الیکٹرانک میڈیا اور اعتماد کی خلیج (از شاہد ملک)

عاطف بٹ

محفلین
پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتے ہی الیکٹرانک میڈیا کے انضباطی ادارے ’ پیمرا ‘ کی کار کردگی پہ بحث ضرور چھڑتی ہے ۔ خاص طور پہ اس زاویے سے کہ ٹیلی ویژن چینلز کے نشریاتی مواد میں باقاعدگی لانے کے لئے کون سی ترکیب برتی جائے جس کی بدولت ہر چینل کی انتظامیہ اور پروگرام تیار اور پیش کرنے والوں میں احساس ذمہ داری اجاگر کیا جا سکے ۔ مالکان کے نزدیک سب سے بڑا سوال روزانہ ریٹنگ کا ہے، مگر کارکن صحافیوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا ماننا ہے کہ احساس ذمہ داری کا معاملہ پیشہ ورانہ ضابطہ ءاخلاق سے جڑا ہوا ہے ۔ یوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے دونوں، بلکہ تینوں دھڑوں کے امکانی اتحاد سے یہ سوچ بھی پیدا ہورہی ہے کہ کیا پتا نئی یونین ایک تربیتی ادارے کا کردار سنبھالتے ہوئے نشریاتی صحافت کے متفقہ ضابطے کے لئے کام شروع کر دے ۔

نجی شعبے کے ٹیلی ویژن اور انضباطی ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے باہمی تعلق کو سمجھنا چاہیں تو بقول قابل اجمیری ’حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘۔ ایک معروف چینل والے حالیہ تنازعہ کی شدت ڈرامائی نوعیت کی تھی ، وگرنہ پچھلے دس برسوں میں یہ متنازعہ روابط کئی مرحلوں پر اتار چڑھاﺅ کا شکار ہوئے ۔ ایک بے ضرر سی مثال ’ پیمر ا‘ کی یہ ہدایت تھی کہ ٹی وی سکرین پر کسی قومی ہیرو یا سیاسی رہنما کو مزاحیہ یا مضحک انداز میں پیش نہ کیا جائے ۔ ٹی وی چینل مصر رہے کہ چند ہستیوں کو چھوڑ کر جن کا شمار بانیان پاکستان میں ہے ، باقی سیاستدانوں سے وہی سلوک کیا جائے جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے آئے ہیں۔ سیاستدانوں کا مذاق اڑانے کا مسئلہ ذرا علامتی سا ہے ۔ نہیں تو قصور ماضی کے اس سلوک کا ہے جو بادشاہ نے بادشاہوں سے نہیں ، ہماری حکومتوں نے ذرائع ابلاغ سے روا رکھا ۔

آزادی سے پہلے مولانا ظفر علی خاں کے زمیندار پریس کی ضبطی ، پنجاب میں دولتانہ وزارت کے دوران حمید نظامی کے نوائے وقت پہ بندش ، ہفت روزہ چٹان پر ایوبی عہد کی سختیاں ، بھٹو دور میں ایڈیٹر شورش کاشمیری کے لئے قید کی صعوبتیں اور اس سے پہلے پاکستان ٹائمز اور امرو ز پر فوجی قبضہ ،جس نے فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت کے بعد مظہر علی خاں اور احمد ندیم قاسمی کو بھی ہماری صحافت میں امر بنادیا ۔ حکومتی نگرانی میں قائم نیشنل پریس ٹرسٹ ، خبر ایجنسی اے پی پی ، سرکاری ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن نے جو پیشہ ورانہ روایات قائم کیں ،ان کے پس منظر میں روزنامہ مشرق کے مرحوم مدیر عزیز مظہر نے خود پہ ہنستے ہوئے کہا تھا : ’ ریڈیو پہ حالات حاضرہ کے پروگرام سے پہلے پروڈیوسر سے یہ کہنے کی عادت ہو تی جا رہی ہے کہ سر! آپ ہی کوئی لائن دیں، تاکہ بات شروع کی جائے ‘۔

اس ایک جملے میں ہمارے یہاں ابلاغ عامہ پہ ہونے والے ریاستی جبر کی پوری داستان پوشیدہ ہے اور یہ سبق بھی کہ اس جبر کے نتیجے میں جو پیشہ ورانہ روایت جنم لیتی ہے، اس کی فکری اور تخلیقی اٹھان غلامانہ سی ہوتی ہے ۔ اس دوران بعض اچھے صحافی بھی منظر عام پر آئے ، لیکن یہ صرف فنی اعتبار سے اچھے صحافی تھے ، جو محفوظ روزگار اور بہتر تنخواہ کی خاطر سرکاری مطبوعات اور ریڈیو ٹی وی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ انہی میں سے غیر معمولی اہلیت کے حامل اخبار نویس مصلح الدین نے ، جو نیوز ایجنسی کی ملازمت چھوڑ کر پی ٹی وی میں ڈائرکٹر نیوز کے عہدے تک پہنچے ، حکومت نواز خبر ناموں پہ کہا تھا : ’ جو کچھ نشر ہوتا ہے، آپ اسے دیکھ کر تنقید تو کرتے ہیں ، مگر کبھی سرکاری خبروں کے وہ پلندے بھی تو دیکھیں جنھیں نشر ہونے سے پہلے مَیں پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں ‘ ۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ مصلح الدین کا یہ بیان خبر نامے کا دفاع نہیں ، ایک حساس اور شریف النفس کارکن صحافی کی بے بسی کا اعتراف تھا ۔

ممتاز براڈکاسٹر اور میرے بی بی سی کے پرانے ساتھی عارف وقار نے اب سے دو سال پہلے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غیر جانبدار خبریں اور حالات حاضرہ پر بحث چونکہ کبھی پی ٹی وی کی ترجیح نہیں تھے ، اس لئے نئی صدی کی ابتدا میں نئی نئی آزادی ملنے کے بعد نجی شعبے کے سامنے سنجیدہ الیکٹرانک صحافت کا کوئی ماڈل تھا ہی نہیں ۔ واحد نمونہ ’ کامیڈی اور ڈرامہ ‘ کا تھا ۔ اس لئے شور و غل سے عاری ایسے نیوز بلیٹن اور تجزیاتی پروگرام جو منطقی ڈھانچے پر مبنی ہوتے ہوئے بھی معلومات افزا ، عام فہم اور دلچسپ ہوں ، سرے سے رواج نہ پا سکے ، چنانچہ عارف وقار کے الفاظ میں ’اب حالت یہ ہے کہ جس طرح میلے میں جائیے تو تھیٹر لگے ہوتے ہیں ، باہر پھٹے پہ مسخرے ناچ رہے ہوتے ہیں کہ آئیے ، اندر آ کر ہمارا تماشہ دیکھئے ، تو ہر چینل اپنے اپنے پھٹے پہ مسخرے نچا رہا ہے‘ ۔

سچ تو یہی ہے، مگر گہرائی میں جائیں تو براڈکاسٹ جرنلزم کے مناسب قومی ماڈل کی عدم موجودگی اس صورت حال کی واحد وجہ نہیں بنی ، کئی اسباب اور بھی ہیں ۔ کسی کی طرفداری کئے بغیر یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ سب سے پہلے ،جس معروف چینل نے خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرام شروع کئے ، ایک اخباری ادارے کے طور پر اس کی ابتدائی شہرت ایسے روزنامے کے حوالے سے تھی ،جسے غیر جانبدار قارئین سنجیدہ اور زرد صحافت کی ایک درمیانی شکل ہی سمجھتے رہے ۔ وقتی طور پر تو یہ چینل گھٹن زدہ سرکاری ٹیلی ویژن کے مقابلے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ، لیکن یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی صحافت اور پیش کاری کا کچا پن بعد میں آنے والوں کے لئے ایک بنچ مارک بن گیا ، جو آیا اس نے معمولی رد و بدل کے ساتھ اسی وکٹ پر کھیلنے کی کوشش کی ۔ بس یوں کہہ لیں:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
نجی شعبے کی نشریات کے حق میں فی الوقت سب سے مضبوط دلیل ان کی عوامی مقبولیت ہے ، جسے کچھ لوگ ان کی خبروں اور پروگراموں کے عمدہ معیار کا ثبوت خیال کرتے ہیں ، لیکن جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں کہ یہ صورت حال کہیں اس اصول کی عملی تعبیر تو نہیں ہے کہ رسد اپنی طلب آپ پیدا کیا کرتی ہے ۔ لوگوں کو محدود چوائس کے ساتھ جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا، ان کا ذوق اسی کا عادی ہو گیا ۔ بعد کا مقابلہ اسی طے شدہ ذوق کے عین مطابق ہو رہا ہے ۔ ریٹنگ میں وہی آگے ہے جس نے دوڑ پہلے لگائی اور اس کلچر کو عام کیا کہ اللہ کا نام لے کر روز ایک نیا ایشو کھڑا کر دو ۔ متن کے درست ہونے کی شرط ہے، نہ مکالمے کے مہذب ہونے کی ۔ زبان ہمارے گھر کی لونڈی ہے ، اس کے ساتھ سلوک بھی وہی ہونا چاہئے جو لونڈی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ پھر بھی اس صورت حال میں ’ باقاعدگی لانے ‘ کے لئے اگر توقعات پیمرا ہی سے وابستہ کی جائیں تو کون یہ سوچے بغیر رہ سکے گا کہ میڈیا پر بے اعتمادی کی تاریخ تو ریاستی مداخلت کے تسلسل سے جڑی ہوئی ہے ، اس کا نکالا ہوا کوئی بھی حل کیسے موثر ثابت ہو سکتا ہے :
آنکھوں میں جس کی یاد کے جالے تنے رہے
سینے پہ دست غم بھی اسی بے وفا کا تھا​

دنیا کے اور معاشروں نے اس کا حل کیسے نکالا ؟ اس پہ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے ، لیکن ہمارے حالات میں ایک حل یہ بھی ہے کہ صحافتی یونین کے تربیتی کردار کو بحال کرنے کا جتن کیا جائے ۔ یوں صحافیوں کی اس نئی نسل کی خاطر جو ہمارے بڑھاپے کا تعاقب کر رہی ہے ، سارے دھڑوں کو جوڑنے کی خواہش رکھنے والے ’بابے‘ اگر چاہیں تو ماضی کی جکڑ بندیوں کو دفن کر کے نوجوانوں کے پیشہ ورانہ طرز عمل کو سدھارنے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے آپ ہی اپنی مثال بن جائیں گے
 

نایاب

لائبریرین
صحافت کی حقیقت دکھاتا اک اچھا کالم ۔۔۔۔۔۔۔
مگر کریں کیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاں دے گالڑ ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس
بہت دعائیں
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم عاطف بٹ ! بہت خوبصورت میں تجزیہ کیا ۔ اسلام آباد میں فارن آفس کی بیٹ میں ایک صحافی تھے نسیم صاحب ، مخصوص کالی ٹوپی، کان میں پین وضعدار شخصیت تھے فارن آفس کی ہر پریس کانفرنس میں اگلی نشستوں پر نظرآتے تھے انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا " پہلے صحافت پیشہ تھی اب صنعت بن گئی تو اب صنعتکار ہی کی مرضی چلے گی ' کبھی موقع ملے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اشتہاری کمپنیوں کا میڈیا خصوصآ الیکٹرانک میڈیا میں کیا کردار ہے ۔ اس پر بھی کچھ تحریر کریں ۔
بہت عمدہ ۔ اٹلس ہنڈا سے جاری حق کا سفر جاری رکھیں ۔ تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتے ہی الیکٹرانک میڈیا کے انضباطی ادارے ’ پیمرا ‘ کی کار کردگی پہ بحث ضرور چھڑتی ہے ۔ خاص طور پہ اس زاویے سے کہ ٹیلی ویژن چینلز کے نشریاتی مواد میں باقاعدگی لانے کے لئے کون سی ترکیب برتی جائے جس کی بدولت ہر چینل کی انتظامیہ اور پروگرام تیار اور پیش کرنے والوں میں احساس ذمہ داری اجاگر کیا جا سکے ۔ مالکان کے نزدیک سب سے بڑا سوال روزانہ ریٹنگ کا ہے، مگر کارکن صحافیوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا ماننا ہے کہ احساس ذمہ داری کا معاملہ پیشہ ورانہ ضابطہ ءاخلاق سے جڑا ہوا ہے ۔ یوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے دونوں، بلکہ تینوں دھڑوں کے امکانی اتحاد سے یہ سوچ بھی پیدا ہورہی ہے کہ کیا پتا نئی یونین ایک تربیتی ادارے کا کردار سنبھالتے ہوئے نشریاتی صحافت کے متفقہ ضابطے کے لئے کام شروع کر دے ۔

نجی شعبے کے ٹیلی ویژن اور انضباطی ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے باہمی تعلق کو سمجھنا چاہیں تو بقول قابل اجمیری ’حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘۔ ایک معروف چینل والے حالیہ تنازعہ کی شدت ڈرامائی نوعیت کی تھی ، وگرنہ پچھلے دس برسوں میں یہ متنازعہ روابط کئی مرحلوں پر اتار چڑھاﺅ کا شکار ہوئے ۔ ایک بے ضرر سی مثال ’ پیمر ا‘ کی یہ ہدایت تھی کہ ٹی وی سکرین پر کسی قومی ہیرو یا سیاسی رہنما کو مزاحیہ یا مضحک انداز میں پیش نہ کیا جائے ۔ ٹی وی چینل مصر رہے کہ چند ہستیوں کو چھوڑ کر جن کا شمار بانیان پاکستان میں ہے ، باقی سیاستدانوں سے وہی سلوک کیا جائے جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے آئے ہیں۔ سیاستدانوں کا مذاق اڑانے کا مسئلہ ذرا علامتی سا ہے ۔ نہیں تو قصور ماضی کے اس سلوک کا ہے جو بادشاہ نے بادشاہوں سے نہیں ، ہماری حکومتوں نے ذرائع ابلاغ سے روا رکھا ۔

آزادی سے پہلے مولانا ظفر علی خاں کے زمیندار پریس کی ضبطی ، پنجاب میں دولتانہ وزارت کے دوران حمید نظامی کے نوائے وقت پہ بندش ، ہفت روزہ چٹان پر ایوبی عہد کی سختیاں ، بھٹو دور میں ایڈیٹر شورش کاشمیری کے لئے قید کی صعوبتیں اور اس سے پہلے پاکستان ٹائمز اور امرو ز پر فوجی قبضہ ،جس نے فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت کے بعد مظہر علی خاں اور احمد ندیم قاسمی کو بھی ہماری صحافت میں امر بنادیا ۔ حکومتی نگرانی میں قائم نیشنل پریس ٹرسٹ ، خبر ایجنسی اے پی پی ، سرکاری ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن نے جو پیشہ ورانہ روایات قائم کیں ،ان کے پس منظر میں روزنامہ مشرق کے مرحوم مدیر عزیز مظہر نے خود پہ ہنستے ہوئے کہا تھا : ’ ریڈیو پہ حالات حاضرہ کے پروگرام سے پہلے پروڈیوسر سے یہ کہنے کی عادت ہو تی جا رہی ہے کہ سر! آپ ہی کوئی لائن دیں، تاکہ بات شروع کی جائے ‘۔

اس ایک جملے میں ہمارے یہاں ابلاغ عامہ پہ ہونے والے ریاستی جبر کی پوری داستان پوشیدہ ہے اور یہ سبق بھی کہ اس جبر کے نتیجے میں جو پیشہ ورانہ روایت جنم لیتی ہے، اس کی فکری اور تخلیقی اٹھان غلامانہ سی ہوتی ہے ۔ اس دوران بعض اچھے صحافی بھی منظر عام پر آئے ، لیکن یہ صرف فنی اعتبار سے اچھے صحافی تھے ، جو محفوظ روزگار اور بہتر تنخواہ کی خاطر سرکاری مطبوعات اور ریڈیو ٹی وی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ انہی میں سے غیر معمولی اہلیت کے حامل اخبار نویس مصلح الدین نے ، جو نیوز ایجنسی کی ملازمت چھوڑ کر پی ٹی وی میں ڈائرکٹر نیوز کے عہدے تک پہنچے ، حکومت نواز خبر ناموں پہ کہا تھا : ’ جو کچھ نشر ہوتا ہے، آپ اسے دیکھ کر تنقید تو کرتے ہیں ، مگر کبھی سرکاری خبروں کے وہ پلندے بھی تو دیکھیں جنھیں نشر ہونے سے پہلے مَیں پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں ‘ ۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ مصلح الدین کا یہ بیان خبر نامے کا دفاع نہیں ، ایک حساس اور شریف النفس کارکن صحافی کی بے بسی کا اعتراف تھا ۔

ممتاز براڈکاسٹر اور میرے بی بی سی کے پرانے ساتھی عارف وقار نے اب سے دو سال پہلے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غیر جانبدار خبریں اور حالات حاضرہ پر بحث چونکہ کبھی پی ٹی وی کی ترجیح نہیں تھے ، اس لئے نئی صدی کی ابتدا میں نئی نئی آزادی ملنے کے بعد نجی شعبے کے سامنے سنجیدہ الیکٹرانک صحافت کا کوئی ماڈل تھا ہی نہیں ۔ واحد نمونہ ’ کامیڈی اور ڈرامہ ‘ کا تھا ۔ اس لئے شور و غل سے عاری ایسے نیوز بلیٹن اور تجزیاتی پروگرام جو منطقی ڈھانچے پر مبنی ہوتے ہوئے بھی معلومات افزا ، عام فہم اور دلچسپ ہوں ، سرے سے رواج نہ پا سکے ، چنانچہ عارف وقار کے الفاظ میں ’اب حالت یہ ہے کہ جس طرح میلے میں جائیے تو تھیٹر لگے ہوتے ہیں ، باہر پھٹے پہ مسخرے ناچ رہے ہوتے ہیں کہ آئیے ، اندر آ کر ہمارا تماشہ دیکھئے ، تو ہر چینل اپنے اپنے پھٹے پہ مسخرے نچا رہا ہے‘ ۔

سچ تو یہی ہے، مگر گہرائی میں جائیں تو براڈکاسٹ جرنلزم کے مناسب قومی ماڈل کی عدم موجودگی اس صورت حال کی واحد وجہ نہیں بنی ، کئی اسباب اور بھی ہیں ۔ کسی کی طرفداری کئے بغیر یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ سب سے پہلے ،جس معروف چینل نے خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرام شروع کئے ، ایک اخباری ادارے کے طور پر اس کی ابتدائی شہرت ایسے روزنامے کے حوالے سے تھی ،جسے غیر جانبدار قارئین سنجیدہ اور زرد صحافت کی ایک درمیانی شکل ہی سمجھتے رہے ۔ وقتی طور پر تو یہ چینل گھٹن زدہ سرکاری ٹیلی ویژن کے مقابلے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ، لیکن یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی صحافت اور پیش کاری کا کچا پن بعد میں آنے والوں کے لئے ایک بنچ مارک بن گیا ، جو آیا اس نے معمولی رد و بدل کے ساتھ اسی وکٹ پر کھیلنے کی کوشش کی ۔ بس یوں کہہ لیں:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
نجی شعبے کی نشریات کے حق میں فی الوقت سب سے مضبوط دلیل ان کی عوامی مقبولیت ہے ، جسے کچھ لوگ ان کی خبروں اور پروگراموں کے عمدہ معیار کا ثبوت خیال کرتے ہیں ، لیکن جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں کہ یہ صورت حال کہیں اس اصول کی عملی تعبیر تو نہیں ہے کہ رسد اپنی طلب آپ پیدا کیا کرتی ہے ۔ لوگوں کو محدود چوائس کے ساتھ جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا، ان کا ذوق اسی کا عادی ہو گیا ۔ بعد کا مقابلہ اسی طے شدہ ذوق کے عین مطابق ہو رہا ہے ۔ ریٹنگ میں وہی آگے ہے جس نے دوڑ پہلے لگائی اور اس کلچر کو عام کیا کہ اللہ کا نام لے کر روز ایک نیا ایشو کھڑا کر دو ۔ متن کے درست ہونے کی شرط ہے، نہ مکالمے کے مہذب ہونے کی ۔ زبان ہمارے گھر کی لونڈی ہے ، اس کے ساتھ سلوک بھی وہی ہونا چاہئے جو لونڈی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ پھر بھی اس صورت حال میں ’ باقاعدگی لانے ‘ کے لئے اگر توقعات پیمرا ہی سے وابستہ کی جائیں تو کون یہ سوچے بغیر رہ سکے گا کہ میڈیا پر بے اعتمادی کی تاریخ تو ریاستی مداخلت کے تسلسل سے جڑی ہوئی ہے ، اس کا نکالا ہوا کوئی بھی حل کیسے موثر ثابت ہو سکتا ہے :
آنکھوں میں جس کی یاد کے جالے تنے رہے
سینے پہ دست غم بھی اسی بے وفا کا تھا​

دنیا کے اور معاشروں نے اس کا حل کیسے نکالا ؟ اس پہ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے ، لیکن ہمارے حالات میں ایک حل یہ بھی ہے کہ صحافتی یونین کے تربیتی کردار کو بحال کرنے کا جتن کیا جائے ۔ یوں صحافیوں کی اس نئی نسل کی خاطر جو ہمارے بڑھاپے کا تعاقب کر رہی ہے ، سارے دھڑوں کو جوڑنے کی خواہش رکھنے والے ’بابے‘ اگر چاہیں تو ماضی کی جکڑ بندیوں کو دفن کر کے نوجوانوں کے پیشہ ورانہ طرز عمل کو سدھارنے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے آپ ہی اپنی مثال بن جائیں گے
بٹ صاحب
آپ تو خود بھی شائد صحافت کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے ہیں آپ کے اپنے کیا خیالات ہیں اس بارے میں ؟
 

عاطف بٹ

محفلین
عزیزم عاطف بٹ ! بہت خوبصورت میں تجزیہ کیا ۔ اسلام آباد میں فارن آفس کی بیٹ میں ایک صحافی تھے نسیم صاحب ، مخصوص کالی ٹوپی، کان میں پین وضعدار شخصیت تھے فارن آفس کی ہر پریس کانفرنس میں اگلی نشستوں پر نظرآتے تھے انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا " پہلے صحافت پیشہ تھی اب صنعت بن گئی تو اب صنعتکار ہی کی مرضی چلے گی ' کبھی موقع ملے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اشتہاری کمپنیوں کا میڈیا خصوصآ الیکٹرانک میڈیا میں کیا کردار ہے ۔ اس پر بھی کچھ تحریر کریں ۔
بہت عمدہ ۔ اٹلس ہنڈا سے جاری حق کا سفر جاری رکھیں ۔ تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول۔
سر، بہت شکریہ۔ میرا تحقیقی مقالہ اس سے ملتے جلتے موضوع پر ہی ہے۔ آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے! :)
 
Top