اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے کا بیان


دسواں باب
اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے پر سخت وعیدوں کا بیان
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۱) وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ واحسنو ان اللہ یحب المحسنین (ابقرۃ۔۱۹۵)
اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو اور نیکی کرو بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں ۔
٭ امام بخاری ؒ اور ابن ابی حاتم اور دیگر حضرات نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے [یعنی جہاد ]میں خرچ کرنا چھوڑ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ (بخاری ۔ تفسیر ابن ابی حاتم)
یہی تفسیر دیگر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بڑے تابعین حضرات سے منقول ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۲) والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم یوم یحمی علیھا فی نار جہنم فتکوی بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ما کنزتم لانفسکم فذوقوا ماکنتم تکنزون (التوبہ۔۳۴۔۳۵)
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو آپ ان کو دردناک سزا کی خبر سنادیں۔جس دن (اس مال کو )دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوںاوران کی گردنوں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا )یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لئے جمع کر کے رکھا تھا پس اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۳) ھانتم ھؤلاء تدعون لتنفقوفی سبیل اللہ فمنکم من یبخل و من یبخل فانما یبخل عن نفسہ واللہ الغنی و انتم الفقرآء وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوآ امثالکم ۔(محمد۔۳۸)
ہا ں تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر بعضے تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے سے بخل کرتا ہے اور اللہ توبے نیاز ہے (یعنی کسی کا متحاج نہیں)اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم (بخل کر کے اس کے حکم سے )رو گردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوموں کو پیدا فرمادے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۴) ومالکم الا تنفقون فی سبیل اللہ وللہ میراث السموات والارض لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقو من بعد وقاتلوا وکلاو عداللہ الحسنی واللہ بما تعملون خبیر ۔(الحدید۔۱۰)
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ سب آسمان وزمین آخر میں اللہ کا رہ جائے گا برابر نہیں ہیں تم میں وہ لوگ جنہوںنے فتح مکہ سے پہلے (اللہ کے راستے میں مال)خرچ کیا اور قتال کیا یہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور (اللہ کے راستے میں)لڑے اور اللہ تعالیٰ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی خوب خبر رکھتے ہیں ۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کونسی چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روک رہی ہے حالانکہ تم لوگ مرنے والے ہو اور تم اپنے مال اپنے پیچھے چھوڑکر چلے جاؤگے اور یہ مال بھی اللہ ہی کی طرف لوٹ جائے گا ۔ وللہ میراث السمٰوٰات ولارض کامطلب یہ ہے کہ آسمان وزمین بھی اللہ ہی کی طرف لوٹیں گے کیونکہ جو کچھ ان دونوں میں ہے وہ تو ختم ہو جائے گا تو جس طر ح میراث اس کے مستحق کی طرف لوٹتی ہے اسی طرح یہ بھی اللہ کی طرف لوٹیں گے ۔ (تفسیر القرطبی)
٭مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ شام سے واپس تشریف لائے تو مسجد میںداخل ہوئے میں بیٹھاہوا تھا آپ نے ہمیں سلام کیا پھر ایک ستون کے پاس جاکر دو رکعت نماز پڑھی اور انہیں خوب لمبا کیا پھر آپ نے الھکم التکاثر پوری سورۃ پڑھی نماز کے بعد لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے ۔ اے ابو ذر! حضور اکرم ﷺ سے سنی ہوئی کوئی حدیث شریف سنایئے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اپنے محبوبﷺ سے سنا آپ نے فرمایا اونٹ میں صدقہ ہے گائے میں صدقہ ہے ،کپڑوں میں صدقہ ہے ،جس شخص نے سونا چاندی جمع کئے اور نہ وہ کسی مقروض کو دیئے اور نہ اللہ کے راستے میں خرچ کئے تو اسے اس سونے چاندی سے [قیامت کے دن ] داغا جائے گا ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ۔ والذین یکنزون الذھب۔ ۔ ۔ الی آخرہ (مکمل آیت اور ترجمہ اوپر گزر چکا ہے )(ابن عساکر)
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ان کے پاس کچھ مال آیا ان کے ساتھ ان کی باندی تھی وہ اس مال کو ضروریات میں خرچ کرتی رہی یہاں تک کہ اس کے پاس سات درہم باقی رہ گئے حضرت ابو ذر ضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ ان کے سکے خرید لو ۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا آپ یہ سات درہم بچاکر رکھ لیں شاید آپ کوان کی ضرورت پڑے یاآپ کے پاس کوئی مہمان آجائے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے دوست حضرت محمد ﷺ نے مجھےیہ وصیت فرمائی تھی کہ جو سونااور چاندی[کسی تھیلی میں ] گرہ لگا کر رکھا جائے وہ اپنے مالک کے لئے انگارہ ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے راستے میں با نٹ دے۔(مسند احمد ۔ الطبرانی )
٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا جس نے خود بھی جہاد نہیں کیا اور نہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت سے پہلے کسی سخت مصیبت میں مبتلا فرمادیں گے ۔ (ابوداؤد ۔ترمذی ۔ ابن ماجہ )
٭ اسلم بن عمران ؒ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ پر حملے کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارے امیر لشکر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے [لڑائی کے وقت ]رومی لشکر اپنے شہر کی دیوار سے چپکا ہوا تھا ۔ مسلمانوں میں سے ایک مجاہد نے دشمنوں پر[ تنہا] حملہ کردیا یہ دیکھ کر لوگ شور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ شخص اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے [حالانکہ قرآن مجید میں تو آیا ہے کہ لا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ کہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو ] حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غالب فرمادیا تو ہم نے کہا کہ ہم [کچھ عرصہ ] اپنے مال اور کاروبار کی اصلاح کے لئے گھروں میں رک جاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں بتادیا گیا کہ ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرنایہ ہے کہ ہم جہاد چھوڑکر اپنے گھروںمیں بیٹھے رہیں اور اپنے اموال کی اصلاح کرتے رہیں ۔ ابو عمران کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمیشہ جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ آپ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے (ابو داؤد ۔ ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن حبان ۔ حاکم )
اوربعض مفسرین کے نزدیک خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب جہاد میں مال خرچ نہ کرنا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اَنْفِقُوْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ۔ [اللہ کے راستے میں خرچ کرو ]کی تفسیر فرماتے کہ تم میں سے کوئی بھی یہ نہ کہے کہ میں خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں پاتا بلکہ اگر کوئی آدمی صرف تیر کا پیکان ہی پائے تو وہی جہاد میں دے دے اور جہاد میں خرچ کرنا چھوڑکر خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ (اسنن الکبری ۔بہیقی )
فصل
جہاد میں اپنے اوپر اور اپنی سواری پر اور دوسرے مجاہدین پر مال خرچ کرنا یا اس مال سے اسلحہ اور جہادی ضرورت کا دوسرا سامان خریدنا یا مجاہدین اور ان کے پیچھے ان کے گھر والوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا بلند ترین عبادات اور عظیم ترین صدقات میں سے ہے اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہت ہی بڑا ذریعہ ہے اسی لئے شیطان جتنی کوشش اور محنت جہاد میں خرچ کرنے سے روکنے میں لگاتا ہے اور کسی جگہ خرچ کرنے سے روکنے کے لئے نہیں لگاتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ [جہاد میں ] خرچ کرنے کی بدولت ایک مومن کو کتنا بڑا اجر ، کتنا عظیم ثواب اور کیسے درجات نصیب ہوتے ہیں اور وہ کتنی سخت وعیدوں اور عذاب سے بچ جاتا ہے ۔ ایک طرف شیطان اس کوشش میں لگا رہتاہے کہ کوئی مسلمان جہاد میں مال خرچ نہ کرے دوسری طرف انسان کا طبعی بخل ، اور خرچ نہ کرنے کی عادت ، اور جہاد میں خرچ کرنے کے عظیم فضائل سے ناواقفیت بھی اس کی مدد کرتی ہے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ جہاد کے نشانات مٹتے جارہے ہیں اور لوگ جہاد کو بھولتے جارہے ہیں ہمارے شہروں [دمشق] وغیرہ میں تو اب جہادرہا ہی نہیں جبکہ دوسرے شہروں میں حقیقی جہاد بہت کم پایا جاتا ہے چناچہ ملعون دشمن کے مقابلے میں جہاد کے لئے اللہ کی تائید کے بغیر کچھ مال نکالنا ممکن ہی نہیں رہا کیونکہ شیطان انسانوں کو فقر وفاقے سے ڈراتا ہے اور بے حیائی میں لگاتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا سچا فرمان ہے ۔ وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْئِ فَھُوَ یُخْلِفُہُ وَھُوَخَیْرُالرَّزِقِیْنَ۔ [تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو وہ ضرور بدلہ دیتا ہے اور وہ سب سے بہترین روزی دینے والا ہے ](سورۃ سبا۔ ۳۹)
بعض اوقات ایک انسان جہاد میں نکلنے کے بارے میں شیطان پر غلبہ پا لیتا ہے اور اس کی باتوں میں نہیں آتالیکن یہی انسان جہاد میں مال خرچ کرنے کے بارے میں شیطان کی باتوں میں آجاتا ہے کیونکہ شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ خود بھی جہاد میں چلاگیا اور سارا مال بھی لے گیا تو پھر اگر تو واپس آگیا توتو لوگوں کا محتاج بن کر پھرتا رہے گا جہادکے دوران تو زخمی اور بیمار بھی ہو سکتا ہے اس لئے خود اگر جانا چاہتا ہے تو چلا جا لیکن اپنا مال پیچھے چھوڑ جا شیطان کا یہ وسوسہ اسی آدمی کے دل پر زیادہ اثر کرتا ہے جس کے دل میںواپس آنے کا چور چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہ غیر محسوس دنیاکی محبت اور شہادت کے خوف میںمبتلا ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ شہادت پانے کا پکا عزم کرکے نکلتا تو واپسی کا خیال ہی اس کے دل میں نہ آتا ہمارے اسلاف شہادت کے شوق میں اور اللہ سے ملاقات کی محبت میںجہاد کے وقت اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالتے تھے کیونکہ ان کے دل میں واپس آنے اور زندہ رہنے کا خیال تک نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ لوگ شہادت کی عظمت اور لذت سے واقف تھے ۔ اسلاف ہی میں سے کسی کا واقعہ ہے کہ ایک بار میدان جہاد میں جب لشکر آمنے سامنے آگئے تو شیطان انہیں وسوسے ڈالنے شروع کئے ۔ پہلے ان کے دل میں بیوی کی یاد اس کا حسن وجمال اس سے قرب کے لمحات اور اس سے جدائی کے غم کو جگایا پھر عیش وآرام والی زندگی مال واسباب یاد دلائے ۔ قریب تھا کہ ان کے دل میں بزدلی اور دنیا کی محبت پیدا ہو جاتی اور میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کر لیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی ۔ انہوں نے اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا اے نفس اگر آج میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹا تو میری بیوی پر طلاق ہے اور میرے غلام اور باندیا ں آزاد اور تمام مال فقیروں اور مسکینوں کے لئے صدقہ ہے اے نفس کیا تو آج میدان جنگ سے بھاگ کر ایسی زندگی گزرانے کے لئے تیار ہے جس میں نہ بیوی ہو گی نہ مال واسباب ۔ ان کے نفس نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر میں پیچھے ہٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے فرمایا۔ تو پھر چل آگے بڑھ ۔ بعض مرتبہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر توجہاد میں مال بھی خرچ کرنے کے لئے ساتھ لے گیا اور تو مارا گیا تو تیری اولاداور گھر والے دوسروں کے محتاج بن کر رہ جائیں گے ۔ اس لئے اپنا مال پیچھے والوں کے لئے چھوڑ جاؤ ان کے لئے اتنا صدمہ کافی ہے کہ تم جارہے ہو ۔ اب انہیں مال سے تو محروم نہ کرو ۔ یہ وسوسہ ان لوگوں کے دل پر زیادہ اثر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین اور اعتماد نہیں رکھتے اور انہیں اس بات کا بھروسہ نہیں ہوتا کہ بندوں کی روزی کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ اصل رازق تو اللہ ہے میں تو اپنے اہل و عیال تک روزی پہنچانے کا ایک واسطہ ہوں اس پر شیطان کا وسوسہ اثر انداز نہیں ہوتا ۔
حضرت حاتم اصم ؒ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے سفر سے پہلے اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہارے لئے اور تمہارے بچوں کے لئے کتنا خرچہ کافی ہو گا تاکہ میں سفر سے پہلے اس کا انتظام کردوں ۔ ان کی بیوی نے کہا اے حاتم میں نے تمہیں کبھی بھی اپنا روزی دینے والا رازق نہیں سمجھا ۔ میں تو تمہیں روزی کھانے والا سمجھتی ہوں تمہیں جہاں جانا ہے خوشی سے چلے جاؤ [اور ہماری پرواہ نہ کرو ہمارا رازق تو ہمیشہ موجود رہنے والا ہے ]۔
٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جو سابقین کے امام اور امت میں سب سے افضل ہیں ان کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے [غزوہ تبوک کے موقعہ پر] اپنا مال حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا جس پر حضور اکرم ﷺ نے پوچھا اے ابوبکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ۔ فرمانے لگے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑآیا ہوں (سنن دارمی )
٭ یہی حال ان کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تھا ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے انہوں نے وہ سارے بانٹ دیئے اور ایک درہم تک ان میں سے نہیں بچایا ۔ (المستدرک )
مال خرچ کرنے اور اسے بچاکر نہ رکھنے کے سلف صالحین کے واقعات بے شمار ہیں اگر ان کا کچھ حصہ بھی زکر کیا جائے تو یہ باب بہت لمبا ہو جائے گا ۔
خود حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ کوئی چیز بھی اگلے دن کے لئے ذخیرہ کرکے نہیں رکھتے تھے ۔ (ابن حبان ۔ مواردالظمآن )
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے دو ایسے بندوں سے [ان کے مرنے کے بعد ]گفتگو فرمائی جنہیں اس نے [دنیامیں ] خوب مال واولاد عطاء فرمائی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک سے فرمایا۔ ۔ ۔ کیامیں نے تمہیں کثرت سے مال واولاد عطاء نہیں فرمائی تھی ۔ اس نے کہا اے میرے رب آپ نے عطاء فرمائی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے اس کا کیا کیا ۔ اس نے کہا اس خوف سے کہ میری اولاد فقیر اور محتاج نہ ہو جائے ۔ میں وہ سارا مال اپنی اولاد کے لئے چھوڑ آیا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایااگر تجھے حقیت کاحال کا علم ہوجائے تو تھوڑا ہنسے گا اور زیادہ روئے گا ۔ یارکھ تو اپنی اولاد کے بارے میں جس چیز[یعنی فقروفاقہ ] سے ڈرتا تھا وہ میں نے ان پر اتار دیا ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دوسرے سے یہی گفتگو فرمائی ۔ ۔ ۔ اور پوچھا تم نے اپنے مال واولاد کا کیا کیا ؟ اس نے کہا میں نے اپنی اولاد کے بارے میں آپ کے فضل وکرم پر یقین رکھتے ہوئے وہ سارا مال آپ کے کاموں میں خرچ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تمہیں حقیقت حال کا علم ہو جائے تو تم زیادہ ہنسو گے اور تھوڑا روؤ گے ۔ تونے اپنی اولاد کے بارے میں جس چیز [یعنی میرے فضل وکرم] کا یقین رکھا تھا وہ میں نے ان پر اتاردیا ہے ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی )
٭ ایسا ہی واقعہ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیزؒ کا بھی ہے جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے گیارہ بیٹوں کو بلایاپھر اپنا سارامال جمع کر کے بیویوں کو ان کا شرعی حصہ دینے کے بعد ہر بیٹے کو صرف ایک دینار ملا ۔ مسلمہ بن عبدالملک نے ان سے کہا اے امیر المؤمنین آپ اپنے بیٹوں کا معاملہ میرے سپرد کردیں ۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا میرے بیٹے اگر صالحین میں سے ہوئے تو اللہ تعالیٰ صالحین کا خود متولی ہے اور اگر یہ صالحین میں سے نہ ہوئے تو پھر میں اللہ کی نافرمانی میں ان کی مدد کیوں کروں ۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک بیٹے نے اللہ کے راستے میں سو گھڑ سواروں کو مکمل سامان جہاد دے کر سو گھڑوں پر سوار کیا [یعنی ان کے مال میںاتنی برکت ہو گئی ]جبکہ مسلمہ بن عبدالملک نے مرتے وقت اپنے ہر بیٹے کے لئے گیارہ ہزار دینار چھوڑے لیکن ان کے ایک بیٹے کو دیکھا گیا کہ وہ حمام میں پانی گرم کرنے کی [معمولی ] نوکری کر رہا تھا ۔ [یعنی مسلمہ کی اولاد پر فقر وفاقہ نازل ہو گیا۔ (قرطبی)
٭ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بہت گھاٹے میں پڑنے والے ہیں ۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں آکر بیٹھ گیا ابھی میں نے قرار نہیں پکڑا تھا کہ میں کھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں اللہ کے رسول وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ زیادہ مالدار لوگ ہیں [جوبہت گھاٹے میں پڑ گئے ہیں ]مگر وہ لوگ جو آگے پیچھے دائیں بائیں [یعنی ہر نیکی کے کام میں]خوب خرچ کرتے ہیں اورایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں ۔ (بخاری۔ مسلم )
اس موضوع پر احادیث بہت زیادہ ہیں اور ان سب کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ پر توکل نصیب ہو اور اسے اللہ کی طرف سے بدلہ ملنے کا یقین ہو وہ اگر اپنا سارا مال بھی خرچ کردے تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ البتہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار سے اجر وثواب کے خزانے اوربہترین بدلہ لوٹ لیتا ہے ۔
جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا واقعہ گزر چکا ہے ۔[کہ سارا مال خرچ کرنے کے باوجود فقر وفاقے میں مبتلا نہیں ہوئے ۔البتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑامقام ضرور پالیا ]مگر یہ نعمت بڑے خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ہاں اگر کسی شخص کا یقین اور توکل کمزور [یا اسے کوئی عذر ] ہو تو اسے چاہئے کہ کچھ مال اپنے اہل واعیال کے لئے بھی رکھ لے ۔ [اور باقی خرچ کردے ]۔
٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا یہ میری توبہ کا ایک حصہ ہے کہ میںاپنا سارا مال اللہاور اس کے رسول کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ اس پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ اپنا کچھ مال روک لو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا ۔ (بخاری ۔ مسلم)
٭ اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ تم اپنے ورثا ء کو غنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں ایسے فقر میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔(بخاری مسلم )
حضرات صحابہ کرام کے بارے میں تو توکل اور یقین کے کمزور ہونے کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا [یہ حضرات تو ایمان و یقین اور توکل کے بلند مینار تھے ]حضور اکرم ﷺ نے ان میں سے بعض حضرات کو جو یہ حکم دیا کہ وہ اپنا کچھ مال پیچھے چھوڑ جائیں تو یہ امت کی تعلیم کے لئے تھا ۔ تاکہ امت میں کمزور لوگ ان کی اقتدا کر سکیں اور مضبوط ایمان والے لوگ حضرت صدیق اکبر کی پیروی کر سکیں ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم تو ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے۔ لیکن جو شخص استطاعت ہوتے ہوئے نہ ہی سارا مال خرچ کرے اور نہ کچھ مال بلکہ بخل کرتا رہے تو ایسا شخص قرآنی فیصلے کے مطابق اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے اور اس بارے میں اس کے لئے کوئی چھوٹ نہیں ہے ۔
وَاللہ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ہُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ۔(احزاب ۔۴)
اوراللہ تعالیٰ تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔
[جہاد میں مال خرچ کرنا ایک عظیم عبادت ہے ۔ مصنف ؒ نے اس کے مختصر طور پر کچھ فضائل بیان فرمائے ہیں لیکن اگر ان فضائل کو تفصیل سے لکھاجائے تواس کے لئے سینکڑوں صفحے درکار ہیں ویسے ایک مسلمان کے لئے تو قرآن مجید کی ایک آیت اور حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث ہی کافی ہے جس مسلمان کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان ہو وہ جہاد میں خرچ کرنے کے ان فضائل کو پڑھ کر پیچھے رہنے یا محروم رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیو نکہ یہ مسلمان جانتا ہے کہ یہ مال بہت گھٹیااور حقیر چیز ہے اوراللہ تعالیٰ کی رضا بہت ہی انمول اور قیمتی تحفہ ہے اب اگر اس حقیر سے مال کو خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا جیسی نعمت عظمیٰ نصیب ہوتی ہو تو کون سا مسلمان ایسا ہے جو اس سے محروم ہونا گوارہ کرے گا ۔ یہ گندا اور حقیر مال جسے حدیث شریف میں مردار جانور سے تشبیہہ دی گئی ہے اگر خرچ کر کے جہنم سے نجات مل سکتی ہے تو کون مسلمان ایسا ہوگا جو یہ سودا نہیں کرنا چاہے گا پھر ایک سچے مسلما ن کے دل میں اس بات کا یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزی کی مقدار مقدر ہے اور ہر کسی کا رازق خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ اب اس یقین کے بعد پھر اس بات کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کہ مسلمان مال کو بچا بچا کر رکھے اور اپنی تجوریوں اور بینک اکاونٹوں کا پیٹ بھرتابھرتا مر جائے اور قیامت کے دن یہی مال اس کے جسم کو داغنے کا سبب بنے اور اسی مال کی پائی پائی کا حساب دینے کے لئے اسے حشر کی خوفناک گرمی اور ذلت میں کھڑا ہونا پڑے ۔
ایک مومن کی سوچ تو یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال مجھے میرے فائدے کے لئے دیا ہے اور اس مال سے فائدہ مجھے تبھی ملے گا جب میں اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دوںگا ۔ تب یہ مال قبر کے عذاب اور آخرت کی رسوائی سے بھی بچائے گا اور اس مال کی بدولت جنت کی انمول نعمت بھی ملے گی اور قیامت کے دن مجھے اس مال کاحساب دینا نہیں لینا ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے راستے میں خرچ کرنے والوں کو لاکھوں کروڑوں گنا بڑھا کر اجر و بدلہ دے گا ۔ مگر آج کے مسلمان کا ذہن اب بدل چکا ہے کیونکہ کافروں نے محنت کر کے اور شیطان نے وسوسے ڈال کر مال کی اہمیت دلوں میں اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ اب تو مال ہی کے گرد زندگیاں گھوم رہی ہیں اور مال کو معاشرے کے جسم کا خون سمجھا جا رہا ہے ۔ کافروں نے صدیوں کی محنت کے بعد دنیا پر ایسا معاشی نظام مسلط کردیا ہے جس نے ہر شخص کو مال کا حریص او ر لالچی بنادیا ہے اور تو اور شائد آج کتوں کو بھی انسانوں کی حرص اور لالچ دیکھ کر شرم آتی ہو گی ۔ ہر شخص آج پیسے کے پیچھے دوڑ رہا ہے جبکہ پیسہ کسی کے ہاتھ میں ٹھرنے اور کسی کے ساتھ وفا کا دم بھرنے کے لئے تیار نہیں ہے مالدار بھی ڈر رہے ہیں کہ مال کم نہ ہو جائے ۔ غریب بھی ڈر رہے ہیں کہ مزید غربت کا منہ نہ دیکھنا پڑے ہر مالدار مزید مال کے چکر میں اور ہر غریب مالدار بننے کے چکر میں دن رات اپنا ایمان اور اپنا آرام تباہ کررہا ہے ۔
مال کا بھوت سروں پر ایسا سوار ہوا ہے کہ اب انسانی قدریں بھی اس کے سامنے پامال ہو رہی ہیں اور معاشرے کی ترتیب اور تقسیم مال کی بنیاد پر ہو رہی ہے اور ہر چیز کو خریدا جا رہا ہے اور ہر چیز کو بیچا جا رہا ہے ایسے درد ناک حالات میں جبکہ غریبوں کے لئے عزت کے ساتھ جینا دوبھر کردیا گیا ہے ۔ جہاد میں خرچ کرنے کی صدائیں عجیب تر معلوم ہوتی ہیں آج جبکہ مال کی خاطر ایمان کو فروخت کردیا جاتا ہے اس وقت یہ آواز لگاناکہ مال دو ایمان کے اعلیٰ مراتب حاصل کرو بہت عجیب سا لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ کچھ بھی عجیب نہیں ہے اسلام ہر دور میں الحمد للہ اپنی اصل شکل کے ساتھ کچھ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال میں محفوظ رہتا ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک قیامت قائم ہونے کا وقت نہیں آجاتا ۔ آج بھی الحمد للہ ان مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں اور اسلام کے ایک ایک حکم پر مر مٹنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں ایسے مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہئے کہ جہاد کے لئے خرچ کرنے کی اس قدر تاکید قرآن مجید میں کیوں آئی ہے ۔ اور جناب رسول ﷺ نے اس کی خاطر خود چندہ فرمانے کی تکلیف کس طرح گوارہ فرمائی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سا را سامان کیوں عطاء فرمادیا ؟آج اگر مسلمان ان سوالوں پر غور کریں اور ان کے جواب تک پہنچ جائیں تو اللہکی قسم اسلامی جہاد بہت مضبوط ہو سکتا ہے ۔ پھر کسی جگہ مجاہدین کو اسلحے کی کمی درپیش نہیں آئے گی ۔ کسی شہید کے ورثاء لاورثوں والی زندگی نہیں گزاریں گے ، مجاہدین کو بار بار اپنے حملے روکنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔ اور دنیا میں کفر کو دندناتے پھرنے کا موقع نہیں ملے گاکیا کبھی آپ نے سوچا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کی سوئی تک اٹھا کر کیوں دے دی تھی کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ حضرات فقہاء کرام نے آخر یہ کیوں لکھ دیا کہ اگر مسلمان بھوکے مررہے ہوں تب بھی مجاہدین کو کمک پہنچانا ان بھوکوں کو کھاناکھلانے سے زیادہ اہم ہے ؟ اللہ کے لئے تھوڑا سا غور کیجئے ہمارے دشمنوں نے اس نکتے پر بہت پہلے غور کر لیا تھا چنانچہ آج وہ محفوظ ہیں۔ مطمئن ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وار کرتے ہیں مگر ہم نے اس نکتے کو بھلادیا ہم تو یہ مسئلہ پوچھتے رہ گئے کہ مجاہدین کو زکوٰۃ لگتی ہے یا نہیں ۔ ہم نے اپنی تجوریا ں بھریں اور ہم بینکوں کے پیٹ بھرتے رہ گئے ہم نے اپنے کپڑوں ، جوتوں ، زیورات اور شادیوں پر پیسے اڑائے ہم اپنے شوق پر مال قربان کرتے رہے چنانچہ ہم زلیل و خوار ہو گئے کمزور ہو گئے اور اپنے دفاع کے لئے پنے ہی دشمنوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے اور اپنی روزی کے لئے اپنے دشمنوں کے جوتے صاف کرنے کی ذلت ہمیں سہنی پڑی ۔ اللہ کے لئے اے مسلمانو!اب بھی غور کرلو یاد رکھو جب تک دنیا میں اسلام اور قرآن کو عزت اور مقام نہیں ملتاہم جتنے خوبصورت کپڑے پہن لیں اور جتنی بڑی کوٹھی بنالیں ہم عزت نہیں پاسکتے بلکہ ہم مزید ذلیل اور بزدل ہوتے جائیں گے ۔
یاد رکھو ! اگر اللہ کی شریعت ہمارے ملکوں پر اور اللہ کی ساری زمین پر نافذ نہ ہوئی تو ہم قیامت کے دن مجرم اٹھائیں جائیں گے کیونکہ اللہ کا دین دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے ۔ ذلیل ہونے کے لئے نہیں ۔ اللہ کے لئے اپنی ذمہ داری کو سمجھو ۔ تم انسانوں کی غلامی کے لئے پیدا نہیں ہوئے ۔ تم مالدار کہلانے اور بننے کے لئے بھی پیدا نہیں ہوئے ۔ تم تو پوری انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانے کے لئے بھیجئے گئے ہو ۔ مگر تم اپنی اس ذمہ داری کو بھول کر بنیوں کی طرح نوٹ گننے ، زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے اور اونچی سے اونچی عمارت بنانے اور مسلمانوں پر اپنے مال کا رعب جمانے میں لگ گئے ۔
اللہ سے ڈرو ! موت کا وقت قریب تر ہے ۔ قرآن مجید کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ اللہ کی شریعت نافذ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ اپنے مسلمانوں پر فوقیت حاصل کرنے اور ان پر اپنے مال کا رعب ڈالنے کا بھوت دماغ سے نکال کر کافروں کو خاک چٹانے کی تدبیر کرو ۔ کیونکہ اسی کے لئے تم بھیجے گئے ہو ۔ اب تک جو غفلت ہوگئی اس پر توبہ استغفار کرو اور اللہ کے راستے پر اپنی جان اور اپنامال قربان کرنے کا پکا عزم کرو اور نام و نمود اور نمائش پر مال خرچ کرنے اور اپنے مال سے اسلام دشمن کافروں کو فائدہ پہنچانے سے بچو ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تم سے کوئی بڑا کام لے لے اور تمہارے نصیب جاگ جائیں اور تمہاری جان اور تمہارا مال اس کے پاک راستے میں قبول کر لیا جائے ۔
یا اللہ ہمیں اپنے مال اور اپنی جان کی قربانی کی ہمت اورتوفیق عطاء فرما اور ہماری طرف سے انہیں اپنے دربار میں قبول فرما ۔ ]
 
Top