الیکشن 2008 اور ہمارا ردعمل

کیا ہمیں الیکشنوں کا بائیکات کرنا چاہیے ؟

  • ہاں

    Votes: 10 58.8%
  • نہیں

    Votes: 6 35.3%
  • پتہ نہیں

    Votes: 1 5.9%

  • Total voters
    17

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم برادران مخترم !

پرویز مشرف نےآخر کار آج وردی اتار دی اور مشرف کے بحثیت ایک آمرتاریک دور کا خاتمہ ہو گیا ۔مگرسے پاکستانی سیاست کےسیاہ ترین دور کا خاتمہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وردی کا اتارنا بھی آئندہ آنے والے بدترین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
۔مشرف کے بحیثیت آرمی چیف والے سابقہ دور کا تجزئیہ کیا جائے تو بلاشبہ اسے ایک سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے ۔جس میں امت پاکستان کو پھر سے جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔پاکستان کی حوشحالی کو غربت میں بدل دیا مہنگائی کے عفریت نے عوام کو اپنے جبڑوں تلے جکڑ لیا ۔لاقا نونیت اپنے عروج پر رہی سٹریٹ کرائمز جیسے تحفے اسی دور میں ملے۔ کئی اہم ترین ملکی اداروں کی نجکاری کر دی گئی ۔کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ پاکستانی زمین کو خرید سکیں۔فارن انوسٹمنٹ کے نام سے بیرونی سرمایہ کاروں کو ملکی کاروبار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی ۔اپنے خاشیہ برداروں اور چاپلوس ساتھیوں کو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازہ گیا ۔کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا۔غیر اسلامی تہواروں جیسے ہولی بسنت ،ویلنٹائن دے کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا۔عورتوں کی میراتھن ریس کروائی گئی۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کرائیں تاکہ معصوم طالب علموں کے دلوں سے اسلام کھرچ ڈالا جائے۔روشن خیالی کے نام سے کرپٹ مغربی اقدار اور روایات کو فروغ دیا گیا تاکہ وہ اسلام کی بجائے مغرب کو اپنا آئیڈیل محسوس کریں ۔

اسلام پسند عناصر کو دہشت گرد اور انتہا پرست جیسے مغرب سے درآمد شدہ توہین آمیز آلقابات دیئے گئے اور صرف اسی پر بس نہیں اس غدار نے پاکستان کے دروازے اپنے استعماری آقاؤں کے لئے کھول دئے اسی غدار حکمران نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وہ افغانستان کے اندر وحشیانہ کارووائیاں کر سکے اور وہاں پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرے چناچی ستاون ہزار سے زائد پروازیں جو پاکستان سے کی گئی تھیں ہزاروں مسلمان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو بھی موت کے گھات اتارا گیا ۔
اور جب مشرف کی غداری پر امریکہ خوش نہ ہوا اور مشرف کو مزید کچھ کرنے کا حکم دیا تو اس نے پاکستان کے مسلمان فوجیوں کو اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور جو کچھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہوا وہ بھی ہمیں یاد ہے جہاں لڑکیوں اور ننھے بچوں کو فاسفورس بموں سے بھون دیا گیا۔اس سنگدل انسان نے سرحد اور قبائلی علاقوں کے باشندوں کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ہر روز درجنوں کے حساب سے لوگوں کو موت کی نیند سلایا ۔
ان سب کاموں کی وجہ سے عوام میں مشرف کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور آج لوگ اس کے دور کے لئے حاتمے کی دعا کر رہے ہیں اس بات کو اس نے خود بھی محسوس کیا کہ اس کی ساکھ ختم ہو چکی ہے تو اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگایااور انتحابات کا ڈھونگ رچانے کا سوچا چناچہ اس نے بے نظیر کو پاکستان آنے دیا اور جب عدلیہ سے خطرہ محسوس کیا تو ملک میں ایمرجنسی عائد دی۔
مشرف کے کالے کارناموں کی فہرست بہت لمبی ہے مگر ان کو قلمبند کرناابھی بے مصرف ہےکیونکہ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد آئندہ آنے والے حالات کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا ہے اب یہ پرانے شکاری ایک نئے جال اور نئے حربوں کے ساتھ میدان میں آنے والے ہیں۔عوام کو دوبارہ ڈسنے کا منصوبہ تیار ہوچکاہے ۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے ہم نہ صرف ان حکمرانوں کی عوام دشمن پالسیوں کےخلاف صدائے احتجاج کریں بلکہ احتجاج کے ساتھ ساتھ الیکشنوں کا بائیکاٹ بھی کریں ،تاکہ یہ لوگ جان سکیں کہ عوام ان سے کتنی بیزار ہو چکی ہے اور مزید ان کے دجل و فریب میں آنے والی نہیں ہے ۔

ولسلام
 

خرم

محفلین
اپنی آواز دبانا نہیں اپنی آواز بلند کرنا اور سُنانا ان تمام مسائل کا حل ہے۔ اپنے آپ سے اور اپنے وطن سے لاتعلقی کے رویہ نے ہی ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کہ وہ صرف اس شخص کو ووٹ دیں جس کا کردار باقیوں سے بہتر ہو۔ جب تک یہ رویہ عوام میں جڑ نہیں پکڑتا مشرف رہے یا جائے، ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔ یہ ملک ہمارا ہے اور صرف ہمیں اس کے حالات کے بدلنے کا حق حاصل ہے اور یہ ہم پر فرض ہے۔ نہ کسی بُش کو نہ کسی مُلا عمر کو اور نہ کسی بن لادن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان یا اس کے عوام کے متعلق کوئی بھی فیصلہ یا حکم سُنا سکے یا اس ملک کو یا اس کے عوام کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق استعمال کرسکے۔ یہ بات ہم پاکستانی عوام کو باآوازِ بلند تمام دُنیا کو پہنچا دینا چاہئے۔ اگر تمام امیدوار بُرے ہیں تو اُسے ووٹ دیں جو کم بُرا ہے۔ اچھائی کی طرف ایک چھوٹا قدم بھی کم نہیں ہوتا۔ کوشش کریں مایوس نہ ہوں کہ مایوسی کفر ہے اور بنا کوشش مایوسی صرف تباہی۔
 

عمر میرزا

محفلین
پاکستانی سیاست کے اتار چرھاؤ سے آگاہ لوگ جانتے ہیں‌کہ پاکستانی انتحابات تو ایک ایسی نورا کشتی ہوتی ہے جس کے نتائج پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں
Ghq میں بیٹھ کر پہلے معاملات طےکر لئےجاتے ہیں پھر عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے انتحابات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے یہاں لوگوں نے تو انتحابات کےاتنے ڈرامے دیکھے ہیں کہ وہ اب آنکھیں بند کر کے ساری سٹوری "دی انڈ" تک سنا سکتے ہیں ۔ او ر یہ جو 2008 میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہےسب جانتے ہیں کہ اس میں ہیرو اور ہیروئین کا کردار مشرف اور بے نظیر کر رہےہیں اور ولن کے کردار کو ادا کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) بھی اپنے رہنماء کو لیکر آگئی ہے ۔ایسے میں اچھے کی امید رکھنا اوران "بروں" میں سے کسی "کم برے " کی تلاش بلکل فضول ہے۔کیونکہ یہ " زیادہ برے" ہوں یا "کم برے" ہوں سارے کہ سارے ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔
 

خرم

محفلین
تو پھر کسی اچھے کو قائل کرنا چاہئے کہ وہ آگے آئے۔ جب تک لوگ اپنے چُناؤ کا معیار اچھائی کو نہیں بناتے یہ نظام تو نہیں بدلنے کا۔ گھر بیٹھ کر باتیں کرنے سے تو تبدیلی نہیں آئے گی نا۔ فرار کا راستہ بہت خوشنما ہوتا ہے لیکن دیتا صرف ذلت ہے۔ اگر نظام بدلنا ہے تو لوگوں کو بدلنا ہوگا۔ اور جہاں تک نورا کُشتی کا تعلق ہے تو ہم لوگ مانتے ہیں اس کُشتی کو اور اس کے نتائج کو تبھی یہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی آپکی مرضی کے خلاف آپ پر حکومت نہیں کرسکتا۔ اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور اسے صحیح طریقہ سے استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر فارمولا کوئی بھی ہو، نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔
 

عمر میرزا

محفلین
کسی " اچھے " کے قائل ہونے کا انتطار کرتے کرتے آج ساٹھ سال ہوچکے ہیں اسکے سدھرنے کی امید لئے نسلیں حتم ہو گیئں آج کے نوجون کو بھی اسی خوش فہمی میں رکھا گیا ہے کہ یہ "اچھا" ایک دن " بہت اچھا" بن جائے گا مگر یہ کمبخت ایسا ہے کہ قائل ھی نہیں ہو رہا ۔
جب ہم مانتے ہیں کہ یہ انتحابات صرف نورا کشتیاں ہیں تو چناؤ کا معیار رکھنے کا کیا فائدہ ۔آُپ ووٹ ڈالیں یا نہ ڈالیں ایک برابر ہے ۔نتیجہ وہی آئیگا جو سرکار کو منظور ہو گا ۔
اس لئے بہتر ہو گا کہ بجائے ان ا نتحابات میں " اپنے فرض" یعنی "اپنی رائے " دے کر بے وقوف بنا جائے بلکہ ان سے دور رہ کر یہ باور کرایا جائے کہ ہم اب کسی دھوکے میں آنے والے نہیں۔
 

خرم

محفلین
بھائی آزاد عدلیہ کسے چاہئے؟ نوازشریف کو؟ بے نظیر کو؟ شجاعت حسین کو؟ قاضی حسین احمد کو؟ فضل الرحمان کو؟ یا شرفو کو؟ جواب آپ کے اپنے پاس ہے۔
ووٹ کی پامالی اس بات کا جواز نہیں کہ لاتعلق ہو کر بیٹھ جایا جائے۔ جب تک آپ ووٹ ڈالیں گے نہیں اس کے تقدس کا مطالبہ کیسے کریں گے؟ امریکہ میں ایک سٹکر دیکھا تھا اس پر لکھا تھا If you didn't vote, you have no right to whine۔ میرے خیال میں تو یہی درست ہے۔ آپ پر تبدیلی کے لئے کوشش کرنا فرض ہے۔ ووٹ بھی اسی کوشش کا ایک ذریعہ ہے۔ عوامی رائے کو معتبر بنانا ہے تو اس رائے کی تشکیل کرنا ہوگی اور اس میں اپنی آواز شامل کرنا ہوگی۔ اگر سمجھدار لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے تو جہلاء تو ڈالیں گے ہی اور نتیجہ وہی ہوگا جسے ہم سب جانتے ہیں۔ درست کام کرنا اور اس پر استقلال ہی نتائج کا وسیلہ ہوتا ہے۔ پانی ڈلتا رہنا چاہئے، پتھر بھی پگھل ہی جائے گا۔
 

عمر میرزا

محفلین
خرم صاحب تو اپنی رائے دے چکے میں چاہوں گا کہ دیگر احباب بھی (جو اس بات کے خامی ہیں کہ انتحابات کا بائیکاٹ نہیں ہونا چاہیے ) کچھ اظہار خیال کریں ۔
 
برادرم عمر میرزا کے کچھ خیالات سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف رکھتا ہوں کوشش کی ہے کہ ہر اختلافی نکتے کا سرخ رنگ میں اظہار کروں


السلام علیکم برادران مخترم !


پرویز مشرف نےآخر کار آج وردی اتار دی اور مشرف کے بحثیت ایک آمرتاریک دور کا خاتمہ ہو گیا (مجھے اس سے اختلاف ہے کہ پرویز مشرف کے بحیثیت ایک آمر دور کا کاتمہ ہوگیا ہے بلکہ جہاں تک میں دیکھتا ہوں آمریت اور فسطایئت کا دور آنے کی تیاری میں ہے اور ہمارے عزیز ہم وطن اسے دیکھ نہیں پا رہے ہیں) ۔مگرسے پاکستانی سیاست کےسیاہ ترین دور کا خاتمہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وردی کا اتارنا بھی آئندہ آنے والے بدترین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔(مجھے آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے)

۔مشرف کے بحیثیت آرمی چیف والے سابقہ دور کا تجزئیہ کیا جائے تو بلاشبہ اسے ایک سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے۔( بے شک مگر اس کی کچھ وجوہات شاید میرے نزدیک مختلف ہوں آپ کی خطابت سے بھر پور بیان کردہ جوہات سے) ۔ جس میں امت پاکستان کو پھر سے جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔پاکستان کی حوشحالی کو غربت میں بدل دیا مہنگائی کے عفریت نے عوام کو اپنے جبڑوں تلے جکڑ لیا ۔لاقا نونیت اپنے عروج پر رہی سٹریٹ کرائمز جیسے تحفے اسی دور میں ملے۔ کئی اہم ترین ملکی اداروں کی نجکاری کر دی گئی ۔کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ پاکستانی زمین کو خرید سکیں۔فارن انوسٹمنٹ کے نام سے بیرونی سرمایہ کاروں کو ملکی کاروبار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی ۔اپنے خاشیہ برداروں اور چاپلوس ساتھیوں کو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازہ گیا ۔کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا۔غیر اسلامی تہواروں جیسے ہولی بسنت ،ویلنٹائن دے کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا۔عورتوں کی میراتھن ریس کروائی گئی۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کرائیں تاکہ معصوم طالب علموں کے دلوں سے اسلام کھرچ ڈالا جائے۔روشن خیالی کے نام سے کرپٹ مغربی اقدار اور روایات کو فروغ دیا گیا تاکہ وہ اسلام کی بجائے مغرب کو اپنا آئیڈیل محسوس کریں ۔

( معاف کیجئے آپ کے لگائے گئے تقریباََ زیادہ تر الزامات تو شاید اس کے لئے تمغہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ جس پاکستانی قوم کو امت کہتے ہیں وہ ایک امت نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہے جو کہ چند ایسے علاقوں میں بستی ہے جو کہ ایک مسلمان اکثریت والے ملک کا حصہ ہیں اور اس ملک کا ہر حصہ اپنی مقامی روایات رکھتا ہے ان روایات کا تعلق علاقوں سے ہے نہ کہ دین سے ۔ مثلا بسنت کا تعلق ایک موسمی تہوار سے ہے نہ کہ کسی بھی دین سے ۔ ہاں ایسا ضرور ہے کہ جس علاقے سے یہ تعلق رکھتا ہے وہاں بہت عرصہ تک غیر مسلموں کی حکومت رہی ہو مگر مسلمان حکمرانوں کے دور میں بھی ایسی روایات کو دبایا نہیں گیا کیوں کہ ان کا تعلق ایک علاقے سے ہے اور ہر علاقے کو اپنی روایات میں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ۔)

بقول آپ کے پرویز مشرف نے پاکستانی قوم کو جسے اگر " امت " کی بجائے " شعب " کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا ۔ جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا مگر میں اسے ایسے دیکھتا ہوں کہ اسی مشرف کے دور میں پاکستان میں بچیوں کی تعلیم ایک خاص درجے تک مفت ہوئی ۔ جبکہ آپ کی دوسری بات کہ ۔لاقا نونیت اپنے عروج پر رہی سٹریٹ کرائمز جیسے تحفے اسی دور میں ملے۔ لاقانونیت کا تعلق عوام کی معاشی حالت اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے والے اداروں کی سختی سے ہوتا ہے ۔ مگر انکا علم صرف میڈیا کے ذریعے آپ کو ہوتا ہے ۔ جہاں ایک قتل کی خبر کئی مہینوں بعد کسی کے کانوں پڑتی ہو وہیں کسی معمولی سی بات کو بھی ایک "خبر" بنا کر آپ کے سامنے دن میں بیس بار رکھا جائے گا تو آپ تو اسے لاقانونیت ہی سمجھیں گے نا ۔ ٹھیک ہے پاکستان میں لاقانونیت ہے مگر اسے بے نقاب کرنے والا بھی یہی میڈیا ہے جسے آپ مغرب ذدہ چینل ہونے کا نام دیتے ہیں ۔

آپ کا اگلا اعتراض یہ ہے کہ ۔اپنے خاشیہ برداروں اور چاپلوس ساتھیوں کو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازہ گیا ۔ تو جناب عالی کس دور میں ایسا نہیں ہوا ۔ ایک صدر کی بات تو ایک طرف آپ خود اگر محلے کے کونسلر بن جاتے ہیں تو سب سے پہلے آپ اپنے ارد گرد کے حلقہ برداروں کو نوازیں گے ۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے ایسا نہیں کیا اور انکے تو اپنے الفاظ ہیں کہ مجھے معلوم ہے میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں مگر انہوں نے ان کے باوجود اپنا کام کیا ۔ کیا جناب لیاقت علی خان نے ایسا نہیں کیا۔۔۔؟ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسا نہیں کیا ۔ ۔ ۔؟ ضیاء الحق ۔ نواز شریف ۔ بے نظیر ۔ جونیجو مرحوم غرض کہ کوئی بھی سیاستدان دیکھ لیں اس حقیقت کو تو پھر سب کا قصور بنا کر لگائیں نہ کہ صرف بھائی پیجا صاحب کا ۔

اگلا اعتراض یہ ہے آپ کا کہ کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا یہ سیلاب لانے میں جہاں میڈیا کا ہاتھ ہے وہیں ہم لوگوں کا بھی ایک حد تک قصور ہے ۔اگر آپ لوگوں کی ہمشیرائیں اور والدائیں دن رات "گھر گھر کی کہانی" کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی کو موضوع بحث بنائے ہیں تو آپ لوگ خود اسٹار نیوز ۔ ایم بی سی ایکشن ۔ ایم بی سی 2 اور ہاٹ برڈ پر گولڈن ڈریمز کے دیوانے ہیں۔ اب ایک چیز طے ہے دکاندار وہی چیز بیچے گا جسکی مانگ ہوگی نہ کہ وہ چیز جسے آپ لینا ہی نہیں چاہتے تو ایسے میں میڈیا کو قصور وار ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے اور اسی طرح حکومت کو قصور وار ٹھہرانا بھی ایک غیر حقیقت پسندانہ عمل ہوگا کیونکہ اگر وہ روکیں تو آپ لوگ ہی حکومت کو ظالم ظالم کہتے نہیں تھکتے نہ روکیں تو کہتے ہیں کہ کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا ۔

پھر آپ کا یہ فرمانا کہ

غیر اسلامی( یعنی کہ مقامی اور اقلیتی مذاہب کے لوگوں کے) تہواروں جیسے ہولی ہندو اور سکھ مذہب کا تہوار ہے اور پاکستان میں ہندو اور سکھ اقلیت کا وجود ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے بسنت پنجاب کا تہوار ہے اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ایک خاص علاقے اور سال کے ایک خاص موسم سے ہے ،ویلنٹائن ڈے ( کیا دنیا کی ایک بڑی اکثریت اس تہوار کو نہیں مناتی ۔۔۔؟ اور غلط ہی سہی اگر کوئی اس تہوار کو مناتا ہے تو اس کا ذاتی فعل ہے اور افراد کے افعال پر آپ احتجاج کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے والے افراد کو اگر معاشرے کے کچھ عناصر کی طرف سے خطرہ ہو تو انکی حفاظت) کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا۔عورتوں کی میراتھن ریس کروائی گئیتو شاید میں غلط سمجھ رہا ہوں کہ آپ کو خواتین کے دوڑنے پر اعتراض ہے ہاں اگر انکے کھلے عام چست کپڑوں میں اعتراض ہے تو آپ اس کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں مگر تشدد کا حق کبھی کسی کو نہیں دیا جاسکت اور اگر ایسے افراد جو تشدد سے انہیں روکنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کے خلاف انہیں پروٹیکشن دی گئی تو معاشرے کے کچھ عناصر کو معاشرے میں انکے دوسرے عناصر کے تشدد سے محفوظ رکھنے کو آپ سرپرستی نہیں کہ سکتے ۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کرائیں تاکہ معصوم طالب علموں کے دلوں سے اسلام کھرچ ڈالا جائے( تو جناب کے خیال میں پہلے ہمارا تعلیمی نظام مجاہدین پیدا کرتا تھا ۔ اور شاید پہلے کے تعلیمی نظام سے اولیاء اللہ پیدا ہوتے ہوں ہمیں نہیں علم جبکہ جہاں تک مجھے علم ہے مدارس کو اتنی ڈھیل کسی زمانے میں نہیں دی گئی)۔روشن خیالی کے نام سے کرپٹ مغربی اقدار اور روایات کو فروغ دیا گیا تاکہ وہ اسلام کی بجائے مغرب کو اپنا آئیڈیل محسوس کریں ۔
( معاف کیجئے بہت بار سن لیا اب تو رٹا رٹایا جملہ لگتا ہے ۔ جو بھی حکمران آتا ہے اسپر یہی الزام لگتا ہے ۔ )


اسلام پسند عناصر کو دہشت گرد اور انتہا پرست جیسے مغرب سے درآمد شدہ توہین آمیز آلقابات دیئے گئے اور صرف اسی پر بس نہیں اس غدار نے پاکستان کے دروازے اپنے استعماری آقاؤں کے لئے کھول دئے اسی غدار حکمران نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وہ افغانستان کے اندر وحشیانہ کارووائیاں کر سکے اور وہاں پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرے چناچی ستاون ہزار سے زائد پروازیں جو پاکستان سے کی گئی تھیں ہزاروں مسلمان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو بھی موت کے گھات اتارا گیا ۔
اور جب مشرف کی غداری پر امریکہ خوش نہ ہوا اور مشرف کو مزید کچھ کرنے کا حکم دیا تو اس نے پاکستان کے مسلمان فوجیوں کو اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور جو کچھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہوا وہ بھی ہمیں یاد ہے جہاں لڑکیوں اور ننھے بچوں کو فاسفورس بموں سے بھون دیا گیا(میرے نزدیک اس کے ذمہ داران جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے منتظمین تھے جنہیں آپ جیسے لوگ آج کل شہید کہتے ہیں امید ہے کہ میرا اختلاف رائے طبیعت نازک پر گراں نہیں گزرے گا اور کوئی فتویٰ میرا پیچھا کرتا ہوا نہیں آ جائے گا)۔اس سنگدل انسان(واقعی یہ بہت سنگ دل انسان ہے جس نے اپنے فوجیوں کے ذبح ہونے کی فلمیں دیکھ کر بھی سبق نہ سیکھا انتہائی سنگ دل انسان ہے یہ کہ اس نے اپنے ہی ملک کے محافطوں کے سروں میں اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں ہونے والے چار چار انچ کے سوراخوں کو دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا۔ درست طور پر اسے سنگ دل ہی کہنا چاہیئے کہ ایسے لوگوں کو بھی جو ان اعمال میں ملوث ہیں یہ عمومی طریقے سے ڈیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے) نے سرحد(غلط بات ہے سرحد بھر کے نہیں) اور قبائلی علاقوں کے(ایسے ملکی غیر ملکی) باشندوں کے خلاف اعلان جنگ کیا(جو ان دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں) اور ہر روز درجنوں کے حساب سے لوگوں کو موت کی نیند سلایا ۔



کن اسلام پسندوں کی بات کرتے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔؟ کیا یہ وہی تو نہیں جن کے متعلق سورۃ البقرۃ میں بیان کیا گیا ہے اصل آیت تو مجھے ڈھونڈ کر یہاں پیش کرنی ہوگی مگر اس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ " جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم فساد نہیں پھیلاتے بلکہ ہم تو اصلاح کنندہ ہیں " یاد رہے کہ یہ صرف مفہوم ہے اصل آیہ پیش کروں گا تو درست ترجمہ وغیرہ کے ساتھ پیش کروں گا بے گناہوں کے قاتلوں پر اسلام پسند ہونے کا الزام مت لگائیں اسلام یعنی سلامتی کا مذہب جبکہ ان لوگوں کے افعال انکے نصب العین کی نشاندہی کرتے ہیں )




ولسلام
 
ہاں انتخابات کے نام پر ڈرامہ بازی کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہوگا ۔۔۔۔؟
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم!

ہاں انتخابات کے نام پر ڈرامہ بازی کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہوگا ۔۔۔۔؟

چھ دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند خاندان اور پارٹیاں ہی پاکستانی سیاست کی مالک ہیں ۔جو کبھی انتحابات کے ذریعے اور کبھی فوجی انقلاب کے زریعے حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں ۔اور اس مسلئے کی وجہ یہ نطام ہے جو کہ سیکولرازم اور جمہوریت کا ملغوبہ ہے ۔جو ان مفاد پرستوں کے لئے اقتدار کا حصول انتہائی آسان بناتا ہے ۔
اگر اسکا کوئی متبادل ہے تو وہ صرف اور صرف خلافت کا نظام ہے ۔ اور صرف خلافت ہی ہم کو موجودہ مسائل سے چھٹکارا دلا سکتی ہے ۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ صرف آپ اس نہج پر سوچنا شروع کریں ۔کہ "کیا واقعی خلافت موجودہ مسائل کا حل ہے" ، جواب آپ کو خود بخود ملنے شروع ہوجاہیں گے۔
والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اس الیکشن کا انکار کرو- استعماری نظام کو مسمار کرو -خلافت کا نفاذ کرو

اے مسلمانان پاکستان !

آپ نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ 28 نومبر 2007 کو پاکستان کے حکمران پرویز مشرف نے وہ وردی اتار دی ، جسے اس نے ایک مرتبہ کھال کہا تھا ۔اگلے ہی روز مشرف نے موجودہ نظام کے تحت سویلین صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا اور وہ اب جنوری 2008 کے انتحابات کی نگرانی کرے گا ۔یوں مشرف نے انتہائی تابعداری کے ساتھ اپنے آقا امریکی صدر جارج بش کی خواہش کو پورا کیا ،جس نے 20 نومبر 2007 کو دنیا کے سامنے یہ کہا تھا :" اس (مشرف ) نے کہا ہے کہ وہ یونیفارم اتارنے جا رہا ہے،اس نے کہا ہے کہ الیکشن منعقد کئے جائیں گے"
آتھ سال کی طویل اور وفادار خدمت کے باوجود امریکہ نے مشرف کی ذاتی خواہش کو قربان کر دیا کیونکہ موجودہ نظام کو قائم رکھنا امریکہ کے لئے مشرف سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ،خواہ اس کے نتیجے میں اس کے ایجنٹ کا انجام کچھ بھی ہو ۔کیونکہ یہ پاکستان کا استعماری نظام ہی ہے ۔جس نے مشرف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ گزشتہ آتھ سالوں کے دوران باربار آپ سے غداری کرے ۔یہ پاکستنان کا استعماری نظام ہی ہے جس نے امریکہ کو اس با-ت کی اجازت دی کہ وہ افغانستان پر قبضے کےلئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرے ۔اس نظام ہی نے پاکستان کے وسائل پر استعماری طاقتوں کے کنٹرول کو مضبوط تر بنانے ،کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف ہندو مشرکین کو تھپکی دینے،دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے نیوکلئیر پروگرام کی رفتار کو سست کرنے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محبوس کرنے ، لال مسجد میں سینکڑوں طالبعلموں کو بموں سے بھوں دینے ، اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی فوج کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی مسلمان بھایئوں کے خلاف لڑانے کی اجازت دی ہے

پاکستان میں نافذ اس استعماری نظام نے پچھلی چھ دہائیوں کے دوران محض غدار ہی پیدا کئے ہیں۔اقتدار میں آنے والے ہر حکمران نے اس بات کو یقینی بنیایا کہ استعماری قوتیتں آپ کے امور پر حاوی ہیں ،خواہ یہ حکمران جمہوری انتحابات کے ذریعےآیا ہو یا فوجی انقلاب کے زریعے ۔ پس آپ نے دیکھا کہ خواہ جمہوریت ہو یا آمریت آئی-ایم -ایف اور ورلڈ بنک آپ کے وسائل کا استحصال کرتے رہے ہیں ،عدلیہ انگریز کے چھوڑے ہو ئے استعماری قوانین کی بنیاد پر ہی فیصلے کرتی رہی ،آپ کی فوج کو دنیا بھر میں مغرب ی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھیجا جاتا رہا،

مکمل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
 
آپ کے خیال میں خلیفہ کون ہونا چاہیئے اور کیوں ۔ خلافت کا نعرہ لگانا بے حد آسان ہے مگر اس کی ذمہ داریوں کو سوائے چند صحابہ اور اللہ کے ہدایت یافتہ افراد کے کون سمجھ سکا ہے ۔۔۔؟ کیا خلافت میں آمریت کی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔؟ موجودہ دور میں جس خلافت کی نعرہ بازی کی بنیاد پر کچھ جماعتیں اپنا پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی دوسری کے امیر کو خلیفۃ المسلمین ماننے پر راضی ہے ۔۔۔؟ اور خلافت کہاں ہونی چاہیئے پاکستان میں یا تمام مسلمان ممالک میں ۔۔۔؟ اگر صرف پاکستان میں ہی تو کیوں اور اگر تمام اسلامی ممالک میں تو کیسے ۔۔۔؟ ۔ اگر خلافت پاکستان میں قائم کر بھی دی جاتی ہے تو اسکا خلیفۃ خلیفۃ المسلمین ہوگا یا پھر خلیفۃ الباکستان ۔۔۔؟ اگر وہ خلیفۃ المسلین ہوگا تو ایسے خلیفۃ کی کیا کہئے جسے اکثر بلکہ اغلب مسلمان ماننے سے انکار کرتے ہوں اور اگر خلیفۃ الباکستان تو اس سے کیا فائدہ ہوگا ۔


یہ چند سوالات ہیں جو مجھے پریشان کرتے ہیں اگر ان کا جواب عنایت ہو تو کرم ہوگا
 

عمر میرزا

محفلین
آپ کے خیال میں خلیفہ کون ہونا چاہیئے اور کیوں

امت میں سے کوئی بھی شحص جو عاقل و بالغ ہو، جکومتی معاملات کو چلانے کا اہل ہو خلیفہ بن سکتا ہے ۔ امت مسلمہ میں کئی ایسے اشحاص ہیں جو عوام میں مشہور ہیں جن کو خلیفہ بنایا جا سکتا ہے ۔مثلا ،ڈاکٹر ذاکر نائیک،یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان وغیرہ وغیرہ ۔


کیونکہ خلافت کا قیام ایک فرض‌ہے

خلافت کا نعرہ لگانا بے حد آسان ہے مگر اس کی ذمہ داریوں کو سوائے چند صحابہ اور اللہ کے ہدایت یافتہ افراد کے کون سمجھ سکا ہے ۔۔۔؟

بے شک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جیسے دین کو سمجھااور اس پر عمل کیا وہ بے مثل ہے ۔ان معتبر ہستیوں سے مقابلہ کرنا معاذ اللہ نہ صرف سوئے ادب ہے بلکہ گناہ بھی ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کے احکامات ناقابل عمل ہیں اور صرف چند لوگو ں کے اور کوئی بھی ان کو پورا نہیں کرسکتا بلکہ اصحاب رسول کی زندگیاں تو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں کہ جیسے انہوں نے کیا ہم بھی ویسے ہی اعمال کریں۔

موجودہ دور میں جس خلافت کی نعرہ بازی کی بنیاد پر کچھ جماعتیں اپنا پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی دوسری کے امیر کو خلیفۃ المسلمین ماننے پر راضی ہے ۔۔۔؟

جہاں تک میرے علم میں ہے کسی جماعت نے کسی کو بھی خلیفہ نامزد نہیں ۔اور جہاں تک حزب التحریر کے امیر کی بات ہے وہ نہ تو خلیفہ المسلمین ہیں اور نہ ہم انہیں سمجھتے ہیں وہ تو صر ف جماعت کے امیر ہیں۔ اگر آپ کے علم میں کوئی ایسی جماعت ہے جو اپنے امیر کو خلیفہ کہتی ہے تو بتا دیجئے۔

اور خلافت کہاں ہونی چاہیئے پاکستان میں یا تمام مسلمان ممالک میں ۔۔۔؟ اگر صرف پاکستان میں ہی تو کیوں اور اگر تمام اسلامی ممالک میں تو کیسے ۔۔۔؟
کون مسلمان ایسا نہیں چاہے گ اکہ اللہ کا دین ساری دنیا میں غالب نہ ہو۔خلافت تو پوری دنیا میں ہونی چاہیے۔
لیکن ظاہر ہے ایک دم ساری دنیا میں ایسا ہو جانا انسانی لحاظ سے ناممکن ہے اس لئے کسی ایک اسلامی ملک سے اس کی ابتدا ء کی جاسکتی ہے وہ بھی ایسا ملک جو اندرونی طور پر کچھ مضبوط ہو اور بیرونی دباؤ کو بھی برداشت کر سکے جیسا کہ ،پاکستان ،مصر ، ترکی وغیرہ ۔کسی کمزور ملک سے اس کی ابتداء کرنا ہر گز غلط ہو گا جیسے کے افغانستان میں ہوا بھی۔
اس کے بعد دیگر ممالک کو ساتھ جوڑا جا ئے گا۔

اگر خلافت پاکستان میں قائم کر بھی دی جاتی ہے تو اسکا خلیفۃ خلیفۃ المسلمین ہوگا یا پھر خلیفۃ الباکستان ۔۔۔؟

اللہ آپ کی زبان مبارک کرے اور اللہ کرے کہ پاکستان سے ہی خلافت کا آغاز ہو ۔اور یہں پر خلافت کا دارلحکومت بنے ۔اور یہ سعادت ہمارے حصہ میں آئے کہ ہم ہی اس کو سر انجام دینے والے ہوں ۔
اور جہاں تک بات ہے خلیفہ کے لقب کی تو اس کے لئے ایک بات مد نظر رہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفۃ ہو سکتا ہےاور اسے خلیفۃ المسلمین ہی کہا جائے گا کیونکہ کبھی بھی علاقے کی وجہ سے کسی کو خلیفۃ المکہ،خلیفۃ المدینہ ،خلیفۃ بغداد یا خلیفۃ ترکی نہیں کہا گیا ۔

اگر وہ خلیفۃ المسلین ہوگا تو ایسے خلیفۃ کی کیا کہئے جسے اکثر بلکہ اغلب مسلمان ماننے سے انکار کرتے ہوں اور اگر خلیفۃ الباکستان تو اس سے کیا فائدہ ہوگا ۔
خلافت آنے کے بعد اپنے آپ کو منوانا تو اس خلیفہ پر منحصر ہے ۔اگر وہ واقعی قران سنت کا نفاز کرے گا اور امت کو معاشی اور ریاستی تخفظ دے گا تو امت اس ماننے سے کیونکر انکار کرے گی۔
جناب ہماری عوام تو اس کونسلر کا بھی مان جاتی ہے جو محلے کی گلیاں اور نالیاں پکی کروا دیتا ہے ۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
زمینی حقائق سے ہٹ کر کوئی بات کی جائے تو وہ کوفت کا باعث ہوتی ہے ۔ خلافت اور پھر اس کا اطلاق ایسے مسلم معاشرے میں جہاں اسلامی اقدار کا صحیح تشخص ہی پارہ پارہ ہے ۔ وہاں خلافت کے نظام کی بات کرنا سماجی ، معاشی ، سیاسی اور مذہبی حالات کا سطحی جائزہ لینے کے مترادف ہے ۔
مسلمان بحیثت ایک قوم جب بھی اپنا ایک اجتماعی نظم قائم کرتے ہیں ۔ تو قرانِ مجید کی رُو سے ان پر ایک بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں دین کا شعور پیدا کریں ۔ ہمارے پاس کیا ہے ۔ نہ ہم لوگوں میں دین کا شعور پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو دنیا تک پہنچانے کا کوئی اہتمام کرتے ہیں ۔ کسی معاشرے میں غلبہ حاصل کرنا یا پھر اس معاشرے کو اقدار کی طرف مائل کرنا کسی معاشی ، سیاسی نظام کے تحت نہیں حاصل کیا جاتا بلکہ علم و اخلاق کی برتری کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ۔ دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں وجود میں آئیں ہیں ۔ اگر ان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرکے معاشرے کو ایک مثالی ریاست بنانے کے مقام پر پہنچی ہیں ۔ مسلمانوں کو بھی جب غلبہ حاصل ہوا تو وہ علم و اخلاق کے اعتبار سے اس وقت برتری کے مقام پر کھڑے تھے ۔ اگر اس وقت مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ علم و اخلاق کے اعتبار سے برتری کے مقام پر کھڑے ہوئے ہیں ۔

اب ایسا معاشرہ جس میں علمی اور اخلاقی قدریں ناپید ہوں ۔ وہاں کوئی بھی نظام اگر لایا جائے تو اس کی نوعیت خواہ مذہبی ہو یا پھر سیاسی ، وہ اس معاشرے میں پنپ نہیں سکتا ۔ معاشرہ فرد سے بنتا ہے اور اسی معاشرے سے کسی ریاست کا ظہور واقع ہوتا ہے ۔ فرد ، معاشرہ اور ریاست ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم ہیں ۔ ریاست کسی بھی شکل میں ہو اس کا اصل مقصد معاشرے میں امن و امان اور انصاف کو قانونی اصولوں پر قائم کرنا ہوتا ہے ۔ کسی زبردستی کے نظام سے آپ لوگوں کی قسمت یا ذہن بدل نہیں سکتے ۔ اس کے لیئے ان میں اخلاقی اور علمی قابلیت پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ جب ان چیزوں سے کوئی معاشرہ مستفید ہوجاتا ہے تو پھر کہیں جاکر ایک ریاستی نظام اپنی اصل ساخت و شکل میں کام کرنا شروع کرتا ہے ۔ بصورت دیگر آپ چاہے کتنے ہی ریاستی نظام لیکر آجائیں ۔ اس سے فلاح کا ظہور ہرگز نہیں ہونا ۔
 

عمر میرزا

محفلین
خلافت اور پھر اس کا اطلاق ایسے مسلم معاشرے میں جہاں اسلامی اقدار کا صحیح تشخص ہی پارہ پارہ ہے ۔ وہاں خلافت کے نظام کی بات کرنا سماجی ، معاشی ، سیاسی اور مذہبی حالات کا سطحی جائزہ لینے کے مترادف ہے ۔


ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلام کے نزدیک ریاست کا مقصد کیا ہے ۔دراصل ریاست بزات خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد کا وسیلہ ہے ۔یہ مقصد کیا ہے ؟ایک ایسی امت کی تشکیل جو عدل وانصاف کی علم بردرا ہو "امر بلمعروف اور نہی عن المنکر " کرے گویا دوسرے الفاظ میں آپ یوں سمجھ لیں کہ خلافت کا مقصد وہ اجتعماعی حالات پیدا کرنے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ انسان اللہ تعالٰی کے وضع کردہ قانون فطرت یعنی اسلام کے مطابق روحانی اور مادی زندگی گزار سکیں۔
آپ اپنی نیکی کے باوجود معاشرے کے اندر رہ کر الگ تھلگ صحیح اسلامی زندگی بسر نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنی انفرادی زندگی کو کو اس شکل میں ڈھال سکتے ہیں ۔جس کا اعمال و افعال میں اسلام ہم سے متقاضی ہے۔


معاشرہ فرد سے بنتا ہے اور اسی معاشرے سے کسی ریاست کا ظہور واقع ہوتا ہے ۔ فرد ، معاشرہ اور ریاست ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم ہیں ۔

معاشرے کی یہ تعریف کرنا کہ "معاشر ہ فرد سے بنتا ہے " ایک نامکمل تعریف ہے کیونکہ اس سے کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کی درستگی کے لئے توجہ صرف افراد پر مبذول ہو جاتی ہے۔ اور پھر لاحاصل جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔
اگر معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں نہ صرف افراد بلکہ ان کے احساسات ،ان کے جذبات اور ان پر راءج نظام بھی شامل ہوتا ہے ۔

انفرادی طور پر معاشرے کو متحرک تو کیا جاسکتاہے مگر اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ صرف ریاستی قانون ہی کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ دوڑ ہوتی ہے جس سے معاشرے کو کسی بھی سمت چلایا جا سکتا ہے ۔اس قانون کے تحت ہی افراد کے احساسات اور جذبات کو بدلا جاسکتا ہے ۔ احساسات اور جذبات میں تغیر ہی انسانی اعمال و افعال میں بدلاؤ لیکر آتا ہے ۔ اور اعمال و افعال میں بتدریج ارتقاء ہی معاشرے کو صحیح حطوط پر استور کرتا ہے
 

ظفری

لائبریرین
معاشرے کی یہ تعریف کرنا کہ "معاشر ہ فرد سے بنتا ہے " ایک نامکمل تعریف ہے کیونکہ اس سے کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کی درستگی کے لئے توجہ صرف افراد پر مبذول ہو جاتی ہے۔ اور پھر لاحاصل جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔
انفرادی طور پر معاشرے کو متحرک تو کیا جاسکتاہے مگر اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ صرف ریاستی قانون ہی کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ دوڑ ہوتی ہے جس سے معاشرے کو کسی بھی سمت چلایا جا سکتا ہے ۔اس قانون کے تحت ہی افراد کے احساسات اور جذبات کو بدلا جاسکتا ہے ۔ احساسات اور جذبات میں تغیر ہی انسانی اعمال و افعال میں بدلاؤ لیکر آتا ہے ۔ اور اعمال و افعال میں بتدریج ارتقاء ہی معاشرے کو صحیح حطوط پر استور کرتا ہے
جناب اس موضوع پر تو میں پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکا ہوں ۔ یہاں صرف اب یہ کہنا مقصود ہے کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے ۔ اور اچھے افراد ہی ایک اچھا معاشرہ بناتے ہیں ۔ اور ایک اچھا معاشرہ ایک اچھی ریاست کی تخلیق کا سبب بنتا ہے ۔ اگر معاشرے میں ہی اچھے افراد ناپید ہوں ، اخلاقی قدریں خستہ ہوں ، علم کی ناقدری ہو تو ایسے معاشرے میں آپ کس قسم کی ریاست کا تصور پیش کرنا چاہ رہے ہیں ۔ اگر آپ خلفیہِ راشدین کی خلافت کا دور لانے چاہ رہے ہیں تو کیا ہمارے پاس ایسا معاشرہ ہے جو اس نظام کو قبول کر سکے ۔

اور آپ جو ریاستی قانون کی بات کر رہے ہیں تو پہلے یہ طے ہو کہ اس ریاستی قانون کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہوگی ۔ کیا ہمارے پاس ایسے اہل لوگ موجود ہیں جو اس ریاستی امور کے قانونی ڈھانچے کو منصفانہ طور پر چلا سکیں ۔ دنیا میں ابھی تک کوئی ایسا قانون وجود پذیر نہیں ہوا ہے جو لوگوں کے اخلاقی طرزِ عمل کو بدل کردے یا ان کے احساسات اور جذبات میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا کرسکے ۔ اس قسم کی تبدیلی ، غورو فکر ، اخلاقی تعلیم اور عملی شعور کے معیار سے مربوط ہوتی ہے ۔ جب تک معاشرہ ( جو کہ افراد سے وابستہ ہے ) اپنے اندر اعلی اقدار اور علمی قابلیت پیدا نہیں کرتا ۔ وہ کسی بھی قسم کے ریاستی نظام کو قبول نہیں کرسکتا ۔ آج ہمارے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ ہم اپنا روایتی اقدار کھو چکے ہیں ۔ ہمارے ہاں اسلامی تشخص کئی نظریات میں بٹ کر اپنی مختلف ترجیحات بنا چکا ہے ، علمی سطح پر ہم دنیا سے کئی سو سال پیچھے ہیں ۔ قومی سطح پر ہمارے درجات مرتب کیئے جاچکے ہیں ۔ ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ عام ہے ۔ ایسی صورتحال میں اگر آپ نے خلافت نافذ بھی کردی تو اس کا اطلاق کن لوگوں پر ہوگا اور کیسے ہوگا ۔ نفاذِ شریعت پر آپ نے قوم کا ردعمل دیکھ لیا ہے ۔ ایسی صورتحال میں خلافت اور اس کے اطلاق کی باتیں خیالی دنیا کی باتیں لگتیں ہیں ۔
 

عمر میرزا

محفلین
کسی زبردستی کے نظام سے آپ لوگوں کی قسمت یا ذہن بدل نہیں سکتے ۔ اس کے لیئے ان میں اخلاقی اور علمی قابلیت پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے

جب تک معاشرہ ( جو کہ افراد سے وابستہ ہے ) اپنے اندر اعلی اقدار اور علمی قابلیت پیدا نہیں کرتا ۔ وہ کسی بھی قسم کے ریاستی نظام کو قبول نہیں کرسکتا ۔


ظفری میں آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ زبردستی کے نطام سے لوگوں کے ذہن نہیں بدلے جاسکتے۔
بلا شبہ ذہن بدلنے کے لئے افراد کا آمادہ ہونا لازم ہوتا ہے ۔ اور کوئی بھی قوم اس وقت تک اعٰلی اقدار حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ اندرونی طور پر متحد نہ ہو اور کس بھی قوم میں یہ اتحاد اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک وہ کسی معروف و منکر پر اتفاق نہ کر لے اور پھر یہ اتفاق بھی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک وہ معاشرہ اس امر کو تسلیم نہیں کر لیتا کہ اخلاقی فرائض کا سرچشمہ درحقیقت ایک مستقل اور مطلق اخلاقی قانون ہے ۔جو کہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ مگر معاشرہ ازخود یہ تبدیلی اپنے اندر لانے سے قاصر ہوتا ہے اسکے لئے ایک تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر کسی ملک میں ایسا نظام قائم کر دیا جائے جس سے لوگ آگاہ نہ ہوں اورنہ ہی اس نظام کو اپنے مسلئوں کا حل سمجھتے ہوں تو یقینا وہ ناکام ثابت ہو گا ۔اس لئے کسی بھی نظام کے قیام سے پہلے معاشرے میں اس نظام کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا از بس ضروری ہوتا ہے۔
ہم جس خلافت کو لانے کی بات کر رہے ہیں وہ کسی چھاپہ مار کارروائی یا بندوق کے بل پر نہیں لانے والے بلکہ امت کے ساتھ ملکر امت میں خلافت کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ،امت کو یہ باور کرانا کہ جتنے بھی رائج الوقت تصورات (ideaologies) ہیں۔ جیسے جمہوریت ،کیپٹل ازم اور سیکولرازم وغیرہ سب کے سب باطل ہیں۔ان کو اپنا کر صرف تباہی اور بربادی ہی انسانیت کا مقدر بنتی ہے ۔صرف اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ہمارے مسائل کا حل ہے اور دارلاسلام کا قیام ایک مزہبی فریضہ بھی ہے ۔اور جب یہ پیغام لوگوں کی پکار بن جائے اس کے بعد نظام کو نفاذ عمل می‌ آتا ہے۔
 
Top