اللہ تعالیٰ سے حیا

انتہا

محفلین
حدثنا يحيی بن موسی حدثنا محمد بن عبيد عن أبان بن إسحق عن الصباح بن محمد عن مرة الهمداني عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم استحيوا من الله حق الحيا قال قلنا يا رسول الله إنا نستحيي والحمد لله قال ليس ذاک ولکن الاستحيا من الله حق الحيا أن تحفظ الرأس وما وعی والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی ومن أراد الآخرة ترک زينة الدنيا فمن فعل ذلک فقد استحيا من الله حق الحيا قال أبو عيسی هذا حديث غريب إنما نعرفه من هذا الوجه من حديث أبان بن إسحق عن الصباح بن محمد
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اتنی حیا کرو جتنا اس کا حق ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو پھر پیٹ اور اس میں جو کچھ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے اس کی حفاظت کرو اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سٹر جانے کو یاد کیا کرو اور جو آخرت کی کامیابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے گا اور جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کر دیا۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 356 حدیث مرفوع مکررات
تشریح
سر کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ سر جسے خدا نے شرف مکرمت سے نوازا ہے خدا کے علاوہ کسی اور کے کام نہ آئے۔ سر کو جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے انسان کے ہاتھوں تراشے گئے فانی بتوں اور خود انسانوں کے سامنے سجدہ ریز کر کے ذلیل نہ کیا جائے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی دینداری کا سکہ جمانے کے لیے نماز نہ پڑھی جائے۔ سر کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جھکایا نہ جائے اور سر کو از راہ غرور و تکبر بلند نہ کیا جائے۔
" سر کے ساتھ" کی چیزوں سے مراد ہیں۔ زبان، آنکھ، اور کان اور ان چیزوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہ سے بچایا جائے، جیسے زبان کو غیبت میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ جھوٹ بولا جائے آنکھ سے نامحرم اور گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں اور کان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ مثلاً کہانی وغیرہ نہ سنی جائے۔
" پیٹ کی محافظت" کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔
" پیٹ کے ساتھ" کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ستر، ہاتھ پاؤں اور دل وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ان اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے محفوظ رکھا جائے مثلاً ستر کو حرام کاری میں مبتلا نہ کیا جائے، گناہ و فواحش کی جگہ جیسے میلے، تماشے، ناچ گانے میں نہ جایا جائے کہ اس طرح پاؤں معصیت سے محفوظ رہیں گے ہاتھوں سے کسی کو کسی بھی طرح کی ایذاء نہ پہنچائی جائے۔ جیسے نہ کسی کو مارے پیٹے، نہ کسی کا مال چوری کر کے یا چھین کر لے اور نہ نامحرم کو ہاتھ لگائے، اسی طرح دل کو برے عقیدوں، گندے خیالات اور خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔
آخر میں انسان کے جسم خاکی کے فانی ہونے کا احساس دلایا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہئے کہ آخرت کا ایک نہ ایک دن اس دنیا سے تعلق ہو جائے گا اور یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین و جمیل اور باعظمت کیوں نہ ہو قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت تو گوشت ہڈیا تک بوسیدہ وخاک ہو جائیں گی۔
پھر اس کے بعد ا یت (ومن اراد الآخرۃ) الخ فرما کر ایک ضابطہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ دنیا فانی ہے وہ دنیا اور دنیا کی لذات و خواہشات کو ترک کر دیتا ہے، نیز یہ کہ جو شخص آخرت کے ثواب اور وہاں کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں کی خواہش رکھتا ہے وہ دنیا کی ظاہری زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں پورے کمال کے ساتھ کسی ایک شخص میں یہاں تک کہ اولیاء میں بھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے مفہوم و مطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چنانچہ نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر و بیان کرنا مستحب ہے۔
مظاہر حق جدید، شرح مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 86
 

انتہا

محفلین
آمین،یا رب العالمین
اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے مفہوم و مطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چنانچہ نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر و بیان کرنا مستحب ہے۔
 
Top