اقبال اقبال کی نظم شمع اور شاعر سے انتخاب

منہاجین

محفلین
تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اَب تو وعدہء دیدارِ عام آیا تو کیا

انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا

آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
اَب کوئی سودائیء سوزِ تمام آیا تو کیا
 

NAZRANA

محفلین
وعدہء دیدارِ عام

منہاجین نے کہا:
تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اَب تو وعدہء دیدارِ عام آیا تو کیا

انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا

آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
اَب کوئی سودائیء سوزِ تمام آیا تو کیا
بہت خوب۔ :lol:
 

محمداحمد

لائبریرین
تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اَب تو وعدہء دیدارِ عام آیا تو کیا

آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا

آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

کیا بات ہے۔

شاعری اور اقبال کی شاعری کمال ہے بھائی۔۔۔!
 
جناب محمد وارث کی خصوصی توجہ کا طالب ہوں۔
علامہ صاحب کی اس نظم کا پہلا بند (مشمول: بانگَ درا)

شمع اور شاعر
(فروري 1912ء( شاعر


دوش مي گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس مي سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
مي تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمي خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختي
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختي

سرخ رنگ میں لکھے گئے مصرعے کے آخر میں اکیلا حرف ’’ن‘‘ ؟ یہ کتابت کی غلطی ہے یا میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا؟ اتفاق سے میرے پاس ’’بانگَ درا‘‘ کتابی صورت میں موجود نہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جگہ دیکھا، اسی طرح لکھا پایا۔
درست کیا ہے، راہنمائی فرمائیے گا۔

الف عین
فارقلیط رحمانی
فلک شیر
محب علوی

پس نوشت: علامہ اقبال سائبر لائبریری کی سائٹ پر بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔
اس صفحے پر آخری شعر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
جناب محمد وارث کی خصوصی توجہ کا طالب ہوں۔
علامہ صاحب کی اس نظم کا پہلا بند (مشمول: بانگَ درا)

شمع اور شاعر
(فروري 1912ء( شاعر


دوش مي گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس مي سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
مي تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمي خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختي
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختي

سرخ رنگ میں لکھے گئے مصرعے کے آخر میں اکیلا حرف ’’ن‘‘ ؟ یہ کتابت کی غلطی ہے یا میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا؟ اتفاق سے میرے پاس ’’بانگَ درا‘‘ کتابی صورت میں موجود نہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جگہ دیکھا، اسی طرح لکھا پایا۔
درست کیا ہے، راہنمائی فرمائیے گا۔

الف عین
فارقلیط رحمانی
فلک شیر
محب علوی

پس نوشت: علامہ اقبال سائبر لائبریری کی سائٹ پر بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔
اس صفحے پر آخری شعر

محمد یعقوب آسی صاحب!
کتابت کی غلطی سے ن الگ ( جداگانہ) تحریر ہو گئی ہے
اصل میں نُون مِیم سے مِلی ہوئی ہے (الحاق رکھتی ہے )
صحیح شعر یوں ہے:

می تپد صد جلوہ درجانِ امل فرسودمن
برنمی خيزد ازيں محفل دلِ ديوانۂِ
پوری صحیح نظم ذیل میں لکھ رہا ہوں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوش می گفتم بہ شمعِ منزلِ ويرانِ خويش
گيسوے تو از پرِ پروانہ دارد شانۂِ

درجہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحراستم
نے نصيب محفلے، نے قسمتِ کاشانۂِ

مدتے مانندِ تومن ہم نفس می سوختم
در طوافِ شعلہ ام بالے نہ زد پروانۂِ

می تپد صد جلوہ درجانِ امل فرسودمن
برنمی خيزد ازيں محفل دلِ ديوانۂِ

ازکجا ايں آتشِ عالم فروزاندوختی؟
کرمکِ بے مايہ را سوزِ کليم آموختی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:):)
 
آخری تدوین:
Top