الوداع (افسانہ)

برائے تنقید و تبصرہ ۔۔۔۔

الوداع
محمد علم اللہ اصلاحی
دور افق پر ڈوبتے ہوئے سورج کی باقیات میں سے پھیلتی ہوئی سرخی پوری طرح نمودار نہیں ہوئی ہے۔ ابھی اجالا ہے ،ہلکا ہلکا اجالا ،جو ابھی تھوڑی دیر میں اندھیرے کی شکل لینا شروع کر دے گا۔ امی باورچی خانے میں ابھی بھی کچھ کھٹ پٹ کر رہی ہیں ،جبکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں سوٹ کیس اور بیگ پیک ہو چکے ہیں اور اب مزید کوئی چیز رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ راحیل کرسی پر آرام سے بیٹھا ہے اور ابو دروازے پر ٹہل رہے ہیں پتہ نہیں کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔راحیل کبھی باہر کی طرف دیکھتا ہے، کبھی کچن کی طرف، اسے لگتا ہے جیسے سبھی کسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے گھڑی کی سوئیوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹک ٹک کرتے بڑھنا بھی کافی اداس ، افسردہ او ر ا تھکا دینے والا ہے۔ابو باہر ٹہل نہیں رہے بلکہ بیٹے کے فراق میں غم زدہ کچھ سوچ رہے ہیں ،جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو کہ راحیل اسی گھر میں اسی ٹوٹی کرسی پر بیٹھا ہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر پر کبھی اندر آ رہے ہیں اور کبھی باہر جا رہے ہیں۔
امی ایک ڈبے میں کچھ لے کر آ تی ہیں۔
اسے بیگ کی سائڈ والے خانے میں جگہ بنا کر رکھ لو۔
کیا ہے یہ۔۔۔ ؟
راستے میں کھانے کے لئے کچھ ناشتہ۔
امی، میں نے کہا تھا نہ نا کہ پلین میں کھانا ملتا ہے۔
پر یہ کھانا کہاں ہے بیٹا ،بس ایسے ہی کچھ ناشتہ ہے تھوڑی ، تھوڑی دیر پر نکال کر کھاتے رہنا۔
امی تم بھی نا۔۔۔
طارق اٹھ کر امی کے ہاتھ سے ڈبہ لے لیتا ہے۔
لاوآنٹی، میں رکھ دیتا ہوں۔ دو چار اپنی جیب میں اور باقی بیگ میں۔
ہاں بیٹا، لے رکھ دے۔
موقع کی تلاش میں ماں بیٹے کی تکرار سن رہے ابو پھر اندر آتے ہیں۔
بیٹا! وہاں جا کر اپنا حساب کتاب دیکھ کر مجھے فون کرنا۔اور بھی پیسوں کی ضرورت ہوگی تو بتانا۔ پڑھائی میں دھیان لگانا، پیسوں کی کوئی فکر مت کرنا۔
اسے پتہ ہے ابو کی عادت ہے یہ، جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہوتی ہے، اسے ہی سب سے زیادہ موجود اوردستیاب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
راحیل کہیں سوچوں میں گم ہے ۔ابھی تین گھنٹے بعد فلائٹ ہے۔امریکہ ۔۔۔ پردیس سب سے دور۔۔۔ امی ابو سے، دوستوں سے، اس محلے سے، اس شہر سے، اس ملک سے۔۔۔ ۔
طارق جیسے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے سب تیار ہے نہ نا ؟۔
جی ہاں، جی ہاں سب تیار ہے۔ بس۔۔۔ نکلتے ہیں۔
امی کی آنکھوں میں آنسو ہے وہ نہیں چاہتی کہ اس کے جگر کا ٹکڑا نظروں سے دور ہو ۔
بیٹا! ہمیں تمہارے فون کا انتظار رہے گا۔۔۔ اپنے کھانے پینے کا خیال رکھنا۔ رات کو دودھ ضرور پینا۔۔۔ اور فون کرتے رہنا۔ تعلیم پر توجہ دینا۔نہ جانے وہ کیا کیا بولے جا رہی ہے۔
ارے آنٹی، یہ ہر دو تین دن میں ای میل کرتا رہے گا اور ہم آ کر اس کا حال چال بتا دیا کریں گے آپ کو۔بالکل بھی پریشان نہ ہوئیے۔
جگ جگ جیو بیٹا۔
ماں اور باپ دونوں جدائی کے فراق میں افسردہ تھے ،لیکن طارق کسی اور معاملہ کو لیکر فکر مند ۔دونوں دوستوں کو معلوم ہے کہ معاملہ کیا ہے ۔
دونوں اشاروں اشاروں میں کچھ بات کرتے ہیں۔راحیل طارق کی طرف آنکھ مار کرکچھ بتانے کے لئے اس کی طرف دیکھ رہا ہے مگر امی کی موجودگی سے دونوں خاموش ہیں۔
اور اشارہ سمجھتے ہی طارق اٹھ کر امی کے پاس چلا جاتا ہے۔
آنٹی وہ نمکین والی بسکٹ دیجئے نا ایک۔
جا بیٹا، اس سفید ڈبے میں ہے، نکال لے۔امی وہاں سے بالکل نہیں اٹھنا چاہتیں۔
نہیں پلیز آنٹی آپ نکال کے لائیے نا۔
'اچھا رکو، ابھی لاتی ہوں۔ امی آہستہ سے اٹھ کر باورچی خانے کی جانب چلی جاتی ہیں۔
طارق لپک کر اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
کیا ہوا ؟ ' راحیل بے چین نظر رہا ہے۔
وہ سیدھا ایرپورٹ آئے گی۔
کیا ایر پورٹ ،مگر کیوں؟۔
یار یہاں آ جاتی تو میں نیچے جا کر مل آتا۔ ایرپورٹ پر تو ابو بھی ہوں گے۔ کیا بول کر تعارف کراوں گا اس کا۔۔۔ ؟
کہہ دینا دوست ہے۔ ' طارق مشورہ دیتا ہے۔
جی ہاں پر۔۔۔ فیرویل کس نہیں لے پائے گا ابو کے سامنے۔
ارے یار وہ بات نہیں۔۔۔ ابھی تک امی ابو کو کچھ نہیں بتایا تو اب جاتے وقت۔۔۔ ۔ بعد میں بتاوں گا، خود ہی فائنل ڈسیزن کے وقت۔۔۔ ۔
سن تو! ابو کو ایرپورٹ چلنے کے لئے منع کر دے۔ کچھ بھی بول کر سمجھا لے۔ کہہ دے کہ دو لوگ تو جا ہی رہے ہیں۔
ہا ں شاید یہی ٹھیک رہے گا۔
شاید امی نے ابو کو کچھ تاکید کرنے کے لئے کہا ہے۔
سردی سے بچ کر رہنا وہاں سردی بہت زیادہ پڑتی ہے۔ ہمیشہ مفلر لگا کر رہنا۔ سردی کانوں پر ہی سب سے پہلے حملہ کرتی ہے۔ کان ہمیشہ ڈھکے ہونے چاہئے۔ یہ نہیں کہ فیشن میں بال نہ بگڑے، اس لئے مفلر ہی نہ لگاو۔ احتیاط سے کام لینا۔ وہا ں تمہیں کوئی دیکھنے نہیں آئے گا۔ وہ کوئی تمہارا گھر نہیں نیو یارک ہے۔
جی۔۔۔ ۔ اتنی باتوں کے جواب میں راحیل صرف ایک لفظ بولتا ہے جو باہر پھیل رہے اندھیرے میں گم ہو جاتا ہے۔
آج روز جتنی سردی نہیں ہے۔
ہاں بلکہ مجھے تو گرمی لگ رہی ہے۔
وہ تو لگے گی ہی، تو نے سویٹر اور جیکٹ دونوں پہن رکھی ہے۔ مجھے دیکھ۔۔۔ ۔ ' طارق اسے اپنا ہاف سویٹر دکھاتا ہے۔
'ارے یار، ابو نے زبردستی۔۔۔
تو ابو کے سپوت، اب تو اتار دے۔ ابو باہر ہیں۔ اتار کر جیکٹ کی چین بند کر لے۔ انہیں کیا پتہ چلے گا۔
راحیل جیکٹ اتار کر سویٹر اتار دیتا ہے۔ پھر جیکٹ پہن کر اس کی چین بند کر دیتا ہے۔
میں سوچ رہا تھا، یہ سویٹر نہیں لے جاوں۔
صحیح سوچ رہا ہے۔ یہ پرانے سویٹر کو لے جا کر کیا کرے گا ؟ تین تین اچھے سویٹر تو ہیں تیرے پاس۔۔۔ ۔
مگر ابو دیکھ لیں گے تو انہیں برا لگے گا۔ وہ خود یہ سویٹر میرے لئے تبتین مارکٹ سے لائے تھے۔
ابھی نہیں دیکھیں گے نا؟ بعد میں دیکھیں گے تو سوچیں گے غلطی سے چھوٹ گیا۔ ' طارق سویٹر تہہ کر کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہے۔
راحیل کو کچھ یاد آتا ہے اور وہ بات کو ٹالتے ہوئے کہتا ہے۔ اچھا چل یہ بتا وہ کچھ کہہ رہی تھی ؟
نہیں، کچھ خاص نہیں۔ بس یہی کہ پہنچتے ہی اپنا پوسٹل ایڈریس ای میل کر دینا۔ جو سویٹر بن رہی ہے، مکمل ہونے ہی والا ہے، اسے کورئیر کرے گی۔ کہہ رہی تھی بہت ساری باتیں ہیں جو تم سے ایرپورٹ پر کرے گی۔ میں نے کہا مجھے بتا دے، میں اس کو بتا دوں گا تو ناراض ہونے لگی۔۔۔
سالے تجھے کیوں بتائے گی ؟
یار، راحیل نہ وہ تو مجھے گھاس ڈالتی ہے نہ میری ڈالی ہوئی گھاس کھاتی ہے۔ اس سے کیا باتیں کروں، مجھے تو تیری شاعری ہی پسند ہے۔
راحیل جانتا ہے اور کوئی دن ہوتا توخضری کا نام سنتے ہی طارق دل پر ہاتھ رکھ کر ساری باتیں آہستہ آہستہ ڈرامائی انداز میں کراہتے ہوئے کہتا۔ راحیل بھی اس کی زبان سے خضری کا نام سنتے ہی اس پر لاتیں چلانے لگتا ؟۔ پر آج کی بات دوسری ہے۔ آج ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ آدھے گھنٹے کے اندر دونوں ایرپورٹ کے لئے نکل جائیں گے۔ اس سے پہلے یاروں کے درمیان ہونے والی بے وقوفیوں کو ری وائنڈ کرنا اچھا لگتا ہے۔
ابھی دونوں دوست محو گفتگو ہ تھے کہ ابو کی آواز پھر آتی ہے۔
اب نکلتے ہیں بیٹے، کہیں پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔
'ارے انکل، ابھی تو وقت ہے۔ ' طارق ایسے کہتا ہے جیسے ابھی بہت وقت ہو
'ارے بھئی ٹریفک جام کا کوئی بھروسہ ہے کیا۔تاخیر ہو سکتی ہے۔
امی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہیں۔ تیرے جانے کے بعد گھر بالکل سونا ہو جائے گا۔ ' لگتا ہے امی رو دیں گی۔
'چلو بیٹا چلو، اب نکلتے ہیں۔۔۔ آو کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ' ابو اس کے پاس آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسے ابو پر اسی بات سے غصہ آتا ہے۔ جس بات کو ایک بار منہ سے نکال دیتے ہیں اس کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔
چلو بیٹا، طارق آو۔۔۔ ۔۔۔ ' کہتے ہوئے وہ بیگ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ارے انکل، آپ کہاں پریشان ہوں گے ؟ ہم ہیں نا۔۔۔ ۔ آپ آرام کیجئے۔ ' طارق یہ کہتا ہوا بیگ اٹھا لیتا ہے۔
'ارے نہیں بیٹا، میں بھی چلتا ہوں۔
'چھوڑئے انکل، ڈاکٹر نے ویسے بھی آپ کو زیادہ دوڑ دھوپ سے منع کیا ہے۔ آپ یہیں رہیں۔ ہم ہیں نا۔۔۔ ' کہتا ہوا طارق باہر نکل جاتا ہے۔
ڈاکٹر نے دوڑنے سے منع کیا ہے بھئی۔ مجھے دوڑتے ہوئے تھوڑے ہی چلنا ہے۔۔۔ ۔ چلتا ہوں میں بھی۔۔۔ ' ابو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک اداس ہنسی ہنستے ہیں جو اس اداس شام کو اور اداس کر جاتی ہے۔
رہنے دیجئے ابو، آپ بیکار پریشان ہوں گے۔ ' راحیل ابو سے الوداعی انداز میں کہتا ہے پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے امی کوخدا حافظ کہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔وہ جانتا تھا امی کے گلے لگا تو وہ اپنا ضبط کھو دے گا اور امی تو ویسے ہی روہانسی ہوئے جا رہی تھیں تو بس وہ امی کو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ امی نے ہاتھ اوپر اٹھا کر اس کو بلانا چاہا اور پھر منہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کرپھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔
دونوں گھر سے نکل کر سڑک پر آ جاتے ہیں۔
راحیل خود کو ایسے مقام پر پا رہا ہے جہاں ایک خوشی کا احساس دل میں اس لئے نہیں امڈ کر آرہا ہے کیونکہ کچھ چھوٹ جانے کا غم اس پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے دوست، اپنی جگہ، اپنا ماحول۔۔۔ ۔ ایک نئی دنیا میں جانے کی خوشی پتہ نہیں کیوں اتنی شدت سے۔
قریب سو میٹر چلنے کے بعد طارق سگریٹ جلا کر دوست کو ایک ایک تھما دیتا ہے۔ دونوں سگریٹ کے مرغولے اڑاتے ہوئے آٹو کی طرف جانے لگتے ہیں۔
آج صبح ڈاکٹر آصف کے گھر پولیس کا چھاپہ پڑا تھا۔طارق سگریٹ کا دھواں چھوڑتا ہوا بتاتا ہے۔
جی ہاں، اس کے ڈیڈی بزنس کی آڑ میں کچھ غلط دھندا کرتے تھے۔
اس کا دل صبح سے بھاری ہو رہا ہے۔ راحیل اپنی بیتی زندگی اور آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ان دونوں کی باتیں سن کر اس کا دل جیسے بیٹھنے لگا ہے۔ وہ بھی تو اس کے بغیر اکیلے ہو جائیں گے۔ راحیل کتنا مس کرے گا ان کو۔۔۔ ۔
اچھا سن، وہاں کی لڑکیاں بڑی فرینک ہوتی ہیں۔ دو چار پٹ جائیں تو بتانا، ہم بھی ٹرائی کر لیں گے۔ کیوں!! ' طارق کی بات پر اسے ہنسی آ جاتی ہے۔
میں وہاں تم لوگوں کو بہت مس کروں گا۔۔۔ ' راحیل بھرائی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔
ارے کبھی - کبھی اسے بھی مس کر لینا جو اپنا پیار سویٹر کی شکل میں بھیجنے والی ہے۔۔۔ ۔ ' طارق جذباتی ہونے کے باوجود بات کو ہنسی میں اڑا دیتا ہے۔
انکل آ رہے ہیں۔ پیچھے پلٹنے سے پہلے سگریٹ پھینک دو ' واصف آہستہ سےسرگوشی کرتا ہے۔
راحیل سگریٹ پھینک کر پلٹتا ہے۔ ابو تقریباً تڑپتے ہوئے آ رہے ہیں۔ راحیل آگے بڑھ کر سڑک پار کرتا ہے اور ان کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
کیا بات ہے ابو ؟ آپ کے لئے دوڑنا نقصان دہ ہے، آپ جانتے ہیں پھر بھی۔۔۔ ؟ ' اسے پہلی بار یاد آتا ہے کہ اس کے جانے کے بعد ابو کی جلد بازی کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا اور وہ جلد بازی میں اپنا نقصان کرتے رہیں گے۔
'ارے تم یہ سویٹر بھول آئے تھے تکیے کے نیچے۔۔۔ ۔ تمہاری امی نے کہا کہ تمہیں دے آوں۔۔۔ اس لئے تھوڑا دوڑنا پڑا۔ دیکھو بیگ میں رکھ لو۔۔۔ ' ابو اٹکتی سانسوں کے ساتھ بولے جا رہے تھے ان کی آنکھیں ڈبڈبا سی گئی تھیں۔
اسے اچانک ابو کے اوپر ترس آنے لگا، نم آنکھوں اور طویل سانسوں کے درمیان ابو نے کتنی فکر چھپا رکھی ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ راحیل ابو کو محبت کی ساری داستان بتا دے اور جو راز اس نے چھپا کر رکھا ہے اسے ظاہر کر دے۔ کیا پتہ پھر ابو بھی جاتے وقت اسے گلے لگا لیں۔مگر اس کی ہمت نہیں ہو تی۔
راحیل ڈوبتی آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے سویٹر ہاتھ میں لئے تھوڑی دیر کھڑا ابو کو تکتا رہتا ہے۔
ساری ضروری چیزیں رکھ لی ہیں نا؟ یہ یاد رکھنا کہ ہمیشہ اپنی محنت پر یقین رکھنا۔صحیح راستہ مشکل ہو یا طویل، ہمیشہ اسے ہی منتخب کرنا۔ جسم اور پڑھائی دونوں پر توجہ دینا۔ پیسوں کی فکر مت کرنا۔ چلو، اب جاو¿، دیکھو طارق نےرکشے والے سے بات کر لی ہے۔۔۔ ۔ بلا رہا ہے تم کو۔ ' ابو اپنے آنسو چھپانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
جی۔۔۔ ۔ راحیل خود ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ پلٹتا ہے۔ دو تین قدم چلنے پر ابو کی آواز سنائی دیتی ہے۔
کہو تو میں بھی چلے ہی چلوں۔۔۔ ۔ ویسے بھی گھر پر بیٹھا ہی رہوں گا۔۔۔ ۔ ابو کی نحیف آواز جیسے کہوں اور نہ کہوں کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے۔ زمانے بھر کا درد اور اپنی آواز کو انہوں نے اس طرح ظاہر کرنا چاہا ہے جیسے انہوں نے بہت عام اور چھوٹی سی بات کہی ہے اور اس کے نہ مانے جانے پر بھی ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
 
آخری تدوین:

عائشہ عزیز

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے بھیا :)
میں نے سارا پڑھ لیا ہے لیکن افسانے پڑھنا تھوڑا مشکل لگتا ہے اس لیے سمجھ نہیں آیا پوری طرح۔۔
 
تکلف بر طرف! مزہ نہیں آیا بھائی محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب۔ نہ تو یہ کہانی بنی نہ افسانہ ۔ اور نہ ہی اس میں ان جذبات کی عکاسی ہو سکی جس کا آپ صرف ذکر ہی کر سکے ہیں۔ چلئے اپنی آسانی کے لئے اس کو ’’کہانی‘‘ قرار دے لیتے ہیں۔

فی زمانہ بچوں کا تعلیم، ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں رہ گئی۔ ایک دو جدید ذرائع مواصلات کا ذکر کہانی میں بھی آ چکا۔ بہ این ہمہ والدین کے محسوسات دوسروں سے ہمیشہ مختلف ہوا کرتے ہیں، یہاں وہی پوری قوت سے قاری تک نہیں پہنچے جب کہ واقعاتی سطح پر ان کو اہمیت بھی دی جا رہی ہے۔ افتتاحی پیراگراف میں جملے کچھ زیادہ ہی بے ترتیب ہیں۔ شفق کی منظر کشی میں کچھ عناصر خلافِ واقعہ ہیں، یا پھر ان کی ترتیب میں سلیقہ مندی کا فقدان ہے۔ کہانی میں مکالمات کا بہت اہم مقام ہوتا ہے، وہاں بھی آپ کا قاری الجھ جاتا ہے۔ رموزِ اوقاف وغیرہ کو آپ نے سرے سے نظر انداز کر دیا۔

زبان کے معاملے میں پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ پاکستانی اردو اور بھارتی اردو میں محاورے وغیرہ کا اچھا خاصا فرق در آیا ہے، اس لئے اگر میں کسی روزمرہ یا محاورے کو غلط یا درست کہتا ہوں تو وہ پاکستانی اردو کے حوالے سے ہو گا۔
 
بہت عمدہ لکھا ہے، آغاز بھی اچھا تھا اور صورتحال کی منظر کشی، متعلقہ افراد کا مافی الضمیر بھی عمدہ طریقے سے ظاہر کیا گیا۔۔۔بس ایک ہی کمی محسوس ہوئی۔۔۔کلائمکس کی :)
 
بہت عمدہ لکھا ہے، آغاز بھی اچھا تھا اور صورتحال کی منظر کشی، متعلقہ افراد کا مافی الضمیر بھی عمدہ طریقے سے ظاہر کیا گیا۔۔۔ بس ایک ہی کمی محسوس ہوئی۔۔۔ کلائمکس کی :)
محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی ہیپی اینڈنگ کے بغیر قارئین اور ناظرین کو مزا نہیں آتا :)
 
میں نے اوپر جو کچھ لکھ دیا تھا، کسی قدر اس کی تفصیل میں جاتا ہوں۔

دور افق پر ڈوبتے ہوئے سورج کی باقیات میں سے پھیلتی ہوئی سرخی پوری طرح نمودار نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔ سورج ڈوب رہا ہے، شفق کے رنگ تو غروب سے پہلے نمودار ہونے لگتے ہیں، اور جب سورج کہئے آدھا ڈوب چکا ہوتا ہے، تو یہ رنگ بہت شوخ اور بہت نمایاں ہو جاتے ہیں۔

ابھی اجالا ہے ،ہلکا ہلکا اجالا ،جو ابھی تھوڑی دیر میں اندھیرے کی شکل لینا شروع کر دے گا۔
۔۔۔ سورج ڈوبنے کے بعد کوئی ایک گھنٹے تک اجالا رہتا ہے پھر تیرگی چھانے لگتی ہے۔

امی باورچی خانے میں ابھی بھی کچھ کھٹ پٹ کر رہی ہیں
۔۔۔ یہ کھٹ پٹ محاورے کی بات ہے وہ میں پہلے کر چکا۔

راحیل کرسی پر آرام سے بیٹھا ہے اور ابو دروازے پر ٹہل رہے ہیں پتہ نہیں کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔
۔۔۔ دروازے پر، کچھ عجیب سا اظہار ہے۔ یا تو کمرے کے اندر کہئے، یا اگر آپ لوگ صحن برآمدے وغیرہ میں ہیں تو اس کا ذکر کیجئے۔

راحیل کبھی باہر کی طرف دیکھتا ہے، کبھی کچن کی طرف، اسے لگتا ہے جیسے سبھی کسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔
۔۔۔ تو پھر آرام سے تو نہ ہوا نا، بھائی! اس سرخ جملے کو بدلئے یہاں کسی بے چینی کا ذکر کیجئے۔

جیسے گھڑی کی سوئیوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹک ٹک کرتے بڑھنا بھی کافی اداس ، افسردہ او ر ا تھکا دینے والا ہے۔
۔۔۔ یہاں لفظ جیسے مجھے تو زائد لگا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹک ٹک کرتے بڑھنا؟ الفاظ کی نشست درست نہیں ہے۔ اور پھر ٹک ٹک سوئیاں نہیں کرتیں وہ تو گھڑی کرتی ہے۔ ایک لفظ کافی بمعنی خاصا یا زیادہ کچھ جچتا نہیں ہے۔ پنجابی ڈکشن میں بولتے اسی طرح ہیں، مگر ادبی تحریر میں ایسا کم از کم مجھے گراں گزرتا ہے۔ وہ گھڑی یا سوئیاں خود تو اداس نہیں ہیں، البتہ وہ منظر اداس کر دینے والا ہے۔ تھکانے والی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ افسردہ بھی مجھے یہاں زائد لگا۔

ابو باہر ٹہل نہیں رہے بلکہ بیٹے کے فراق میں غم زدہ کچھ سوچ رہے ہیں
پہلے تھا کہ ٹہل رہے ہیں، اب ٹہل نہیں رہے؟ فراق کی صورتَ حال اور ہوتی ہے فراق کے مرحلے کا آن پہنچنا اور بات ہے۔

،جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو کہ راحیل اسی گھر میں اسی ٹوٹی کرسی پر بیٹھا ہے۔
۔۔۔ یہاں کرسی کو توڑنا کیا ضروری ہے؟ یقین نہ ہونے والی تو کوئی بات نہیں، وہ جو کہانی میں آگے جا کے کھلتا ہے کہ راحیل صاحب پڑھنے کے لئے امریکہ جا رہے ہیں تو یہ مرحلہ کوئی ایک دم تو واقع نہیں ہو گیا۔ خود موصوف نے دفتری اور دیگر کارروائیوں میں پتہ نہیں کتنی خاک چھانی ہو گی۔ یابا حضور کے لئے تو یہ ایک لحاظ سے دوہری کیفیت بنتی ہے، ایک اس اطمینان اور مسرت کی کہ بیٹا اپنا مستقبل بنانے چلا ہے، اور ساتھ ہی بیٹے کا گھر سے جانے کا منظر۔ اس جذباتی کیفیت کو یوں ہی بیانیہ انداز میں تو نہیں لایا جا سکتا۔

وہ تھوڑی تھوڑی دیر پر کبھی اندر آ رہے ہیں اور کبھی باہر جا رہے ہیں۔
۔۔۔ یہ جملہ کسی حد تک انصاف کرتا ہوا لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 
ابا حضور کی کیفیات کو مؤثر طور پر بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کہانی کے واقعاتی اجزاء کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھتے ہوئے ساتھ لے کر چلا جائے۔ امی کیا کر رہی ہیں، یہ ایک جزو ہے۔ راحیل کس کیفیت سے گزر رہا ہے اور اس کا ظاہری عمل یا رویہ یا ردِ عمل کیا ہے، یہ ایک دوسرا جزو ہے۔ ابا کی کیفیات تیسرا جزو ہے۔ ان کو ساتھ ساتھ لے کر چلئے مگر ایک دوسرے میں مدغم نہ ہونے دیجئے۔


جاری ہے
 
آخری تدوین:
امی ایک ڈبے میں کچھ لے کر آ تی ہیں۔
اسے بیگ کی سائڈ والے خانے میں جگہ بنا کر رکھ لو۔
کیا ہے یہ۔۔۔ ؟
راستے میں کھانے کے لئے کچھ ناشتہ۔
امی، میں نے کہا تھا نہ نا کہ پلین میں کھانا ملتا ہے۔
پر یہ کھانا کہاں ہے بیٹا ،بس ایسے ہی کچھ ناشتہ ہے تھوڑی ، تھوڑی دیر پر نکال کر کھاتے رہنا۔
امی تم بھی نا۔۔۔
طارق اٹھ کر امی کے ہاتھ سے ڈبہ لے لیتا ہے۔
لاوآنٹی، میں رکھ دیتا ہوں۔ دو چار اپنی جیب میں اور باقی بیگ میں۔
ہاں بیٹا، لے رکھ دے۔


اس حصے میں قاری پر آن پڑی کہ وہ اپنی قوتِ مطالعہ کے زور پر مکالمات کو ترتیب دے اور معانی اخذ کرے۔ مکالمے میں واوین کی اہمیت کو آپ نے یکسر نظر انداز کر دیا؟ صرف یہ نہیں۔ ہر ضمنی جملہ اور ہر مکالمے کے الفاظ نئی لائن سے؟ قاری بے چارہ کیا کرے؟

جاری ہے
 
موقع کی تلاش میں ماں بیٹے کی تکرار سن رہے ابو پھر اندر آتے ہیں۔

ابا حضور کو موقعے کی تلاش کی ضرورت ہی کہاں ہے؟ اور اوپر جو بات چیت ماں بیٹے کے درمیان ہو رہی ہے اس کو ’’تکرار‘‘ تو نہیں کہا جا سکتا! سیدھا لکھئے کہ: ابو ماں بیٹے کی باتیں سن کر اندر آئے۔ یا ۔ آتے ہیں ۔۔۔ جیسے بھی آپ کی کہانی کا بہاؤ ہے۔ ویسے فعل حال کا اہتمام ڈرامے کے مناظر کا تعارف کرانے کے لئے معروف ہے، اور اس کے علاوہ مضامین اور کالموں میں، یا پھر تبصروں میں۔ کہانی یا افسانے میں اگر یہ اپنے فطری بہاؤ میں آ رہا ہو تو خوب جچتا ہے اور نہ آ رہا ہو تو قاری کو امتحان میں ڈال دیتا ہے۔


جاری ہے
 
بیٹا! وہاں جا کر اپنا حساب کتاب دیکھ کر مجھے فون کرنا۔اور بھی پیسوں کی ضرورت ہوگی تو بتانا۔ پڑھائی میں دھیان لگانا، پیسوں کی کوئی فکر مت کرنا۔
اسے پتہ ہے ابو کی عادت ہے یہ، جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہوتی ہے، اسے ہی سب سے زیادہ موجود اوردستیاب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
راحیل کہیں سوچوں میں گم ہے ۔ابھی تین گھنٹے بعد فلائٹ ہے۔امریکہ ۔۔۔ پردیس سب سے دور۔۔۔ امی ابو سے، دوستوں سے، اس محلے سے، اس شہر سے، اس ملک سے۔۔۔ ۔
طارق جیسے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے سب تیار ہے نہ نا ؟۔
جی ہاں، جی ہاں سب تیار ہے۔ بس۔۔۔ نکلتے ہیں۔
امی کی آنکھوں میں آنسو ہے وہ نہیں چاہتی کہ اس کے جگر کا ٹکڑا نظروں سے دور ہو ۔
بیٹا! ہمیں تمہارے فون کا انتظار رہے گا۔۔۔ اپنے کھانے پینے کا خیال رکھنا۔ رات کو دودھ ضرور پینا۔۔۔ اور فون کرتے رہنا۔ تعلیم پر توجہ دینا۔نہ جانے وہ کیا کیا بولے جا رہی ہے۔
ارے آنٹی، یہ ہر دو تین دن میں ای میل کرتا رہے گا اور ہم آ کر اس کا حال چال بتا دیا کریں گے آپ کو۔بالکل بھی پریشان نہ ہوئیے۔
جگ جگ جیو بیٹا۔



یہ حصہ بھی ۔۔۔ جیسے پہلے پر بات ہو چکی۔ مزید اس میں یہ ہے کہ مکالموں کے عین بیچ ایک بیانیہ جملہ ۔۔۔۔
راحیل کہیں سوچوں میں گم ہے ۔ابھی تین گھنٹے بعد فلائٹ ہے۔امریکہ ۔۔۔ پردیس سب سے دور۔۔۔ امی ابو سے، دوستوں سے، اس محلے سے، اس شہر سے، اس ملک سے۔۔۔ ۔
اس کو کہیں آگے پیچھے لے جائیے۔ طارق ارتعاش پیدا کرتا ہے یا اس کی آواز؟ یا آواز میں ارتعاش نمایاں ہے؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے
 
رہنے دیجئے ابو، آپ بیکار پریشان ہوں گے۔ ' راحیل ابو سے الوداعی انداز میں کہتا ہے پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے امی کوخدا حافظ کہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔وہ جانتا تھا امی کے گلے لگا تو وہ اپنا ضبط کھو دے گا اور امی تو ویسے ہی روہانسی ہوئے جا رہی تھیں تو بس وہ امی کو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ امی نے ہاتھ اوپر اٹھا کر اس کو بلانا چاہا اور پھر منہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کرپھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔


یہاں آپ’’جانتا تھا‘‘ ، ’’تھیں‘‘، ’’نکل گیا‘‘، ’’بلانا چاہا‘‘ (ماضی) پر آ گئے۔ پتہ ہے کیوں؟ ۔۔۔ کہ کہانی کا فطری انداز ’’ماضی‘‘ ہے۔ آپ شاید اس کو بالجبر ’’حال‘‘ میں لا رہے ہوں، مجھے نہیں پتہ کہ آپ کے ذہن میں کیا پک رہا ہو گا۔ اور


پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے امی کوخدا حافظ کہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔وہ جانتا تھا امی کے گلے لگا تو وہ اپنا ضبط کھو دے گا اور امی تو ویسے ہی روہانسی ہوئے جا رہی تھیں تو بس وہ امی کو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔ یہ تو بالکل غیر فطری بات ہے۔ کہ کوئی دو چار سال کے لئے ملک سے باہر جا رہا ہو اور اپنی ماں کو دور سے ہاتھ ہلا دے۔
 
آخری تدوین:
Top