البیرونی

میاں وقاص

محفلین
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی

المعروف البیرونی (پیدائش: 4ستمبر 973، وفات: 1048 ء) ایک بہت بڑے محقق اور سائنس دان تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البیرونی کے سرپرستوں یعنی آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے جرجان کی جانب رخت سفر باندھا وہیں اپنی عظیم کتاب "آثار الباقیہ" مکمل کی۔ حالات سازگار ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹا۔ اور وہیں دربار میں عظیم بو علی سینا سے ملاقات ہوئی۔




حالات زندگی

کاث شہر دریائے جیحون (دریائے آمو) کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس کے اردگرد کئی مضافاتی بستییاں تھیں جن میں ایک بستی کا نام بیرون تھا۔ اس مضافاتی بستی میں ایک یتیم بچہ پرورش پا رہا تھا جس کا نام محمد بن احمد تھا جو دنیا میں البیرونی کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بچہ شروع ہی سے قدرتی مناظر کا دلدادہ تھا۔ وہ دن بھر باغات میں بھرتا، خوب صورت پہاڑوں پر چڑھ جاتا، صحرا میں‌دوڑتا بھاگتا اور شام کے وقت گھر لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں ریحان کی کونپلوں اور ٹہنیوں‌کا ایک گلدستہ ہوتا جسے وہ ایک پیالے میں سجا دیتا اور جب ہوا چلتی تو اس گلدستے کی خوشبو اس کے غریب خانی کو معطر کردیتی۔ اس کی ماں اس کو اسی لئے ابو ریحان کہ کر پکارتی تھی۔ البیرونی کا باپ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا لیکن اس کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے روزی کمانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کام میں البرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتا تھا

ایک روز البرونی کی نباتات کے ایک یونانی عالم سے ملاقات ہو گئی۔ البرونی نے اسے ایک باغ میں بھول توڑنے اور جنگل کے درختوں کے نیچے پودوں کو کاٹتے دیکھا تو اس یونانی علم کے پاس پہنچ کر احتجاج کرتے ہوئے کہنے لگا: جناب آپ ان بھولوں کو کیوں توڑ رہے ہیں اور پودوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں؟ کیا آپ میری طرح ان کو کاٹے بغیر اور انھیں زندگی سے محروم کئے بغیر ان کی تصویریں نہیں بنا سکتےہیں؟ یہ سن کر یونانی علم ہنس پڑا اور کہنے لگا: بیٹے میں ان بھولوں اور پودوں کا علم کی خاطر جمع کر رہا ہوں۔ ان پودوں اور بھولوں سے ہم بیماریوں کت علاج کے لئے دوائیں تیار کر رہیں۔ یہ سن کر البیرونی خوشی سے طلایا: تو آپ نباتات کے عالم ہیں؟ یونانی علم نے پیا سے کہا: ہاں‌میرے بیٹے، میرا خیال ہے تمہیں پھولوں اور پودوں سے بہت محبت ہے۔ البیرونی نے کہا میں تو تمام قدرتی مناظر سے محبت کرتا ہوں۔ ستاروں، درخت، پودے، پھول، پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں سب ہی مجھے پسند ہیں۔ اس یونانی علم نے البیرونی کو روزانہ تعلیم دیتا رہااور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گزر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا، اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی اور یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کع بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی علم اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلےالبیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور بی علی کے خدمت میں جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا لے گیا۔ ابو نصر نے البرونی کے لئے الگ گھر تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبدالصمد کی شاگردی میں دے دیا۔ ۔


کارنامے ترمیم

البیرونی نے ریاضی، علم ہیت، تاریغ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں کتاب الہند ہے جس میں البیرونی نے ہندو‎ؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندو‎ؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سالہندوستان میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوئوں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے ۔ البیرونی کی ایک مشہور کتاب "قانون مسعودی" ہے جو اس نے محمود کے لڑکے سلطان مسعود کے نام پر لکھی۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی کی بڑی اہم کتاب ہے ۔ اس کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے ۔

البیرونی نے پنجاب بھر کی سیر کی اور "کتاب الہند" تالیف کی، علم ہیئت و ریاضی میں البیرونی کو مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے ، علم ہیت،طبیعیات، تاریغ تمدن، مذاہب عالم، ریاضی،کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام "البیرونی کریٹر" رکھا گیا ہے۔


تصنیفات و تالیفات

البیرونی نے تاریخ، ریاضی اور فلک پر کوئی سو سے زائد تصانیف چھوڑی ہیں جن میں کچھ اہم یہ ہیں:

کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ
یہ کتاب البیرونی نے جرجان کے حکمران شمس المعالی قابوس بن دشمکیر کے نام پر تحریر کی، اس کا خاص موضوع علم نجوم اور ریاضی تھا۔ لیکن اس میں بہت سے دیگر دلچسپ علمی، تاریخی اور مذہبی و فلسفیانہ باتیں بھی لکھی ہیں اور جگہ جگہ تنقیدی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرح کتاب اس دور کے اہم تاریخی، مذہبی اور علمی مسائل کی ایک تنقیدی تاریخ بن گئی ہے۔

کتاب الہند
تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں: کتاب الہند پر عربی زبان میں پہلی شہرہ آفاق کتاب، جس کا پورا نام تحقیق ما للھند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ ہے۔ یہ کتاب قدیم ہندویات کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مورخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے۔کتاب الہند کا مواد حاصل کرنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی،سنکریات جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندو عقائد، رسم و رواج کا غیر جانبدرانہ اور تعصب سے پاک انداز میں انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل مآخذ کے حوالے سے پہنچیں۔

  • کتاب مقالید علم الہیئہ وما یحدث فی بسیط الکرہ۔
قانون مسعودی
یہ البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے جس کا نام اس نے سلطان محمود عزنوی کے نام پر رکھا ہے۔ پورا نام ہے۔ یہ 1030 میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات، اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت میں لکھی جا چکی تھیں۔ اس کتاب کا علمی مقام بطلیموس کی کتاب المسطی سے کسی طرح کم نہیں۔

  • کتاب استخراج الاوتار فی الدائرہ۔
  • کتاب استیعاب الوجوہ الممکنہ فی صفہ الاسطرلاب۔
  • کتاب العمل بالاسطرلاب۔
  • کتاب التطبیق الی حرکہ الشمس۔
  • کتاب کیفیہ رسوم الہند فی تعلم الحساب۔
  • کتاب فی تحقیق منازل القمر۔
  • کتاب جلاء الاذہان فی زیج البتانی۔
  • کتاب الصیدلہ فی الطب۔
  • کتاب رؤیہ الاہلہ۔
  • کتاب جدول التقویم۔
  • کتاب مفتاح علم الہیئہ۔
  • کتاب تہذیف فصول الفرغانی۔
  • کتاب ایضاح الادلہ علی کیفیہ سمت القبلہ۔
  • کتاب تصور امر الفجر والشفق فی جہہ الشرق والغرب من الافق۔
  • کتاب التفہیم لاوائل صناعہ التنجیم۔
  • کتاب المسائل الہندسیہ۔
  • مقالہ فی تصحیح الطول والعرض لمساکن المعمورہ من الارض۔

دریافتیں

ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر رسرچ کی، انہوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے، انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔
 
Top