رہا ہے، خدا کی قسم تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے۔" امامِ تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رب الانام عزوجل میں عرض کی، اللہم امتہ عطشانا۔ یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعا مانگتے ہی اس بے حیا مزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا مزنی پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا، پیاس کا غلبہ ہوا اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش! العطش! یعنی ہائے پیاس ہائے پیاس! پکارتا تھا مگر جب پانی اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہ پی سکتا تھا یہاں تک کہ اسی شدت پیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ (سوانح کربلا ص۹۰)

ہاں مجھ کو رکھو یاد میں حیدر کا پسر ہوں
اور باغِ نبوت کے شجر کا میں ثمر ہوں
میں دیدۂ ہمت کے لئے نورِ نظر ہوں
پیاسا ہوں مگر ساقیٔ کوثر کا پسر ہوں
 
معلوم ہوا کہ خداوندِ غفور عزوجل کو امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی بے ادبی قطعاً نامنظور ہے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا بدگو دونوں جہاں میں مردود و مطرود ہے۔ گستاخانِ حُسین کو دنیامیں بھی دردناک سزاؤں کا سامنا ہوا اور اس میں یقیناً بڑی عبرت ہے۔ صدرُ الافاضل حضرت علامہ مولىٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی بعض گستاخانِ حسین کے ہاتھوں ہاتھ ہونےوالے عبرت ناک بد انجام کے واقعات نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: فرزندِ رسول کو یہ بات بھی دکھا دینی تھی کہ اس کی مقبولیتِ بارگاہِ حق عزوجل پر اور ان کے قرب و منزلت پر جیسی کہ نصوصِ کثیرہ و احادیثِ شہیرہ شاہد ہیں ایسے ہی ان کے خوارق و کرامات بھی گواہ ہیں۔ اپنے اس فضل کا عملی اظہار بھی اتمامِ حجت کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اگر تم آنکھ رکھتے ہو تو دیکھ لو کہ جو ایسا مستجاب الدعوات ہے اس کے مقابلہ میں آنا خدا عزوجل سے جنگ کرنا ہے۔ اس کا انجام سوچ لو اور باز رہو مگر شرارت کے مجسمے اس سے بھی سبق نہ لے سکے اور دنیائے ناپائیدار کی حرص کا بھوت جو ان کے سروں پر سوار تھا اُس نے اِنھیں اندھا بنا دیا۔ (سوانحِ کربلا)
 
نور کا ستون اور سفید پرندے
امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منورسے متعدد کرامات کا ظہور ہوا۔ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بقیہ افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے جب کہ شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے ہپلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور رُسوائے زمانہ یزیدی بدبخت خولی بن یزید کے پاس تھا یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا۔ قصرِ امارت (یعنی گورنر ہاؤس) کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا میں تمہارے لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پڑا ہے۔ وہ بگڑ کر بولی: تجھ پر خدا کی مار! لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے۔ خدا کی قسم! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی۔ نوار یہ کہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا اُدھر آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کا بیان ہے: خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک مثل ستون چمک رہا تھا۔ اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ جب صبح ہوئی تو خولی بن یزید سرِ انورکو ابنِ زیاد بدنہاد کےپاس لے گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص۴۳۴)

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی
سواری آنے والی ہے شہیدانِ مَحَبَّت کی


خولی بن یزید کا دردناک انجام
دنیا کی محبت اور مال و زر کی وہس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے بد بخت خولی بن یزید نےدنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تنسے جدا کیا تھا۔ مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا ہی میں اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امامِ حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی اس ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے۔ مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا جس کو جہاں پایا ختم کر دیا۔ لاشیں جلا ڈالیں، گھر لوٹ لیے۔ خولی بن یزید وہ خبیث ہے جس نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا۔ یہ رُوسیاہ بھی گرفتار کر کے مختار کےپاس لایا گیا، مختار نے پہلےاس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سُولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرحکے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھے ہزار کوفی جو حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کردیا۔ (سوانحِ کربلا ص۱۲۲)

اے تشنگانِ خونِ جوانانِ اہلبیت===دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کیے====گھُور
ے ؎۱ پہ بھی نہ گور کو تمہاری جا ملی
رسوائے خلق ہو گئے برباد ہو گئے===== مردودو! تم کو ذلتِ ہر دوسرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں=====تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دُعا ملی
دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں==== دنیا ملی نہ عیش و طَرَب کی ہوا ملی
آخر دکھایا رنگ شہیدوںکے خون نے=== سر کٹ گئے اَماں نہ تمہیں اِک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیمؔ اُنہوں نے ابھی سزا==== دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دن سزا ملی


؎۱ : یعنی کچرا کونڈی
 
نیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت
حضرتِ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: جب یزیدیوں نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کُوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اُس وقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا۔ جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سرِ پاک نے (پارہ ۱۵ سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۹) تلاوت فرمائی:
اَم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ﴿۹﴾ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمۂ کنز الایمان: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
(شواہد النبوۃ)
اِسی طرح ایک دوسرے بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیادِ بد نہاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر ۴۲ کی تلاوت جاری تھی:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَC۵ط (پ۱۳ ابراھیم۴۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ہر گز اللہ کو ب خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔
(روضۃ الشہدا مترجم ج۲ ص۳۸۵)

عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو
سرِ شبیر تو نیزے پہ بھی قراٰں سناتا ہے۔

صلوا علی الحبیب! ==== صلی اللہ علی محمد

منہال بن عمرو کہتے ہیں: واللہ میں نے بجشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو لوگ نیزے پر لیے جاتے تھے اُس وقت میں دِمِشق میں تھا ۔ سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورۃُ الکہف پڑھ رہا تھا جب وہ آیت نمبر ۱۵ پر پہنچا:
اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ﴿۹﴾ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمۂ کنز الایمان: پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کےکنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی بخشی تو سرِ انور نے بزبانِ فصیح فرمایا: اعجبُ من اصحابِ الکہفِ قتلی و حملی "اصحابِ کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لیے پھرنا عجیب تر ہے"۔ (شرح الصدور ص۲۱۲)

سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدا نے عزو شانِ اہلبیت رضی اللہ عنہم

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراداؔٓبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: درحقیقت بات یہی ہے کہ کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان ﷺ کی امت نے مہمان بنا کر بلایا ، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! ال و اصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا، اہلبیت کرام علیہم الرضوان کو اسیر بنایا، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا۔ اصحابِ کہف سالہاسال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔ (سوانحِ کربلا ص۱۱۸)
 

میر انیس

لائبریرین
اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے نوک نیزہ سے قران پاک کی تلاوت کرکے شاید یزیدیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہوگی کہ تم ہمارا سر ہمارے بدن سے جدا تو کرسکتے ہو پر قران سے جو ہمارا رشتہ ہے وہ جدا نہیں کرسکتے اور قران کے اصل وارث ہم ہی ہیں دوسری وجہ جو علماء ارشاد فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ (ص) کی نواسیاں بے پردہ تھیں تو لوگوں کی توجہ ان پر سے ہٹانے کیلئےآپ کے کٹے ہوئے سر نے تلاوت شروع کردی جس سے لوگ آپ کے سر کی طرف متوجہ ہوگئے
واللہ اعلم بالثواب
 
خون سے لکھا ہوا شعر
یزید پلید کے ناپاک لشکری شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے پاکیزہ سروں کے لے کر جا رہے تھے دریں اثنا ایک منزل پر ٹھہرے۔ حضرت سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں، وہ نبیذ یعنی کھجور کا شیرہ پینے لگے۔ ایک اور روایت میں ہے، و ھم یشربون الخمر یعنی وہ شراب پینے لگے۔ اتنے میں ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اور اس نے خون سے یہ شعر لکھا ؎
اترجو امۃ قتلت حسینا
شفاعۃ جدہ یوم الحساب

(یعنی کیا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روز قیامت ان کے نانا جان ﷺ کی شفاعت پائیں گے؟)
بعض روایات میں ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ کی بِعثتِ شریفہ سےتین سو برس پیش تر یہ شعر ایک پتھر پر لکھا ہوا ملا۔
(الصواعق المحرقہ ۱۹۴)
سرِانور کی کرامت سے راھِب کا قبول اسلام
ایک راہب نصرانی نے دَیر (یعنی گرجا گھر) سے سرِ انور دیکھا تو پوچھا، بتایا، کہا: "تم بُرے لوگ ہو، کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے۔" ان لالچیوں نے قبول کر لیا۔ راہب نے سرِ مبارک دھویا، خوشبو لگائی، رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور بلند ہوتا پایا، راہب نے وہ رات رو کر کاٹی، صبح اسلام لایا اور گرجا گھر، اس کا مال ومتاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہلِ بیت کی خدمت میں گزار دی۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۹)

دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دُکانِ اہلِ بیت
رضی اللہ عنہم


صلوا علی الحبیب!………صلی اللہ تعالیٰ علیٰ محمد

درہم و دینار ٹھیکریاں بن گئے
یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے خیموں سے جو درہم و دینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لئے تھے اُن کو تقسیم کرنے کیلئے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت (نمبر ۴۲)
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۵ط
(ترجمہ کنزالایمان: اور ہر گز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے)
اور دوسری طرف پارہ ۱۹ سورۃ الشعراء کی آیت (نمبر ۲۲۷) تحریر تھی:
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ﴿۲۲۷﴾ع
ترجَمہ کنز الایمان: اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔
(ایضا ص۱۹۹)

تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں
تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بددعا ملی
رُسوائے خلق ہو گئے برباد ہو گئے
مردودو! تم کو ذِلتِ ہر دَو سَرا ملی

یہ قدرت کی طرف سے ایک درسِ عبرت تھا کہ بدبختو! تم نے اِس فانی دنیا کی خاطِر دین سے مُنہ موڑا اور اٰلِ رسول ﷺ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا۔ یاد رکھو! دین سے تم نے سخت لاپرواہی برتی اور جس فانی و بے وفا دنیا کے حصول کے لئے ایسا کیا وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم خَسِرَ الدُّنیا وَ الاٰخِرۃ (یعنی دنیا میں بھی نقصان اور آخرت میں بھی نقصان) کا مصداق ہو گئے ؎

دنیا پرستو دین سے منہ موڑ کر تمہیں
دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی


تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی عملاً دین کے مقابلے میں اس فانی دنیا کو ترجیح دی تو اس بے وفا دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جنہوں نے اس فانی دنیا کو لات مار دی اور قراٰن و سنت کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہے اور دین و ایمان سے منہ نہیں موڑا بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کیا ؎
سر کٹے، کنبہ مرے سب کچھ لُٹے
دامنِ احمد ﷺ نہ ہاتھو سے چھُٹے
تو دنیا ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو گئی اور وہ دارَین میں سرخرو ہوئے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

وہ کہ اِس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اِس در سے پھرا اللہ اُس سے پھر گیا
 
سرِ انور کہاں مدفون ہوا؟
امامِ عالی مقام حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے۔علامہ قرطبِی اور حضرتِ سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرِ انور کو مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما روانہ کر دیا اور مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں سرِ انور کو تجہیز و تکفین کے بعد جنتُ البقیع شریف میں حضرتِ سیدتنا فاطمہ زہرا یا حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دَفْن کر دیا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آکر سرِ انور کو جَسدِ مبارَک سے ملا کر دفن کیا۔ بعض کا کہنا ہے، یزید نے حکم دیا تھا کہ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِ انور کو شہروں میں پھراؤ۔ پھِرانے والے جب عسقلان پہنچے تو وہاں کے امیرنے اُن سے لے کر دفن کر دیا۔ جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن رزّیک جس کو صالح کہتے ہیں نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سرِ انور لینے کیی اجازت حاصل کی اور مع فوج و خُدام ننگے پاؤں وہاں سے ۸ جمادی الآخر ۵۴۸؁ھ بروز اتوار مصر میں لایا۔ اُس وقت بھی سرِ انور کا خون تازہ تھا اور اُس سے مُشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ پھر اس نے سبز حَریر (ریشم) کی تھیلی میں آبنوسی کُرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مُشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور اردگرد رکھوا کر اس پر مشہدِ حُسینی بنوایا چنانچہ قریبِ خان خلیلی کے مشہدِ حُسینی مشہور ہے۔ (شامِ کربلا ص۲۴۶)

کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دہاڑے لُٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت
رضی اللہ عنہم


تُربتِ سرِ انور کی زیارت
حضرتِ سیدنا شیخ عبدُ الفَتّاح بن ابی بکر بن احمد شافِعی خلوتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ "نور العین" میں نقل فرماتے ہیں: شیخ الاسلام شمس الدین لقانی قدس سرہ الربانی جو کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخِ مالکیہ تھے ہمیشہ مشہد مبارک میں سر انور کی زیارت کو حاضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ حضرت سیدنا شیخ شہابُ الدین حنفی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: میں نے مشہدِ حسینی کی زیارت کی مگر مجھے شبہ ہر رہا تھا کہ سرِ مبارک اِس مقام پر ہے یا نہیں؟ اچانک مجھ کو نیند آ گئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بہ صورتِ نقیب سرِ مبارَک کے پاس سے نکلا اور حضورِ پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشُور ﷺ کے حجرۂ مبارَکہ میں حاضر ہوا اور عرض کی، "یا رسول اللہ! ﷺ احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے شہزادے امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ مبارَک کے مدفن کی زیارت کی ہے" آپ ﷺ نے فرمایا: اللہم تقبل منھما و اغفرلھما۔ اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور دونوں کو بخش دے۔ حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اُس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور یہیں تشریف فرما ہے پھر میں نے مرنے تک سرِ مُکرَّم کی زیارت نہیں چھوڑی۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت
رضی اللہ عنہم


سرِ انور سے سلام کا جواب
حضرتِ سیدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشہد مبارَک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے: السلام علیکم یا ابنَ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے: و علیک السلام یا ابا الحسن۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا۔ عرض کی، یا سیدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اے ابو الحسن! کل اِس وقت میں اپنے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی


حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں اہلِ کشف صوفیا اِسی کے قائل ہیں کہ حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ شیخ کریم الدین خلوتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اس مقام کی زیارت کی ہے۔ (ایضاً ص۲۴۸)

اِسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں نگاہیں ہیں
اِسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی

 

میر انیس

لائبریرین
شکیل صاحب اللہ قادرِ کریم اپ کو اس کی جزا دے گا ۔ راہب کا مسلمان ہونا اور درہم کا ٹھیکریاں بننا تو میں نے خود کتابوں میں پڑہا ہے پر جس شعر کا آپ نے ذکر کیا وہ میری نظر سے نہیں گذرا ۔علم میں اضافہ کرنے کا شکریہ۔
ًامام حسین کی ایک زندہ کرامت تو اب تک موجود ہے کہ جب بھی 10 محرم کو امام(ع) کی شہادت کا وقت آتا ہے تو آپ کے قبر مطہر کی مٹی تازہ خون کی طرح سرخ ہوجاتی ہے ۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ اس مٹی سے بنی ہوئی تسبیح کہ دانے عصر عاشور کو خون کی طرح سرخ ہوگئے تھے جیسے کے وہ خون کی بوند ہوں۔
 
سرِ انور کی عجیب بَرَکت
منقول ہے،مصر کے سلطان ملک ناصر کو ایک شخص کے متعلق اطلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس محل میں خزانہ کہاں دفن ہے مگر بتاتا نہیں۔ سلطان نے اُگلوانے کیلئے اس کی تعذیب کی یعنی اذیت دینے کا حکم دیا۔متولیِ تعذیب نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خنافس (گبریلے) لگائے اور اس پر قرمز (یعنی ایک قسم کے کیڑے) ڈال کر کپڑا باندھ دیا۔ یہ وہ خوفناک اذیت و عقوبت ہے کہ اس کو ایک منٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا اس کا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے۔ اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خنافس مر جاتے تھے۔ لوگوں نے اِس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ جب حضرتِ امام عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہاںمصر میں تشریف لایا تھا الحمدللہ میں نے اس کو عقیدت سے اپنے سر پر اُٹھایا تھا یہ اُسی کی برکت اور کرامت ہے۔ (شامِ کربلا ص۲۴۸)

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گُل ْ سِتانِ اہلبیت
رضوان اللہ علیہم اجمعین


صلوا علی الحبیب!۔۔۔ صلی اللہ تعالیٰ علٰی محمد

سرِ مبارک کی چمک
ایک رِوایت یہ بھی ہے کہ سرِ انور یزید پلید کے خزانہ ہی میں رہا۔ جب بنو اُمیہ کے بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا دورِ حکومت (۹۶ تا ۹۹ ھ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کی اس وقت سرِ انور کی مبارک ہڈیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں، انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروا دیا۔ (تھذیب التھذیب ج۲ ص۳۲۶ دارالفکر بیروت)

چہرے میں آفتابِ نبوت کا نور تھا
آنکھوں میں شانِ صَولَتِ
۱؎ سرکارِ بُو تُراب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم



۱؎ دبدبہ
 

عین عین

لائبریرین
ایک روایت یہ ہے، ایک وہ ہے، ایک سے منقول ہے، دوسرے مجہول ہے، تیسرے کا کہنا کچھ اور ہے، چوتھا کچھ اور کہتا ہے، ساٹھ ستر ہزار لوگوں نے سن سنا کر لکھ دی۔ سوانح کربلا، شام کربلا اور نہ جانے کتنی ہی کتب۔ اور ہم ساری کی ساری نقل کرتے جارہے ہیں۔ خود کو بھی یہ نہین معلوم کہ کس کی بات سچی ہے، اور کس کو مانیں۔ ایک یہ بھی ہے ایک یہ بھی، اب چاہو اس پر یقین کرو چاہو دوسری پر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی حال نہیں۔
 

عین عین

لائبریرین
تین کرامات ظاہر ہوئیں۔ ایک کو گھوڑے نے آگ میں گرا دیا، دوسرے کو بچھو نے ڈس لیا،تیسرے کو پانی نہ ملا اس پر بھی اتنے بڑے لشکر یزید(جیسا کہ بتایا جاتا ہے) میں سے کوئی ایسا نہیں نکلا جو ان نشانیوں سے سیکھتا اور حق کی طرف آتا۔ واقعی بہت ہی سیاہ بخت اور مردہ دل تھے وہ ہزاروں یزیدی، چلو یہ ہوا لیکن پھر سر نیزے پر لے کر چلے، عام لوگ اپنے گھروں سے نکلے، دیکھا، جگہ جگہ پھرایا گیا، دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ سرمبارک تلاوت کر رہا ہے، جنبش ہو رہی ہے لب حسین کو، خوشبو آرہی ہے، خود پھرانے والوں نے اور یزید کے ملازموں نے جو یہ سب کر رہے تھے وہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوں گے مگر پھر بھی وہ حق کی طرف نہیں لوٹے، ایسی بد بختی طاری تھی ان پر، کوئی تو ہوتا، جو سر پھرانے کے دوران یہ سب کرامات دیکھ کر یزید کے لشکر اور یزید کے خلاف میدان میں اتر جاتا۔ اتنا کچا ایمان تھا ان کا کہ جان کی پروا تھی، مصلحت کے تحت نواسہ رسول کے سر کو نیزے پر دیکھتے رہے لیکن کچھ نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت ایمان کی کمزوری کا یہ عالم تھا تو آج تو کوئی بھی ایمان والا نہ ہو گا۔ نقل کیے جائو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر
 
رضائے مصطفےٰ کا راز
حضرتِ علامہ ابنِ حَجَر ھَیتمی مَکِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی رِوایت فرماتے ہیں کہ سُلیمان بن عبدُالملِک جنابِ رسالتِ مَآب ﷺ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے دیکھا کہ شہنشاہِ رسالت ﷺ ان کے ساتھ مُلاطَفَت (یعنی لُطف و کرم) فرما رہے ہیں۔ صبح انہوںنے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اِس خواب کی تعبیر پوچھی، اُنہوں نے فرمایا: شاید تُو نے آلِ رسول کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے۔ عرض کی، جی ہاں! میں نے حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک سر کو خزانۂ یزید میں پایا تو اُس کو پانچ کپڑوں کا کفن دے کر اپنے رُفقا کے ساتھ اس پر نماز پڑھ کر اس کو دفن کیا ہے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کا یہی عمل رِضائے محبوبِ ربِّ لم یَزَل عزوجل و ﷺ کا سبب ہوا ہے۔ (الصواعق المحرقہ ص۱۹۹)

مصطفےٰ ﷺ عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دُود مانِ
۱؎ اہلبیت

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالیٰ علیٰ محمد



۱؎ دُودمان یعنی خاندان، بڑا قبیلہ
 

حسن

محفلین
امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات
بے چین دلوں کے چین، رحمتِ دارَین، تاجدارِ دارَین، سروَرِ کونَین، نانائے حسنین ﷺ و رضی اللہ عنہما کا فرمانِ رحمت نشان ہے: جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیجتا ہے جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتےہیں وہ لکھتے ہیں کہ کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ (کنز العمال ج۱ حدیث۲۱۷۴)
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علیٰ محمد
ولادتِ با کرامت:
راکبِ دوشِ مصطفیٰ ﷺ، جگر گوشہ مرتضیٰ، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سید الشھداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتی کہ آپ کی ولاد با سعادت بھی با کرامت ہے۔ حضرت سیدی عارف باللہ نورُ الدّین جامی قدس سرہ السامی "شواہد النبوۃ" میں فرماتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت چار شعبان المعظم ۴؁ ھ کو مدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں منگل کے دن ہوئی۔ منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھے ماہ ہے۔ حضرت سیدنا یحیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھے ماہ ہوئی ہو۔
و اللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
(شواہد النبوۃ، ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)​
مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں سیدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں
واہ قسمت کہ چراغِ حرَمین آئے ہیں اے مسلمانو! مبارک کہ حسین آئے ہیں
رُخسار سے انوار کا اظہار
حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو اآپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے۔ (ایضا ص ۲۲۸)
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

نہ مدرسہ، نہ مساجد، نہ فلسفہ نہ اصول!
ثبوت حق (وحدانیت) کے لئے بس حسین ّ کافی ہے
 
Top