اقبال تیرے عشق نے سب بل دئے نکال

shehzubaba

محفلین
اقبال تیرے عشق نے سب بک دئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
 
محترم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں شعر علامہ کے کسی بھی مجموعہ کلام میں نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ دونوں غلط ہیں تحقیق فرمائیے
 
محترم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں شعر علامہ کے کسی بھی مجموعہ کلام میں نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ دونوں غلط ہیں تحقیق فرمائیے
یہ تو ایک ہی شعر ہے۔
بلکہ اوپر دیے گئے حوالہ کے مطابق اقبال کا ہے۔ واللہ اعلم
 
ہمیں تو یہ شعر اقبال ہی کا لگتا ہے، یعنی اقبال مستری کا!!!
اس بات پر تو اتفاق ہے کہ یہ مطبوعہ نہیں۔ اور اقبال نے تخلص کا استعمال خال ہی کیا ہے۔
کچھ ہچکچاہٹ اس سبب ہے کہ مذکورہ مضمون ناصر زیدی صاحب کا ہے، تو شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں۔ :)
 
اس بات پر تو اتفاق ہے کہ یہ مطبوعہ نہیں۔ اور اقبال نے تخلص کا استعمال خال ہی کیا ہے۔
کچھ ہچکچاہٹ اس سبب ہے کہ مذکورہ مضمون ناصر زیدی صاحب کا ہے، تو شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں۔ :)
یعنی ہم اسے اقبال کا غیر مطبوعہ شعر کہیں گے۔ ناصر زیدی کے مضمون کا حوالہ آپ نے دیا ہے تو اسی مضمون کا یہی اقتباس پیش کردیتے ہیں۔

’’
ایک ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ،مصنف اور نامور کالم نویس مجاہد بریلوی نے روزنامہ ’’نئی بات‘‘ جمعہ 12ستمبر 2014ء کو اپنے کالم ’’شہرناپُرساں سے ‘‘ میں حضرت علامہ اقبالؒ کے ایک مشہور شعر کو ذوق دہلوی کو بخش دیا، وہ بھی اس شکل میں :

اے ذوق تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال

مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی

جبکہ ’’بانگ درا‘‘ میں شامل علامہ اقبال کی غزل ہے :

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے مگر اس میں مقطع شامل نہیں اور مقطع والا شعر ’’کلیات اقبال‘‘ میں بھی کہیں دستیاب نہیں، تاہم ڈاکٹر گیان چند جین کی تالیف ’’ابتدائی کلام اقبال ‘‘ میں 17اشعار کی غزل بحوالہ ’’مخزن ‘‘ اپریل 1906ء شامل ہے، اس کے مطابق صحیح مقطع علامہ اقبال کا یوں ہے:

اقبالؔ عشق نے مرے سب بل دیئے نکال

مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
‘‘
 

فرخ منظور

لائبریرین
اقبالؔ عشق نے مرے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
(علامہ اقبال)
مکمل غزل
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

سو سو امید بندھتی ہے اک اک نگاہ پر
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

دے کر جھلک سی آپ تو پردے میں ہو رہے
اور کہہ گئے نگاہ کو ڈھونڈا کرے کوئی

بولے بھی سن کے قصّۂ ہجراں تو یہ کہا
کی دل لگی تو یہ بھی گوارا کرے کوئی

جوش و خروشِ عشقِ غلامِ نبی ، اگر
دیکھا نہ ہو تو آج تماشا کرے کوئی۱

ہم جانتے ہیں میم کے پردے میں کون ہے
ہاں بھیدیوں سے منہ نہ چھپایا کرے کوئی

صبح ازل یہ دردِ محبت نے دی صدا
مجھ کو بھی ساتھ حسن کے پیدا کرے کوئی

محفل میں شغلِ مے ہو ، شبِ ماہتاب ہو
اور میں گروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

اقبالؔ عشق نے مرے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی۲
۱ - پیسہ اخبار، لاہور ۳۰ مئی ۱۹۰۳ء
۲ - مخزن، اپریل ۱۹۰۳ء
 

فہد اشرف

محفلین
اقبال سائبر لائبریری پہ موجود کلیات باقیات شعر اقبال کا عکس۔

Screenshot-20200421-155433-Adobe-Acrobat.jpg
 
آخری تدوین:
Top