با ادب

محفلین
تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب بارھویں جماعت میں پہنچے تواللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری والدہ محترمہ پڑھی لکھی نہیں .
نہیں نہیں آپ ہر گز یہ مت سمجھئیے کہ والدہ صاحبہ سے ہمیں کوئی راز پوشیدہ رکھنے تھے یا پھر اُن " لو لیٹرز" کو چھپانا تھا جو زندگی میں ہمیں کبھی کسی نے لکھے ہی نہیں. عشقیہ خطوط کی کہانی تو ہمارے دنیا میں آتے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگئی تھی کہ ہماری شکل خاصی " باجیانہ" قسم کی تھی اور باقی کی کسر ہمارے بعد آنے والے چھ بھائیوں نے پوری کر دی کہ باجی باجی کہہ کر ہمیں بطور باجی اتنا مشہور کیا کہ مشرق سے مغرب تک موجود تمام افراد کے ذہنوں نے دیدہ و دانستہ طور پر ہمارے باجیانہ رتبے کو تسلیم کر لیا.
ہم نے بھی باجی ہونے کو اسقدر دل و جان سے نبھائے رکھا کہ اپنے اماں ' بابا کو بھی چھوٹے بہن بھائیوں کی فہرست میں لا کھڑا کر کے ان کی بھی تمام عادتیں بگاڑ ڈالیں.
ہماری جماعت ششم کے زمانے کی کہانی سنئیے .
اُس زمانے میں جب ہم خود چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں بھائیوں کی ٹیچر پیرنٹ میٹنگ سے لے کر ان کے تمام کاموں کی ذمے داری ہم نے سنبھال رکھی تھی. رزلٹ کارڈ پہ دستخط باجی کے چھٹی کی درخواست کی اجازت باجی سے. ہمارے وہ کزنز جن کے بچے بھی ہم سے بڑی عمر کے تھے ہماری باجیانہ صلاحیتوں پر دل و جان سے ایمان لے آئے تھے. اور اپنی اولادوں کی زندگیوں کے تمام مسائل ہم سے باہم مشاورت کے بعد حل کئیے جاتے تھے. تو ان حالات میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی باجی جیسی ہستی کو " لو لیٹر " لکھنے کی جسارت کا سوچ بھی سکتا. اماں حضور کے ان پڑھ ہونے کا شکر کرنے کا مقصد بارھویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں پڑھا جانے والا مضمون "
A man who was a hospital “

تھا. ہماری والدی گو ان پڑھ تھیں لیکن انھیں ایسے ڈاکٹر صاحب کی بیگم ہونے کا اعزاز حاصل تھا جو اولاد کو بھی اولاد کی نظر سے کم مریض کی نظر سے زیادہ دیکھتے تھے. فلاں کی ناک کا زاویہ ایسا ہے اس کو الرجی کا مسئلہ ہے. فلاں کی زبان میں لکنت ہے خود اعتمادی کی کمی ہے. فلاں کی چال ایسی ہے تو فلاں بیماری کا خدشہ ہے. ہمیں تو لگتا ابا میاں نے والدہ کی آنکھوں اور حسن کا قصیدہ پڑھنے کی بجائے آنکھوں میں جھانک کر کوئی بیماری ہی دریافت کی ہوگی اور حسن و جمال کو دیکھ کر کسی جڑی بوٹی کا خیال آیا ہوگا. خیر موضوع سخن اماں تھیں نہ کہ ابا.
گھر میں متعدد امراض کی علامات اور متفرق مریضوں کے قصے سننے کی بناء پر والدہ کو وہم.کا مرض لاحق ہوگیا. میرے سر میں درد ہے ضرور دماغ میں ٹیومر ہوگا. پاؤں کے تلوے جلتے ہیں ہو نہ ہو ہیپاٹائٹس سی تو ضرور ہوگا. ٹانگوں میں درد ہے لگتا ہے شوگر ہوگئی. رنگ پیلا لگ رہا ہے بس جگر نے خون بنانا چھوڑ دیا.
صرف سننے سے ہی اماں حضور کو اتنی بیماریاں لاحق ہو گئی تھیں تو اگر خدا نخواستہ پڑھنا آتا اور ابا حضور کی طب کی موٹی موٹی کتابیں پڑھ ڈالتیں تو آج ہم اماں جان کے لئیے مرحومہ کا لفظ استعمال کررہے ہوتے. اماں کی ان دیکھی ان سنی بیماریوں کی داستان لمبی اور طویل ہے اور وقت کم
تمہید ہم نے اپنی بیماری کا تذکرہ کرنے کے لئیے باندھی ہے. ہمیں بھی بیماری لاحق ہوگئی تھی امام صاحب والی.
کسی زمانے میں امام صاحب بڑی بہترین اور وافر مقدار میں پائی جانے والی سستی نامی بیماری میں مبتلا ہوگئے.
سستی ایسی بیماری ہے جو زندگی کے حسن کو ماند کر کے آپ کے دل و دماغ کو ایسے اندھیرے غار میں لے جاتی ہے جہاں ہر سمت فقط مایوسی کا دور دورہ رہتا ہے. غرض امام صاحب اس بیماری میں وقتاً فوقتاً مبتلا رہتے. اب وہ شفا یاب ہوئے یا نہیں یہ تو وہ جانیں ان کا خدا جانے ہم ضرور مریض ہوگئے.
سنا تھا مرض محبت میں مبتلا ہو کر انسان دنیا سے بےگانہ ہوجاتا ہے لیکن یہ علاماتِ بد ہم پر مرض سستی میں مبتلا ہونے کے بعد طاری ہوئیں.
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
صبح بستر پر آنکھ کھلتی ہے ..کئی کئی دن تو منہ بھی نہیں دھوتے. گندے منہ چائے ناشتہ( شکر ہے پان نسوار کی لت نہ تھی) تناول فرماتے ہیں. اس کے بعد سر نیہوڑائے پڑے رہتے ہیں.
ایک دن امی نے فرمایا کوئی اللہ کو یاد کرنے کا ارادہ ہے یا نہیں. چاہا کہہ دیں اللہ کو بھولے ہی کب. . . . پھر شرم آئی کہا چلو تیمم کر کے ہی نماز ادا کر لیں گے. وہ تو شکر خدا کا گھر میں مٹی نہ ملی ورنہ ایک ڈھیلا سرہانے رکھ کے وہیں تیمم وہیں لیٹے لیٹے اشاروں میں نماز پڑھ ڈالتے. ( مولوی حضرات کے لئیے یہ لائنز پڑھنا منع ہیں) .
گھر والے مذہب کے معاملے میں خاصے قدامت پسند واقع ہوئے ہیں اگر پوچھ لیتے بیٹا لیٹ کر نماز کس خوشی میں پڑھی جا رہی ہے تو بتلائے دیتے بیمار ہیں. بھلا بتاؤ سستی مرض نہیں کیا؟ ؟؟
لیکن اللہ کا ڈر امر مانع رہا نمازوں کے اوقات میں بستر کو آرام دینا شروع کر دیا
باقی رہے نام اللہ کا بستر تھکتا ہے تو تھکتا پھرے پیسے دے کر خرید کے لائے تھے مفت کا تھوڑی ہاتھ لگا تھا.
کسی زمانے میں ہماری ایک کولیگ ہو کرتی تھیں بے چاری قسمت کی ماری اردو پڑھایا کرتی تھیں. انھیں نہ صرف ناول پڑھنے سے شغف تھا بلکہ ادبی تحریروں پہ سیر حاصل تبصرہ کرنےمیں بھی ماہر تھیں. کسی بھی فن کے ماہرین سے ہمیں بڑا حسد محسوس ہوتا ہے تو ماہرہ صاحبہ کو چاروں شانے چت کرنے کو ہم نے یک نہ شد چھ شد یعنی چھ چھ ناول اکھٹے لکھنے شروع کر رکھے تھے. روز کا ایک صفحہ لکھتے ڈھیروں داد سمیٹتے. واہ واہ کی آوازیں کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتیں. عین ممکن تھا کہ اس واہ واہ کی حرص میں ہم ان ناولوں کو پایہء تکمیل پہنچا ڈالتے کہ محترمہ قدردان صاحبہ کا کسی دوسرے شہر ٹرانسفر ہوگیا. ہم.نے بھی کہانیاں آدھی ادھوری بند کر کے کسی بورے میں ڈال دیں کہ والدہ محترمہ کو گھر کے کونے کھدروں میں موجود ہماری کتابوں سے شدید نفرت تھی. کہانی لکھنے کا ہمارا محرک فقط دادوتحسین کے ڈونگرے سمیٹنا ہے. ہمیں اس بات سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں کہ کسی موضوع سے معاشرے میں بگاڑ آتا ہے یا سدھار. ہمیں تو فقط واہ واہ اور بہت خوب سے غرض ہے. جتنی دیر کوئی ڈگڈگی بجاتا رہتا ہم.جیسا بندر کرتب دکھاتا رہتاہے.
محترمہ نے کچھ وقت گزرنے کے بعد ہمیں ٹیلی فون ملایا. علیک سلیک ہوئی. مدعا بیان کرتے ہوئے فرمانے لگیں وہ آپکی کہانیاں پوری ہو گئی ہوں تو مجھے بھجوا دیں. انھیں کہیں چھپوانے کا بند و بست کر دیتے ہیں. ساتوں زمین آسمان گھوم جانا کسے کہتے ہیں اس دن سمجھ میں آگیا. اور سات زمین آسمان گھوم جائیں تو بندہ ہوش میں کہاں رہتا ہے بس اسی بے ہوشی کے عالم میں لائن کاٹی. وہ دن آج کا دن ان خاتون سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں. ارے بی بی تین چار مختصر عقل والی خواتین واہ واہ کہہ دیں تو ہم اپنی اوقات بھول جائیں. اور چلو بھول جاتے ہیں ہمارا کیا ہے لیکن ان کم بخت کہانیوں کو پورا کرنے کے لئیے ہاتھ ہلانا پڑتا ہے جو ہم سے نہیں ہوتا.
ہماری تو سستی کا یہ عالم ہے کہ بھائی صاحب فون کر دیں تو " یس" کا بٹن دبات موت پڑتی ہے. لو بھلا اب بات کرنے کو لب ہلانے پڑیں گے. . کون ہلائے؟ ؟؟
ایک دن ابا حضور نے فرمایا بیٹا ماموں کی شادی کااحوال سناؤ.
" ابا ہم.نانی کے گھر گئے اور پھر ماموں کی شادی ہو گئی. "
ایسے نہیں بیٹا شروع سے سناؤ گھر سے نکلے کس کے ساتھ گئے وہاں کیا ہوا کون کون آیا تھا مہندی مایوں بارات ولیمہ سب احوال بتاؤ.
جی چاہتا ابا کے کلینک میں پڑی تمام نیند کی گولیاں پھانک لیں. اتنا کون بولے؟
ابا لالئی سے پوچھ لیں. ارے تم بتاؤ تم میری شہزادی ہو. لالئی سے کیا پوچھوں اسکا تو یہ حال.ہے راہ چلتے کتے نے کاٹا پوچھا بیٹا کتے نے دانت ٹانگ میں گاڑے ہیں یا صرف پکڑا تھا ٹانگ کو. بولنے لگی بابا سونا سے پوچھیں .بھئی ٹانگ تمھاری پوچھیں سونا سے.
ابا بھائی اماں کے تھے ان سے پوچھ لیں. اس سے پہلے کہ ابا کی جوتی ہماری تواضع کرتی ہم.کھسک لئیے.
کل کی ہی بات لیں ہماری بہن آئیں پوچھنے لگیں سنا ہے آٹھ ماہ سے تم نے گندم.کی روٹی کھانی چھوڑ رکھی ہے.
درست سنا
اگر ڈائیٹنگ کی خاطر چھوڑی ہے تو بتائے دوں کہ وزن میں تمھارے ایک انچ کا فرق نہیں آیا.
اری کم بخت گندم کھانے کے لئیے منہ چلایا جاتا ہے ہم سے نہیں چلتا بس ایسی غذا کھاتے ہیں جس منہ میں ڈالتے ہی بغیر کسی محنت کے معدے تک پہنچ جائے.
اللہ رے سستی.
کسی دور پار کی سہیلی کے ہاتھ ہماری ڈائری لگ گئی. فرمانے لگیں اتنا اچھا لکھ سکتی ہو باقاعدہ لکھنا کیوں نہیں شروع کر دیتیں ؟
کر دوں؟
ہاں کر دو
تم مدد کرو گی میرے لکھنے میں؟
کیوں نہیں. ضرور کروں گی.
ایسا کرو ٹیلی پیتھی کے ذریعے میرے دماغ میں جھانک کر سب پڑھ لو پھر اسے لکھ ڈالو پھر چھاپنے کو دے دینا اتنی مدد کافی ہے. آئندہ کے لئیے ضرورت پڑی تو بلوا لوں گی. خدا کا بار ہا شکر کہ براؤن جلد والی موٹی ڈائری اس نے میرے سر میں نہیں دے ماری.
میرے کمر کا واحد سرمایہ ایک ڈبل بیڈ ہے. اللہ بھلا کرے میری چھوٹی بہن کا وقتاً فوقتاً بیڈ شیٹ بدلنے کا اہتمام کر ڈالتی ہے. ایک دن بڑی پریشانی کے عالم میں بیڈ کے چہار اطراف گھوم کر بیڈ کا جائزہ لیا.
اری کیوں طواف کاٹ رہی ہو ڈالو چادر راستہ ناپو.
کہنے لگی باجی بیڈ کا گدا ایک طرف سے پچک چکا ہے. دوسری طرف بالکل نئی کی نئی ہے.
تمھیں کیا چادر ڈالو انجینئرنگ نہ کرو.
زاویے ماپنے چھوڑ دو
اب کون بتائے پچھلے تین سال سے باجی صاحبہ نے مجال.ہے جو بیڈ کی سائیڈ تبدیل.کی ہو. گدے کا کیا قصور.
مجھے ہرگز بھی آدم بیزار مت سمجھئیے. دوست احباب رشتے دار میرے گن گاتے ہیں.
بس آج کل ذرا سستی کے مرض میں مبتلا ہوں. ابا میاں سے علاج کروانا ہمیں پسند نہیں باقی باقی ڈاکٹرز پہ ہمیں اعتبار نہیں.
لے دے کے بچا کون جس سے علاج نہ سہی عارضے پر ہی بات کر لیں. امام صاحب.
اپنے امراض کو لکھ کر بیان کر دینا اور بات ہے لیکن بزبان خود اور بدہن آپ بیان کرنا اور ہی بات ہے. سوچا کن مناسب الفاظ میں بیان کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے. ارشاد فرمایا. امام صاحب آج کل آمد بڑی ہوتی ہے.
جھٹ سے بولے لکھ لیا کرو
لکھنے کو تو لکھ دیں امام صاحب اگر آپ تحریر کا تجزیہ و تبصرہ پیش کرنے کا وعدہ کریں.
ہاں کر دوں گا.
ہم نے سوچا لو جی علاج ہوگیا. سستی کا تعکق ذہن سے ہے. امام صاحب کی دادوتحسین کی خاطر لکھیں گے. ذہن کی گرد چھٹے گی. مطلع صاف ہوگا. امید کی کرنیں پھوٹیں گی. اور رفتہ رفتہ بیماری شفا یاب ہو جائے گی.
ہم.پہلے بھی بتا چکے ہیں لاکھ ہم.لیکھت سہی لیکن بغیر کسی محرک کے ہم سے قلم نہیں تھاما جاتا. ک تحریر لکھی دوسری لکھی تیسری لکھی. . . تبصرہ ندارد . . . شوق ماند پڑتا گیا. . .
ڈرتے جھجھکتے اوچھے ہو کر دوبارہ گویا ہوئے امام صاحب وی ذرا تحریر پہ بات ہوجاتی تو. . . . . . ہاں ہاں کر دوں گا.
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا. . . . پھر تنکا پکڑا. . معاف کیجیئے گا قلم پکڑا لکھنا شروع کیا لیکن لگتا تھا ستاد محترم.بھی شاید اسی مرض میں مبتلا ہیں.
ایک دن باتوں باتوں میں امام صاحب نے فرمایا اپنے خیالات کا اظہار کھل کے کرو. . . . خالی ویران کمرے میں کھل کر اظہار کیا. قسم لے لیں اگر جو دیواروں نے کوئی ردّعمل ظاہر کیا ہو. ان کو بھی شاید سستی کا مرض لاحق ہے. ارے اچھا برا اتفاق اختلاف کچھ تو کہو. نہیں بولنا تھا نہ بولیں. اب اظہار کس سے کروں؟ ؟
چند ایک دوست احباب سے خیالات کے اظہار کا موضوع چھیڑا. . کنی کترا کے نکل گئے . . .

سوچا آج سے سوشل.میڈیا پر بولیں گے پر جوں ہی لب کشائی کا ارادہ کیا وہاں ایسی ہاہاکار مچی تھی کہ چپ رہنے میں ہی عافیت جانی.
جب دل و دماغ ذہن و افکار اپنی ذات تک محدود رہتے رہتے سڑاند اور بساند کا باعث بن جائیں تو ایسی بیماریاں لاحق ہوہی جاتی ہیں. آخری حربہ بیماری کو دور کرنے کا دعا رہ گیا. تو آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرے لئیے دعا ء خیر فرمائیں کہ اللہ مجھے جلد اس بیماری سے چھٹکارا دے کر صحت

و تندرستی عطا فرمائے آمین
 

انتہا

محفلین
سستی پر لکھنے کا یہ حال ہے تو چستی کا تو کیا ہی پوچھنا، لیکن کچھ اچھے ادب سے محروم رہ گئے ہم شاید!
ماشاءاللہ، اللہ لکھنے کی قوت میں اضافہ فرمائے۔
 
Top