مصطفیٰ زیدی اقوام متحدہ ۔۔ مصطفیٰ زیدی

شاہ حسین

محفلین
تم میں کیا کچھ نہیں؟ احساس ، شرافت ، تہذیب
مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی
سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا
میں تو انُ تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو
تم سے وہ ربظ تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جان بہار
مور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاؤں
سادہ لوحی پہ کوئی شرط ، کوئی زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائی
کہ یہاں تو کوئی ظآلم ، کوئی کمزور نہیں
مختلف نقطوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرہّ ارض مگر گول ہے چوکور نہیں

مصطفیٰ زیدی

شہر آذر



41
 

arifkarim

معطل
ہاہاہاہا، شاعر اپنے آپکو بہت عقلمند سمجھتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتوں نے اپنی الیگل ایکٹیویٹی "لیگالائز" کرنے کیلئے بنائی تھی! :rollingonthefloor:
اسوقت دنیا میں جتنے بھی کنفلیکٹس قائم ہیں، سب اقوام متحدہ کی وجہ سے ہیں۔ مسئلہ کشمیر، عراق، افغانستان۔ فلسطین ، سب اقوام متحدہ کے لیگل قوانین کا نچوڑ ہے اور ہم ابھی تک انکو "اچھا" سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اسکا کبھی بھی رُکن نہیں بننا چاہئے تھا۔
 

شاہ حسین

محفلین
ہاہاہاہا، شاعر اپنے آپکو بہت عقلمند سمجھتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتوں نے اپنی الیگل ایکٹیویٹی "لیگالائز" کرنے کیلئے بنائی تھی! :rollingonthefloor:
اسوقت دنیا میں جتنے بھی کنفلیکٹس قائم ہیں، سب اقوام متحدہ کی وجہ سے ہیں۔ مسئلہ کشمیر، عراق، افغانستان۔ فلسطین ، سب اقوام متحدہ کے لیگل قوانین کا نچوڑ ہے اور ہم ابھی تک انکو "اچھا" سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اسکا کبھی بھی رُکن نہیں بننا چاہئے تھا۔

بہت شکریہ جناب عارف کریم صاحب آپ کی آرا کا ۔

آپ سے معدبانہ گزارش ہے بار دیگر نظم ملاحظہ فرمائیں ۔

انشاءاللہ متّفق ہو جائیں گے در اصل جو شاعر کا کہنا ہے وہ ہی آپ کا !:idontknow:
 

علی فاروقی

محفلین
اقوامِ متحدہ،،،مصطفی زیدی

تم میں کیا کچھ نہیں احساس، شرافت ، تہذیب
مجھ میں کیا ہے؟ نہ بصیرت نہ فراست نہ شعّور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خُوبی
سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا
میں تو اُن تیرہ نصیبوں میں پلا ہو ں جن کو
تم سے وہ ربط ہے جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جانِ بہار
مُور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاوں
سادہ لُوحِی پہ کوئ شرط کوئ زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائ
کہ یہاں تو کوئ ظالم کوئ کمزور نہیں
مختلف نکتوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرہ ارض مگر گُول ہے چوکور نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
اقوامِ متّحدہ

تم میں کیا کچھ نہیں؟ احساس ، شرافت ، تہذیب
مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی

سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی، دن آیا
میں تو اُن تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو
تم سے وہ ربط تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جان بہار
مور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاؤں
سادہ لوحی پہ کوئی شرط، کوئی زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائی
کہ یہاں تو کوئی ظالم ، کوئی کمزور نہیں
مختلف نقطوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرۂ ارض مگر گول ہے چوکور نہیں


مصطفیٰ زیدی

شہر آذر
 
آخری تدوین:
Top