کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

اقدار کا کسی کو یہاں پاس بھی نہیں
اور پاس کی تو چھوڑیے، احساس بھی نہیں

احساس بار بار کے حملوں سے مر گیا
کیا آس کی ہو صبح، شبِ یاس بھی نہیں

اس بزمِ بے نیاز کی کیا قدر دل میں ہو
میرے وجود کا جسے احساس بھی نہیں

دریا بھی آس پاس ہے اور بحر بھی قریب
افسوس یہ کسی کو یہاں پیاس بھی نہیں

جاوید بحر و بر میں فسادات ہیں بپا
کوئی نہیں خضر یہاں، الیاس بھی نہیں
 

شیزان

لائبریرین
اقدار کا کسی کو یہاں پاس بھی نہیں
اور پاس کی تو چھوڑیے، احساس بھی نہیں

احساس بار بار کے حملوں سے مر گیا
کیا آس کی ہو صبح، شبِ یاس بھی نہیں


بہت عمدہ کاشفی جی
 
Top